دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مسئلہ کشمیر عالمی ایجنڈے سے خارج کرانے کی بھارتی کوشش، پاکستان ، آزاد کشمیر کی اقتدار پسند سیاست
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
واحد کاشر ۔ لندن۔ڈڈیال
مسئلہ جموں کشمیر کو اقوام متحدہ کے ایجنڈے سے خارج کرنے اور سیز فائر لائن کے دونوں اطراف سے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کی واپسی اور ان کے دفاتر بند کروانے کے لئے بھارت کی فسطائی مودی حکومت کی تازہ کوششیں شروع کی ہیں ۔مسئلہ کشمیر کو عالمی ادارے کے ایجنڈے سے خارج کرانے کی بھارت کی اس کوشش سے حکومت پاکستان کا بھی ایک نیا امتحان شروع ہورہا ہے۔میری دانست میں بھارت یکطرفہ طور پہ یہ نہیں کرسکتا جب تک حکومت پاکستان اس پہ راضی نہ ہو ۔ البتہ ایک اہم سوال یہ ہے کہ بھارت کی اس کیس کی legal jurisprudence پہ کیا نئی دلیل سامنے آتی ہے؟

ایک پرانا استدلال جو بھارتی موقف میں موجود ہے کہ چونکہ بھارت خود اس مسئلے ( جموں کشمیر ) کو اقوام متحدہ میں لے کر گیا تھا اور پاکستان کے ساتھ دو جولائی 1972 کے شملہ معائدے کے بعد اس کا نیا فریم ورک کہ "یہ مسئلہ دونوں فریق یعنی بھارت و پاکستان باہمی دو طرفہ مذاکرات سے حل کریں گے " یا پھر بھارت 5 اگست 2019 کے اقدام کو جواز بنا کر نیا حربہ اختیار کرے گا ؟ ثانی الذکر "جواز" میں پاکستان کے خلاف اسے گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنانے کی دلیل موجود ہے اور یہ اہل عقل کے لئے اشارہ ہے ۔

اب یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کے لئے نیا چیلنج ہوگا کہ وہ بھارت کی چانکیہ ڈپلومیسی کا کیا توڑ کرسکتا ہے۔ ایسے میں پھر سے خورشید ملت جناب کے ایچ خورشید مرحوم کا نظریہ تسلیم آزاد حکومت کی طرف ہی نظر جاتی ہے لیکن پاکستانی حکمرانوں کی نااہلیوں اور "آزاد" کشمیری اقتدار پرست سیاست کاری کی بدولت پلوں کے نیچے سے بہت زیادہ پانی بہہ چکا نظر آرہا ہے ۔

بھارت ایک مکار دشمن ہے جو اپنے مفاد کے لئے کچھ بھی کرسکتا ہے ، ایسے میں ہم ریاستی باشندوں کے پاس آپشن بہت ہی محدود ہوچکے ہیں کیونکہ ہماری "وکالت" کا ٹھیکہ 28 اپریل 1949 کو معاہدہ کراچی کی صورت میں ہمارے بزرگوں سردار ابراہیم، قیوم خان اور چوہدری غلام عباس مرحومیںنے حکومت پاکستان کو سونپ دیا تھا اور بدلے میں سڑک ، کھمبا اور ٹوٹی لے لی تھی جسے آج بھی روایتی سیاست دان بغل میں دبائے گلی گلی پھرتے ہیں اور ہزاروں قربانیوں کے بعد بھی مسئلہ جموں کشمیر ایک بند گلی کا مقلد و مرقد ہی ہے ۔ راستے مسدود ہیں ۔ عوام منتشر ہیں ۔ حکمران مدہوش ہیں اور وسائل محدود ہیں ۔ جبر کے پنجے گہرے ہورہے ہیں ۔ خزاں کی رتوں کا راج مضبوط ہورہا ہے اور معصوم لہو کے گواہ ۔ گواہی سے مکر چکے ہیں یا پھر قاتلوں سے لرزاں ہوچکے ہیں۔ سوچئے ہم نے کیا پایا؟

واپس کریں