دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کیا مسئلہ کشمیر پر پاکستان کی پالیسی بدل چکی ہے؟
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
ان دنوں سوشل میڈیا سے لے کر مسئلہ کشمیر سے باخبر عوامی حلقوں تک یہ گفتگو زبان زدعام ہے کہ کیا حکومت پاکستان کی کشمیر سے متعلق پالیسی میں بدلاو لایا جاچکا ہے اس سوال کا کوئی سیدھا سادہ جواب ابھی تک دستیاب نہیں ہوسکا لیکن اشاروں کی بھی اپنی ہی زبان ہوتی ہے اور اشاروں کی اس مخصوص زبان کو صرف ماہرین لسانیات ہی سمجھ سکتے ہیں اور بقیہ جو نہیں سمجھ سکتے وہ محض قیافے ہی کرتے ہیں۔حکومت پاکستان کی کشمیر پالیسی سے متعلق اکثر حلقوں میں یہ شدید غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی ہمیشہ ایک ہی ڈگر پہ چلتی آرہی ہے یعنی کہ پاکستان شروع سے ہی کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حصول پہ کاربند چلا آرہا ہے اگر آپ بھی یہی سمجھتے ہیں تو آپ بھی ایک تاریخی غلط فہمی کاشکار ہیں۔حقیقت یہ ہے حکومت پاکستان کا مسئلہ کشمیر پہ موقف ہمیشہ سے ہی مختلف زاویوں میں گھومتا رہا ہے بلخصوص 1990 میں شروع ہونے والی عسکریت کے مابعد حکومت پاکستان کی اس ڈانوں ڈول کشمیر پالیسی نے کئی ایسے سوالات چھوڑے ہیں جن کا جواب ہنوز نہیں تلاش کیا جاسکا۔

مثال کے طور پہ حکومت پاکستان کی سرکاری کشمیر پالیسی کہ پاکستان کشمیریوں کی صرف سیاسی و سفارتی، اخلاقی مدد کرتا ہے کے بالکل متضاد اُس کے ساتھ انضمام کے حق میں برسرپیکار عسکری گروہ کہتے رہے ہیں کہ پاکستان کی عسکری مدد ہی کی بدولت مسلح جدوجہد چل رہی تھی اور اب وہی سابقہ یا موجودہ عسکری پسند کہتے ہیں کہ ہمیں حکومت پاکستان نے دھوکہ دیا ہے اور بیج منجدھار کے لاکر ڈبو دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں پاکستان کے مختلف شہروں میں رہنے والے سابقہ و موجودہ عسکری کمانڈروں کی پرسرار ہلاکتوں نے خود کشمیر کے پاکستان نواز حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے گو کہ کچھ عناصر اس مسئلے کو بھارتی خفیہ ادارے "را" کی کارستانی قرار دے کر پہلوتہی کی کوشش بھی کررہے ہیں لیکن چونکہ یہ ہلاکتیں پاکستان کی سرزمین پہ ہوئیں ہیں اس لئے ان تلخ سوالات سے دامن چھڑانا اتنا آسان نہیں دکھائی دے رہا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کسی پہ بھی انگلی اٹھانا اور مورد الزام ٹھرا دینا بھی آسان کام نہیں۔ اشاروں کی زبان جو ہمیں سمجھنے کی ضرورت ہے وہ دنیا بھر میں کشمیر کے نام پہ بنے مختلف سیلوں کی پرسرار خاموشی بھی ہے ورنہ یورپ سے لے کر امریکہ تک کشمیر کے نام پہ ہر روز روٹیاں پکا کرتیں تھیں، دیسی ریستورانوں کے ٹیبلوں پہ خوشبودار کھانوں کو آگے سجا کر کشمیری شہدا کی یاد میں ٹسوے بہائے جاتے تھے وہ سارے کے سارے کھاتے اب رُک سے گئے ہیں ۔

پانج اگست 2019 جب غاصب بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں کشمیر میں آرٹیکل 370A و 35اے کو توڑ کر اسے جابرانہ طریقے سے دو یونین ٹریٹریز میں تبدیل کردیا تھا کے بعدبیرونی دُنیا میں پاکستان نواز حلقوں کی "کشمیر ہٹی" سُونی سُونی سے لگنے لگی ہے ورنہ یقین مانیں جن کو مسئلہ کشمیر کی آئینی فقہ (Jurisprudence) کی الف ب کا بھی نہیں پتہ ہوتا تھا وہ بھی پاکستان ٹی وی کے انگریزی بلیٹن میں ماہر کشمیریات کے طور پہ متعارف کروائے جاتے تھے وہی احباب ذی وقار اب معاشی بیروزگاری کے ہاتھوں تنگ آکر" چھوٹی موٹی ٹیکسی" وغیرہ ڈالنے کی طرف مائل بہ کرم ہوچکے ہیں ۔

