دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان میں کشمیر پہ مزید پسپائی کی سوچ
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے ضلع راوجوری اور پونچھ میں گزشتہ ایک سال سے زائع عرصے سے آزادی کی مسلح مزاحمتی تحریک میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور اس دوران درجنوں ہندوستانی فوجی فریڈم فائٹرز کے حملوں میں ہلاک ہو ئے ہیں۔گزشتہ چند ماہ میں ہندوستانی فوج پہ ہونے والے مسلسل حملوں کی صورتحال میں پیر پنجال کے پہاڑی سلسلے کے ساتھ واقع ان اضلاع میں ہندوستانی فوج کے آپریشن مسلسل انداز میں جاری ہیں اور اس دوران جنگل کے علاقوں اور دیہاتوں میں تلاشی مہم جاری رہتی ہے۔ 22دسمبر کو ضلع راجوری کے سرنکوٹ علاقے میں ہندوستانی فوج کی دو گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا جس میں ایک آپریشن کے لئے فوجی کمک بھیجی جا رہی تھی۔ اس حملے میں4فوجی ہلاک اور 2زخمی ہوئے۔اس حملے کے فوری بعد ارد گرد کے تمام دیہاتوں میں فوج کی تلاشی مہم شروع کی گئی اور اس دوران متعدد افرا د کو شدید تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ اس دوران درجنوں مقامی افراد کو حراست میں لے کر فوجی کیمپوں میں جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس سے3نوجوان ہلاک ہو گئے۔اسی دوران ہندوستانی فوج کی بنائی گئی ایک وڈیو سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئی جس میں گرفتار کئے گئے افراد کو فوجی کمیپ میں تشدد کانشانہ بنانے اور انہیں برہنہ کر کے ان کے زخموں پہ مرچیں چھڑکتے دکھایا گیا۔

بی جے پی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کے خاتمے اور اسے دو حصوں میں مرکز یعنی نئی دہلی کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنے کے اقدام کے بعد ہندوستان کے چند میڈیا اداروں کے نمائندگان نے مقبوضہ وادی کشمیر کا دور کرتے ہوئے اپنی وڈیو رپورٹس میں بتایا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں ظلم و جبر کی انتہا کی وجہ سے عام لوگ تو ایک طرف ، صحافی بھی اس صورتحال پہ بات نہیں کرتے کیونکہ ایسا کرنے والوں کو فوری طور پر گرفتار کر کے ہندوستان کی مختلف جیلوں میں قید کر دیا جاتا ہے۔مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلی، پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے فوجی کیمپ میں مقامی افراد پہ بہیمانہ تشدد کی وڈیو سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ کرنے کے حوالے سے دی وائر میں شائع اپنے مضمون میں کہا کہ ہندوستانی فوج نے ایسی وڈیو بنا کر سوشل میڈیا پہ نشر کی ہے تا کہ لوگوں کو ایک سخت پیغام دیا جائے۔ گزشتہ روز ہی ہندوستانی پارلیمنٹ کے ممبر، مقبوضہ جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلی، نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے سرینگر میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ کشمیر کا تنازعہ ختم کرنے کا واحد راستہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کرنا ہے، اگر ہندوستان اور پاکستان مذاکرات کے ذریعے تنازعات ختم نہیں کرتے ہیں تو کشمیر کا وہی حشر ہوگا جو غزہ اور فلسطین کا ہوا ہے ۔فاروق عبداللہ نے مزید کہا کہ نواز شریف پاکستان کے وزیراعظم بننے والے ہیں، اور وہ کہہ رہے ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ لیکن ہندوستان بات کرنے کو کیوں تیارنہیںہوتا۔

