دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کنکاں پکی گئیاں !
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
از - واحد کاشر ۔لندن۔ڈڈیال

میں یادوں کے جزیروں پہ رہتا ہوں،خوشبوئیں جہاں اپنا جمالِ حسن بکھیرتی ہیں اور تتلیاں اپنی پنکھڑیوں میں رنگ سجا کر ہوا کے دوش پر کاسنی یادوں کی مہک لئے اُتر آتی ہیں۔ ہاں میں بیتے دنوں کے افسانے لکھتا رہتا ہوں،زندگی بھی تو ایک افسانہ ہی ہے نا؟ دور کسی یاد کے جزیرے پر منگلا ڈیم کی مٹی کی دُھول میں گُم ایک یاد انھی اپریل ، مئی یا پھر جون کے مہینوں کی بھی سلامت ہے، آج کی یہ یاد منگلا ڈیم پر اپنے پُرکھوں کی زمینوں پر گندم کی کٹائی سے وابستہ ہے۔

آج اُنھی کچھ یادوں کو تازہ کرلیں ، مجھے پُوری طرح سے یاد ہے کہ جب ڈیم پہ فصلیں پک جایا کرتیں تو ہمارے بزرگ کس طرح اُن کی کٹوائی کا انتظام کیا کرتے تھے، پھر کس تردد سے ڈیم پہ خیمے (تنبو) نصب کیا کرتے تھے، پھر ہماری پرانی زمینوں پہ ایک چھوٹا سا محلہ آباد ہو جایاکرتا تھا، میں چھوٹا سا ہوا کرتا تھا تو شام کو اجی جی (دادا جان) اور کٹائی کرنے والے مزدوروں کو کھانا دینے جایا کرتا تھا ، پھر دادا جی مجھے دیگر خیمے والے ہمسائیوں کے ہاں لے جایا کرتے تھے اور فخر سے بتاتے کہ یہ میرا پوتا ہے ، تو سارے کتنے پیار سے مجھے کہتے تھے کہ کیا کھانا پسند کرو گے؟ کوئی مالٹا دیا کرتا تھا تو کوئی سیب، یہ سب میرے اجداد کے پرانے پڑوسی ہوا کرتے تھے،جب منگلا ڈیم کے ظالم پانی نے میری دھرتی کا سینہ چاک نہیں کیا تھا ،اُن میں بلا کا خلوص ہوا کرتا تھا ،یہ بزرگ آپس میں بڑے دھیمے مگر پُرخلوص لہجے میں بات کیا کرتے تھے ، پھر دادا جی مجھے اپنے کندھے پہ بٹھا کر سہہ پہر کو اپنے کھیتوں کے ساتھ واقع کنویں کے قریب لاتے اور کہا کرتے تھے کہ یہاں پر میں بچپن میں نہایا کرتا تھا ، ساتھ واقع دوسرے کھیت کی طرف اشارہ کر کے کہتے کہ میں یہاں پر کبڈی کھیلا کرتا تھا پھر کچھ دیر کے لئے خاموش ہو جاتے شاید وہ اپنے کسی بچپن کے دوست کو یاد کررہے ہوتے تھے، اگلے دن دوپہر کے کھانے کا پو چھتے تو کہتے ، ساگ ، لسی اور چٹخارے دار مرچ ہونے چائیے، اور روٹیاں زرا گھی میں "چپڑی" یعنی تر ہونی چائیں۔

