دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ریٹائرڈ جج سردار منیر حسین اور بابائے گوجری رانا فضل حسین کی وفات
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
اطہر مسعود وانی

عموما انسان کی شخصیت کو اس کی وفات کے بعد بھلا دیا جاتا ہے، تاہم جس کی تحریریں یا اس کے بارے میں کچھ لکھا گیا شائع ہو چکا ہو، وہ تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ بن جاتا ہے۔ریاست جموں وکشمیر کی ایک مائیہ ناز شخصیت خواجہ عبدالصمد وانی( 2001 ۔1935)نے ریاست جموں وکشمیر کی متعدد شخصیات کی وفات پہ ان کے بارے میں مضامین وغیرہ تحریر کئے جو ہفت روزہ ' کشیر ' میں1966سے2001تک شائع ہوئے۔ یہ تحریریں جہاں ان شخصیات کے بارے میں معلومات فراہم کرتی ہیں، وہاں اس سے متعدد اہم ریاستی شخصیات کی زندگی کا احاطہ بھی تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔میں نے ریاست جموں وکشمیر کی وفات پانے والی شخصیات پر مبنی وانی صاحب کی ان تمام تحریروں کو مرتب کیا ہے اور خیال ہے کہ اسے ایک کتاب کی صورت شائع کیا جائے تا کہ یہ ایک ریکارڈ کی صورت میں محفوظ ہو سکے اوران شخصیات کے بارے میں نئی نسل کو بھی علم ہو سکے۔تقریبا35سال کے دوران وفات پانے والی شخصیات پر وانی صاحب کی تحریریں نہایت اہم معلومات فراہم کرتی ہیں اور اس سے ان شخصیات کی خدمات کا احاطہ بھی ہوتا ہے۔

گزشتہ دنوں آزاد کشمیر کی دو بزرگ شخصیات وفات پاگئیں۔ پہلے آزاد کشمیر کے ریٹائرڈ سیشن جج سردار منیر حسین کے انتقال کی اطلاع ملی اور اس کے چند دن بعد بابائے گوجری رانا فضل حسین اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔ آزادکشمیر کے ریٹائرڈ سیشن جج سردار منیر حسین طویل علالت کے بعد کوٹلی میں وفات پا گئے ۔انہیں کینسر کا مرض لاحق تھا۔وہ گزشتہ چند ماہ سے ٹیلی فون پہ مجھ سے رابطے میں تھے اور انتقال سے تین چار دن پہلے ہی انہوں نے مجھے فون کیا تھا۔وہ میرے والد مرحوم خواجہ عبدالصمد وانی کے پرانے دوست تھے۔چند ماہ قبل انہوں نے بتایا کہ وہ اپنی داستان حیات پہ مبنی کتاب لکھ رہے ہیں۔انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وہ میرے کالم باقاعدگی سے پڑھتے ہیں ، انہوں نے میری تحریروں کو سراہتے ہوئے میری حوصلہ افزائی بھی کی۔

سردار منیر حسین صاحب نے یہ بھی بتایا کہ عشروں پہلے میرے والد خواجہ عبدالصمد وانی، شیخ بشارت اور چند دیگر اصحاب آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں کا طویل دورہ کرتے ہوئے رات کے وقت نکیال پہنچے۔طویل سفر کی تھکن کی وجہ سے باقی سب تو سو گئے لیکن میرے والد خواجہ عبدالصمد وانی سردار سکندر حیات خان کے والد گرامی سردار فتح محمد خان کریلوی کی ذاتی لائیبریری دیکھنے لگے جس میں کئی اہم کتابیں، نادر دستاویزات شامل تھیں۔وانی صاحب پوری رات لائیبریری کے اثاثے کو کھنگالتے رہے اور بہت سی کتابیں اور دستاویزات الگ کر لیں۔صبح انہوں نے سردار فتح محمد خان کریلوی سے الگ کی گئی کتابیں اور دستاویزات اپنے ساتھ لے جانے کی درخواست کی۔ کریلوی صاحب نے جواب دیا کہ میں اپنی لائیبریری کا ایک صفحہ بھی کسی کو نہیں دیتا لیکن میں آپ کو انکار بھی نہیں کر سکتا اور مجھے یہ اطمینان ہے کہ ان چیزوں کا اچھا استعمال ہو گا۔یوں کریلوی صاحب نے وہ کتابیں اور دستاویزات وانی صاحب کو عطا کر دیں۔