اس سارے معاملے میں سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کا یہ واضع بیان کہ " اب حد متارکہ کے اس طرف سے دوسری طرف جانے والا پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہوگا" اس پالیسی کے بدلتے موسم میں خزاں کی رُت میں بارش کا سب سے بڑا جھونکا بن کر ہمارے سامنے ہے، کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، حالیہ دنوں میں سابق آرمی چیف جنرل باجوہ سے منسوب یہ بیان کہ پاکستان و بھارت کو بیس سالوں کے لئے مسئلہ کشمیر سردخانے میں ڈال کر دیگر حل طلب مدعوں کو حل کرنے کی طرف سوچنا ہوگا، بھی اسی تبدیل ہوتی پالیسی کا ایک زاویہ سمجھنے کا تقاضا کرتا ہے بلکہ واقفان حال و رمل تو یہاں تک کہنے سے نہیں چونکتے کہ پانچ اگست 2019 کے بھارتی اقدام سے پاکستانی حکومت کو پہلے ہی آگاہ کردیا گیا تھا اور اس سلسلے میں دونوں ممالک کے خفیہ اداروں کی اعلیٰ ترین قیادت کی دبئی میں ملاقاتیں بھی ہوئیں تھیں، غرض کہ اس بدلاو کو لانے میں ایک تسلسل کا عمل مربوطی سے جاری رکھا گیااور یہ سارے مبینہ واقعات تصویر کے نئے رُخ کو متعین کررہے ہیں البتہ کچھ پاکستان نواز حلقے اب بھی اس تبدیلی کو قبول کرنے سے قاصر ہیں اور اُن کے فہم و ادراک میں اس کی متعدد دیگر وجوہات کے علاوہ یہ بات راسخ ہے کہ پاکستانی عوام کشمیر پالیسی پہ کسی بھی بدلاو کو قبول نہیں کرسکتے ، بادی النظر میں یہ ایک قدرے معقول جوازیت ہوسکتی ہے لیکن پاکستانی عوام کی سیاست سے وابستہ یا باخبر سیاسی کارکنوں کی اکثریت ملک میں جاری سیاسی بحران میں تختہ مشق بن کر تقسیم در تقسیم سے دوچار ہے انھیں لفظ کشمیر اب ماضی قریب کا لایعنی سا لاحقہ سا لگنے لگا ہے آپ نے اس کا عملی مظاہرہ یاسین ملک کو سزا سنائے جانے کے دن دیکھ لیا ہوگا جب اُن کی شریک حیات اور بیٹی راولپنڈی کے مرکزی پریس کلب میں رو رو کر ایک سیاسی جماعت کے سربراہ سے فریاد کررہی تھیں کہ وہ ایک دن کے اپنی سیاسی سرگرمی کو معطل کردیں لیکن کشمیر کی بہو اور بیٹی کی فریادیں کسی نے سننے کی اور اُن پہ کان دھرنے کی زحمت نہیں کی۔ یہ سارے اشارے ایک نئے بدلاو کے indicators ہی فراہم کرتے ہیں۔

یہ تبدیلی محض ایک عام تبدیلی نہیں ہوسکتی اس کے اوپر کئی سالوں سے کام ہونے کی بازگشت بھی ہورہی تھی، امریکہ میں تھنک ٹنکس کی ملاقاتیں، خفیہ اداروں کے مبینہ بیک چینلز رابطے، نئے نئے عجیب و غریب قسم کے فارمولے ہمیں جنرل مشرف کے چار نکاتی فارمولے کی یاد تازہ کرواتے ہیں۔پاکستان دراصل دو طرح کے گھمبیر ترین بحرانوں میں پھنس چکا ہے ایک طرف تاریخ کے سب سے بڑے معاشی بحران کے تھپیڑے ہیں اور دوسری طرف اس ملک کے اپنے ہی کبھی نہ سلجھنے والے سیاسی چپیڑے ہیں، ایسے میں حالات و واقعات کا تعین کرنا بھی حتی المکان سے انتہائی دور ہوچکا ہے، کشمیر پالیسی میں دانستہ یا نادانستہ تبدیلی بھی شاید اسی مخمصے کی آئینہ دار ہوسکتی ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اہل جموں کشمیر بالخصوص پاکستان نواز حلقوں کو اس مرحلے پہ کیا سوچنا چاہئیے؟ اور کیا حکمت عملی ترتیب دینی چاہئیے؟ یہی وہ نکتہ ہے جس پہ سنجیدہ فکری، تدبر اور فراست کے ساتھ ساتھ بالغ نظری کی بھی ضرورت ہے ۔
(مضمون نگار کا تعلق پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر سے ہے اور وہ کشمیریات کے ایک طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک آزاد صحافی کے طور پہ لکھتے ہیں )
واپس کریں