اسلام آباد کے ایک پالیسی انسٹیٹیوٹ نے 21دسمبر کو ٹوئٹر پہ ایک ویبنار کا اہتمام کیا جس میں ہندوستان میں پاکستان کے ایک سابق سفیر شاہد ملک نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مزاکرات کے امکانات کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔شاہد ملک نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندوستان کے اقدامات کے تناظر میں کہا کہ یہ وقت ہے کہ پاکستان گلگت بلتستان کو عبوری طور پراپنا صوبہ بنا لے، اس میں سی پیک کا پہلو بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس کے لئے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 1میں ترمیم کرنا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان کو عبوری صوبہ بنایا جاتا ہے اور پھر بعد ازاں آزاد کشمیر کو بھی اسی طرح پاکستان کا عبوری صوبہ بنا دینا چاہئے۔ پاکستان کو چاہئے کہ کشمیر میں ہندوستان کی پوزیشن کو دیکھتے ہوئے دنیا میں کشمیر پہ اپنا Narritiveمیں تبدیلی لائیں۔ شاہد ملک نے یہ بھی کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں حالات پہلے کی طرح خراب نہیں ہیں، اب ذر ا بہتر ہو گئے ہیں۔

یہ خیالات صرف سفارت کار شاہد ملک کے نہیں بلکہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کی سوچ کے ترجمان بھی ہیں۔اس میں انڈیا کے حملے کا خوف بھی چھلکتا ہے اور اسی خوف میں وہ مسئلہ کشمیر میں مزید پسپائی کی سوچ بھی رکھتے ہیں۔ہندوستان کی پیروی میں گلگت بلتستان، آزاد کشمیر کو پاکستان کے عبوری صوبے بنانے کی تجویز کا مطلب تقسیم کشمیر کو قطعی شکل دینا ہے اور ایسا قدم پاکستان نہیں بلکہ ہندوستان کی موافقت میں ہو گا۔کشمیر سے متعلق ایسا انداز اپنانے سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے متعلق ہندوستانی عزائم کے خطرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔جنرل عاصم منیر کے آرمی چیف بننے کے بعد مسئلہ کشمیر کے موضوع کو ترجیحات میں اہمیت دینے کے اعلان کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلح مزاحمتی تحریک میں تیزی تو دیکھنے میں آئی ہے تاہم سفارتی اور سیاسی سطح پہ اب تک نئے آرمی چیف کے اعلان کے کوئی متحرک اثرات دیکھنے میں نہیں آ سکے ۔

مقتدر حلقوں کی یہ سوچ نہ صرف کشمیر کاز بلکہ پاکستان کے لئے بھی زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے کہ پاکستان مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندوستان کے جارحانہ اقدامات کے جواب میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو عبوری طور پرپاکستان میں شامل کرنے اقدامات کرے۔انڈیا کے ساتھ مزاکرات وغیرہ میں انگیج ہونے سے پہلے لازمی ہے کہ پاکستان اپنا ہوم ورک مکمل کرے، سیاسی ، سفارتی و دیگر امور پہ اپنی ذمہ داریوں پر سرگرمی سے کام کرے تا کہ انڈیااور دنیا پہ یہ واضح ہو سکے کہ پاکستان ایسی کمزور حالت میں نہیں ہے کہ اسے اپنی شرائط، ڈکٹیشن پہ انگیج کیا جا سکے۔ بلاشبہ پاکستان میں سیاسی لیڈر شپ کی کمانڈ کو قطعی صورت میں مضبوط کرنا ہر عنوان سے بنیادی اہمیت کا حامل معاملہ ہے۔امریکہ نے2012میں مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان اور ہندوستان تعلقات کے بارے میں یہ آئیڈیا دیا تھا کہ کشمیر کے دیرینہ مسئلے پہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ اقدامات کئے جائیں، امریکہ نے اس حوالے سے جرمنی کا حوالہ دیا تھا کہ جرمنی میں دیوار برلن کے خاتمے کی طرح کے انسانی ہمدردی کے اقدامات اٹھائے جس سے جرمنی کی تقسیم کا سیاسی مسئلہ بھی حل ہو گیا۔


اطہر مسعود وانی
03335176429


واپس کریں