سردار منیر حسین صاحب نے یہ واقعہ سناتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنی کتاب میں یہ واقعہ تفصیل سے شائع کر رہے ہیں۔سردار منیر حسین صاحب نے کئی بار اصرار سے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دی، لیکن شومئی قسمت کہ ایسا نہ ہو سکا۔سردار منیر حسین صاحب ہفتے میں ایک بار ضرور فون کرتے۔ مجھے اس بات پہ رشک آتا کہ وہ شدید علالت کے باوجود اپنی کتاب مکمل کر رہے ہیں۔میری خواہش ہے کہ محترم ریٹائرڈ سیشن جج سردار منیر حسین صاحب کی آب بیتی کی کتاب کی کی اشاعت ممکن ہو سکے۔

اس کے چند ہی دنوں بعد بابائے گوجری رانا فضل حسین طویل علالت کے بعد میر پور میں وفات پاگئے۔ بابائے گوجری رانا فضل حسین طویل عرصہ ریڈیو آزاد کشمیر سے وابستہ رہے اور وہ میرے نانا خواجہ عبدالاحد وانی کے قریبی دوست تھے۔ میرے نانا خواجہ عبدالاحد وانی ریاست جموں وکشمیر میں مسلم کانفرنس کے قیام کے وقت ضلع بارہمولہ سے سیکرٹری منتخب ہوئے تھے۔ ان کے والد ملا محمد کشمیری مہاراجہ پونچھ کے دربار میں اتالیق تھے اور انہوں نے قرآن پاک کا فارسی زبان میں ترجمہ بھی کیا تھا۔ میرے نانا خواجہ عبدالاحد وانی سات زبانوں، کشمیری ، فارسی، اردو، پہاڑی، گوجری، ڈوگری اور پنجابی میں شاعری کرتے تھے۔ 1947میں ہندوستانی فوج نے ان کے گھر کو آگ لگا دی اور وہ پاکستان ہجرت کر آئے تھے۔ خواجہ عبدالاحد وانی ریڈیو تراڑکھل آزاد کشمیر کے بانی ارکان میں شامل تھے ،جب یہ ریڈیو سٹیشن دو ٹرکوں میں قائم تھا۔ ان کی بابائے گوجری رانا فضل حسین سے گہری دوستی تھی اور وہ بھی ریڈیو آزاد کشمیر سے وابستہ تھے۔

بابائے گوجری رانا فضل حسین کی جب تک صحت اچھی رہی ،وہ اکثر میرے گھر آتے تھے اور مجھے پرانے واقعات سناتے تھے، انہوں نے ایک بار مجھے میری نانا خواجہ عبدالاحد وانی کی گوجری زبان کی چند نظمیں دی تھیں جو ہفت روزہ ' کشیر ' میں شائع ہوئیں۔ بابائے گوجری رانا فضل حسین ایک تاریخی شخصیت تھے، بہت مخلص اورمحبت کرنے والی شخصیت۔ آزاد کشمیر کے سابق سیکرٹری منیر حسین چودھری ان کے بھانجے اور داماد ہیں۔اگر بابائے گوجری رانا فضل حسین کی شاعری، تحریریں کتابی صورت میں شائع ہو سکیں تو یہ ہماری تاریخ میں ایک اہم اضافہ ہو گا۔ بابائے گوجری رانا فضل حسین کی وفات کی اطلاع ملی تو ان کی شخصیت، ان کی باتیں ذہن میں تازہ ہو گئیں۔

اطہر مسعود وانی
03335176429

واپس کریں