دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جی 20 ، جموں کشمیر ، بھارت اور چانکیہ سفارت کاری
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
از واحد کاشر ۔ لندن

بھارت اس سال دسمبر میں جی 20 کی صدارت سنبھالے گا اور 9 اور 10 ستمبر 2023 کو بھارتی دارالحکومت میں G20 کے سربراہی اجلاس کی میزبانی کرے گا ۔ بھارتی وزارت خارجہ کے اس اعلان نے وقتی طور پہ اس کانفرنس کو بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر میں منعقد کروائے جانے کی قیاس آرائیوں پر پردہ ڈال دیا ہے جس کے تحت نریندر مودی حکومت کی جانب سے بھارتی زیر قبضہ خطے میں "معمول" کی واپسی کو ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن بھارتی حکمرانوں کی شاطرانہ پالیسیوں کو صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بھارت کی چانکیہ سفارت کاری اندرون خانہ کیا گل کھلا رہی ہے آیا کہ وہ اپنے سفارتی چینلوں کے ذریعے اسے مقبوضہ جموں کشمیر میں ہی منعقد کروانے کے لئے خاموشی سے کام تو نہیں کررہا ؟ اس سلسلے میں ایک اور بات بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہوگی کہ بھارت ممکنہ طور پر ایک کانفرنس لداخ کے ہمالیائی خطے میں برفانی گلیشیر کے تیزی سے پگھلنے اور اس کے عالمی ماحولیاتی تعلق کی نسبت ظاہر کروا کر بھی منعقد کرواسکتا ہے تاکہ وہ بزعم خویش چین کو آنکھیں دکھاتے ہوئے امریکہ اور مغربی طاقتوں کی آنکھ کا تارا بنا رہے ۔ بھارتی سفارت کاری پر ہر سمت سے نگاہ رکھنے کی ضرورت رہے گی ۔

اگرچہ بھارتی مقبوضہ جموں کشمیر کے سربراہی اجلاس کا مقام ہونے کی خبریں کافی مدت سے گردش کر رہی ہیں اور چین اور پاکستان دونوں نے اس پر تشویش کا اظہار بھی کیا ہے، لیکن بھارتی حکومت نے اسے جموں کشمیر میں منعقد کروانے کی واضح تردید نہیں جاری کی۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس پر کہا تھا کہ قیاس آرائیوں کی ضرورت نہیں ہے، جب کہ غیر رسمی طور پر حکام نے اشارہ دیا کہ لیڈروں کا سربراہی اجلاس صرف 20 ممالک کے سربراہان مملکت/حکومت کی میزبانی کے لیے ضروری انفراسٹرکچر اور سازوسامان والے شہر میں منعقد کیا جا سکتا ہے۔ گو کہ یہ منطق قابل فہم ہے کہ یہ دونوں غیر قانونی زیر قبضہ علاقے عالمی طرز کی جدید سہولیات سے آراستہ نہیں ہیں لیکن بادی النظر میں یہ بھی ممکن ہوسکتا ہے کہ بھارت وہاں پہ اس کانفرنس کے دوران یا بعد میں بطور سائیڈ لائن ایک بڑا عالمی ایونٹ کم پبلسٹی کے شور میں منعقد کروائے یا اندرون خانہ اس پہ کام کررہا ہو؟ کیونکہ بھارت میں ہاتھی کے دانت ہمیشہ سے ہی دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔

یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ بھارت اس طرح کے عالمی پروگرامات ان متنازعہ خطوں میں منعقد کروا کر عالمی رائے عامہ کو باور کروانا چاہتا ہے کہ جموں کشمیر کوئی حل طلب مسئلہ ہی نہیں ہے اور عالمی وفود یا سربراہان کی جموں کشمیر میں آمد بھارت کے اس منافقانہ موقف کی تصدیق کرتی ہے ۔ یہ بات بھی مدنظر رکھنی ضروری ہے کہ بھارت چونکہ G20 کا ایک سال کے لئے سربراہ بنے گا اس لئے امکانی طور پر آنے والے مہینوں میں بھارت بھر میں 200 کے قریب متعلقہ تقریبات منعقد کرے گا۔ اس ضمن میں حکام نے پہلے اشارہ دیا تھا کہ ان میں سے ایک تقریب جموں کشمیر میں بھی منعقد کی جا سکتی ہے۔ یہاں اس بات کو بھی زیر نظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ سربراہی اجلاس بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی دوسری میعاد کے آخری مرحلے میں منعقد کیا جائے گا، وہ اسے اپنی آمدہ انتخابی مہم میں عالمی سطح پر ہندوستان کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی علامت کے طور پر دکھانے کے لیے کوشاں ہوں گے ۔ کیونکہ بھارتی سیاست میں اسی طرح کی جہل سازیاں اور ہڑبونگیاں ہی عام عوام کو بیوقوف بنانے میں کام آتی ہیں۔