پھر گھر میں صبح ہوتے ہی ماں جی اور بے جی (دادی جان) مزدوروں کے لئے کھانا تیار کرنے لگ جاتیں، دوپہر چڑھے جب کھانا پرانی زمینوں تک پہنچتا تو پھر سبھی کنویں کے پانی کو صوفی کے ڈالڈہ گھی کے پانچ کلو والے خالی ڈبے سے نکالتے تو تازہ پانی مٹھاس بھری خوشبو پورے علاقے پہ چھا جایا کرتی تھی ، پھر کھانے کا وقت ہو جاتا تو ہر طرف کھانے کی خوشبووں کا بسیرا سا ہو جاتا ، کوئی بوڑھی دادی دوسرے تنبو (خیمے) سے ٹھنڈا پانی ڈال کر لاتیں تو کوئی سالن کی پلیٹ ۔۔۔دوسرے خیمے میں لے جایا کرتا، کوئی لسی کا بھرا گلاس پیتا تو کوئی دیسی گھی سے تر تندور والی روٹی پہ گھر کی امبیوں اور لسوڑوں کا اچار رکھ کر مزے مزے سے کھاتا، میرے ان تمام بزرگوں میں ایک بات مشترک تھی کہ خلوص ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ، ہماری بوڑھی دادیاں اور نانیاں جب کھانا کھانے لگتیں تو میں چُپ سادھے انھیں دیکھتا رہتا کہ وہ کس طرح سادگی سے ایک دوسرے کے برتنوں میں کھانا ڈال دیتیں تھیں ، میں نے کبھی بھی ان سے یہ نہیں سُنا کہ کوئی چیز کم ہو گئی ہو، کیونکہ جہاں خلوص ، وفا اور سچائی کے رشتے ہوں وہاں صرف مروت ہی پیدا ہوتی ہے ۔

میں اپنے وطن کا چھوٹا سا مزاحمت کار اب اس چیز پہ کامل یقین کرچکا ہوں کہ منگلا ڈیم کی غیر قانونی ، غیر اخلاقی اور غیر انسانی تعمیر نے ہمارے گھروں کو ہی نہیں لُوٹا بلکہ ہمارے رشتوں ، احساس کو بھی قتل کردیا ہے، منگلا ڈیم کا پانی ہماری دھرتی کی کوکھ کو فقط اُجاڑ کر نہیں لے گیا بلکہ ہماری ایک بہت عظیم النشان تہذیب اور تمدن کو ماورائے عدالت مار کر ہماری زمینوں پر چڑھایا گیا ہے، اب وہ رشتے ، وہ گھی والی روٹیاں، وہ تمدن والی دادیاں ، وہ خوبصورت کڑوں والی نانیاں ، وہ صافوں والے دادے ، وہ پگوں والے نانے نہیں رہے ۔۔۔۔۔ ہائے ۔۔۔ وقت اُنھیں نگل گیا ،گندم کی کٹائی والا موسم ہر بار کی طرح اب کی بار پھر اپنے ساتھ منگلا ڈیم والا پانی بھی لے کر اُتر آئے گا ، اب ہم فریاد بھی نہیں کرسکتے ، نہ ہی احتجاج کہ ہمارے اُس وقت کے سیاسی کھڑپینچوں نے ،ذیلداروں،نمبرداروں ، پٹواریوں اور گرداورں کے ہاتھ آٹھ سو روپے فی کنال سونا اُگلتی زمین کو جو بیچ ڈالا تھا؟ یہ سوداہ ایک بار نہیں ہوا بلکہ 1967 کے پہلے پانی کے چڑھنے کے بعد سے ہر سال ہوتا ہے۔

اب کی بار گندم بھی شاید پک جائے، میرے محبوب وطن کی دھرتی پہ مٹی کی دُھول بھی اٹ جائے ،اور ہمارے پُرکھوں کے لوح مزار اور دربار بھی ایک بار پھر منگلا مائی کے چھوڑے ہوئے پانی میں دوبتے جائیں گے مگر یادیں تو باقی ہیں نا ؟ کنکاں پکی گئیاں (گندم پک گئی ہے ) شاید اسی یاد کے ساحل پر آباد جزیرے کو یاد کرنے کا سندیسہ ہے۔خدا کرے اب کی بار پھر کنکیں بکیں ۔۔ ڈھیر سارا اناج گھروں کو لوٹے ۔۔ دیس کی باقی بچی ہوئیں دادیاں ، نانیاں اور ہماری مائیں بہت خوش ہوجائیں ۔۔۔ بزرگ دادے اور نانے خوشی سے جھوم جائیں ۔۔۔ کسانوں کی پگ سلامت رہے ۔۔۔ آمین ثمہ آمین
واپس کریں