دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
رمضان المبارک میں غذائی اشیاء کا ضیاع
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
عید سے دو دن پہلے ہمارے ہاں کوڑہ کرکٹ لے جانے کا دن تھا ، حسب معمول کوڑے دانوں کو سڑک کنارے رکھ دیا گیا اور اسے لے جانے والی گاڑی بمعہ عملہ علی الصبح پہنچ آئی ،کوڑے والی گاڑی عام معمول سے تھوڑی دیر لگا کر پہنچی ۔ ڈرائیور و عملے سے رسمی علیک سلیک ہوئی ۔ صبح بخیر و حال احوال کے تبادلے کے بعد پوچھا ۔ آج آپ لوگ دیر سے آئے ۔ مصروفیت زیادہ ہوگئی ہے کیا ؟ ان میں ایک کہنے لگا ۔ جی ہاں گزشتہ ایک ماہ سے بہت زیادہ کام بڑھ گیا ہے ۔ میرا خیال ہے کہ آپ کے ہاں رمضان کا مہینہ ہے ۔ میں نے کہا جی ایسا ہی ہے ۔ کہنے لگا کہ اس ماہ میں جتنا فوڈ والا کچرا ہم اٹھاتے ہیں اتنا تو سال بھر نہیں اٹھاتے ۔ ایشیائی آبادی والی جس گلی میں بھی جاو کچرا دانوں کے ساتھ ساتھ بڑے بڑے پلاسٹک بیگز بھرے ہوئے ملتے ہیں ۔ جہاں صرف اور صرف غذائی کچرا Food waste ہی ڈالا گیا ہوتا ہے ۔

میں نے اپنے گریبان کی طرف جھانکا ۔ غور کیا اور سوچا ۔ یہ ورکر سو فی صد درست کہہ رہا ہے ۔ ہم رمضان المبارک میں اکثر زائد المقدار کھانے بنا لیتے ہیں ۔کیونکہ دورانِ روزہ ہمیں بھوک کی شدت محسوس ہورہی ہوتی ہے ۔ ہمارا دل کرتا ہے کہ افطاری والے ٹیبل یا دسترخوان پر سموسے بھی ہوں ، پکوڑے بھی ، ہر قسم کا پھل فروٹ بھی ضروری ہے ۔ کھانے میں گوشت یا چوزہ ہو ۔ چاول بھی ہوں ۔ پھر روٹی بھی ضروری ہے ۔یہاں برطانیہ میں عمومی طور پر دورانِ رمضان ہر گھر میں دو سے زائد ہانڈیاں پکتی ہیں ۔ پھر میٹھا بھی لازمی ہے ۔ اب بندہ کیا کیا کھائے ؟ پیٹ میں گنجائش بڑی واجبی سی ہوتی ہے لیکن آنکھوں کی بھوک بندے کو مدہوش کردیتی ہے ۔

نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کھانے کو بالاخر پھینکنا ہی پڑتا ہے کیونکہ ہمارے آبائی سماج میں باسی کھانا ، کھایا جانا گویا باعث توہین سمجھا جاتا ہے ۔ سواد ای نی اشنا اب اگلا دن آتا ہے تو پھر وہی پرانی کہانی دوہرائی جاتی ہے ۔ یہ سلسلہ عید تک پورے تزک و اختشام سے جاری رہتا ہے ۔ یقین کریں ہم اس مقدس ماہ سینکڑوں پائونڈز فی گھر کے حساب سے کھانا ضائع کردیتے ہیں ۔یہ کھانا بچایا جاسکتا ہے ۔ اسے کسی غریب ملک کے ضرورت مند انسانوں تک بھی پہنچایا جاسکتا ہے ۔ جہاں انسانیت ایک ایک نوالے کو ترس رہی ہوتی ہے ۔ جہاں بھوک ، ننگ اور غربت نے زندگی عذاب بنا رکھی ہے ۔ خود ہمارے آبائی جموں کشمیر کے سماج میں آپ اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچیں کتنے مفلس و نادار آپ ذاتی طور پہ جانتے ہیں جنھیں دو وقت کی روٹی بمشکل پوری ہوتی ہے؟ ذرا دل کو ٹٹول کر اپنے ضمیر سے پوچھیں کہ کتنی بیوہ عورتیں ہیں جو ایک وقت کے نوالے کے لئے کتنے گھروں کے برتن مانجھتی ہیں ؟

فطرت کی تقسیم نے اگر مجھے یا آپ کو عزت سے روٹی روزی دے دی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم کھانوں کو پکا پکا کر زمین پہ کچرے کے گڑھوں کا مدفن بنائیں ؟ یا پھر حسب ضرورت یا حسب بھوک کھانا بنائیں اور باقی کی رقم کسی یتیم ، غریب ، مفلس و نادار گھرانے تک خود ہی باعزت طریقے سے پہنچا آئیں ۔ فیصلہ ہم نے کرنا ہے ۔۔ ہاتفِ فطرت نے یہ فیصلہ آپ کے شعور ، فہم اور فکر پہ چھوڑ رکھا ہے ورنہ چاہے تو ایک لمحے میں لکھ کو ککھ بھی کرسکتا ہے ۔
واپس کریں