اجلاسوں اور سربراہی اجلاس میں غیر رکن ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں (IOs) کو مدعو کرنے کے لئے جی 20 کی صدارت کا استحقاق استعمال کرتے ہوئے، بھارت نے بنگلہ دیش، مصر، ماریشس، نیدرلینڈ، نائجیریا، عمان، سنگاپور، اسپین اور متحدہ عرب امارات کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مہمان ممالک، بین الاقوامی سولر اتحادیوں کے علاوہ، کولیشن فار ڈیزاسٹر ریسیلینٹ انفراسٹرکچر اور ایشیائی ترقیاتی بینک بطور مہمان ہوں گے ۔ بھارت کی جموں کشمیر میں سفاکیت اور ماورائے عالمی قوانین پالیسیوں کو عالمی سطح پر بے نقاب کرنے لئے ضروری ہے کہ جموں کشمیر کے انسانی سوال پہ کام کرنے والے افراد، انجمنیں اور جماعتیں ابھی سے یکسوئی کے ساتھ اس کا سفارتی توڑ کرنے کے لیے متحرک ہوں ۔ عالمی برادری کو بھارتی جارحیت کے حوالے سے ایک عملی سفارتی مہم ہی اس کا مناسب جواب ہوسکتی ہے ۔

برطانیہ کی سب سے فعال اور متحرک ایپ ڈرائیور اینڈ کورئیر یونین کی طرف سے جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی کی قرارداد منظور کی گئی ہے۔قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ایپ ڈرائیورز اینڈ کوریئرز یونین (ADCU) برطانوی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ برطانیہ اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے عالمی اعلامیے کو برقرار رکھنے کے اپنے عزم کا احترام کرے، خاص طور پر جموں کشمیر میں جہاں عام لوگوں، صحافیوں اور کارکنوں کو زندگی کا حق حاصل ہے، ان کی آزادی اور معاشی حقوق بھارتی افواج کے ہاتھوں خطرے سے دوچار ہیں۔ بھارتی افواج نے ہزاروں لوگوں کو قتل کیا، ٹریڈ یونین لیڈروں اور سیاسی کارکنوں کو کئی سالوں تک بغیر کسی ٹرائل کے سخت قوانین کے تحت قید کررکھا ہے۔ یونین برطانوی حکومت پر زور دیتی ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات پر فوری نظرثانی کرے اور دنیا کے تمام متنازعہ خطوں اور تنازعات والے علاقوں میں قیام امن اور مقامی تنازعات کی تبدیلی کے اقدام کی حمایت میں فعال طور پر شامل ہونے اور وہاں کے لوگوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کرنے کے لیے برطانوی حکومت کے عزم کی تصدیق کرے۔ ریاست جموں کشمیر کے عوام کے آزادانہ حق خودارادیت کا احترام کرے۔ اے ڈی سی یو تمام ورکر یونینوں اور جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ اپنی بھرپور یکجہتی کا اظہار کرتی ہے جو اس وقت زیر قبضہ ہیں، اور ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کوئی دو طرفہ مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے، بلکہ ایک ممکنہ جوہری فلیش پوائنٹ اور سنجیدہ معاملہ ہے۔ جس سے بین الاقوامی امن اور سلامتی کو بھی خطرات لاحق ہیں ۔ جموں کشمیر کے لوگوں کو ان کے حق خودارادیت میں مدد دینے کے لیے برطانوی حکومت کو اقوام متحدہ کے متفقہ میکانزم کو نافذ کرنے میں قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ یونین ہندوستان اور پاکستان پر زور دیتی ہے کہ وہ 1948 کی اقوام متحدہ کی قراردادوں کا احترام کریں جن پر ہندوستان اور پاکستان دونوں حکومتوں نے اتفاق کیا اور دستخط کئے۔
واپس کریں