اطہرمسعود وانی
آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے آزاد کشمیر کے بزرگ رہنما سردار سکندر حیات خان کی برسی کی تقریب سے خطاب میں کہا کہ '' آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے گزارش ہے کہ جنرل باجوہ جو کچھ دبئی مذاکرات کے ذریعے طے کر گئے ہیں اس کی تفصیلات سے کشمیریوں کو آگاہ کریں،فوج کے ساتھ کشمیریوں کا قلبی تعلق ہے،فوج ہماری نگہبان ہے ہم بھی فوج کے پشت بان ہیں،جنرل باجوہ کی پالیسیوں سے کشمیریوں میں غصہ ہے،ہمیں موجودہ آرمی چیف پر مکمل یقین اور اعتماد ہے،پاکستان کے پانیوں کا منبع کشمیر میں ہے،اس پانی کے بغیر بقا ممکن نہیں،بھارتی جارحیت کے باوجود لائن آف کنٹرول پر بسنے والوں کے حوصلے بلند ہیں،افواج پاکستان کی قربانیوں کو ہر کشمیری دل کی گہرائیوں سے تسلیم کرتا ہے اور دفاع وطن کے لیے پاک فوج کے شانہ بشانہ ہے۔پاک فوج کے ساتھ کشمیریوں کے تعلق پر کوئی حرف نہیں آنے دیں گے مگر سب کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی ہوں گی،اخلاص سے کام ہوگا،ماضی کی غلطیوں کا ادراک کرتے ہوئے ان کا ازالہ بھی کرنا ہوگا۔''
اس بات میں کوئی شک باقی نہیں رہا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ کے دور میں مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق بھارت کو کئی رعائتیں دی گئیں اور انہی کے دور میں بھارت کے مقبوضہ جموں و کشمیر سے متعلق 5اگست2019کے جارحانہ اقدام کے باوجود ، پاکستان اور بھارت کے درمیان لائین آف کنٹرول پہ سیز فائر سمجھوتے کی توثیق کی گئی ۔اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کی موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے افواج پاکستان کی کمان سنبھالتے ہی کشمیر کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا۔راجہ فاروق حیدر خان کے مطالبے سے اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ جنرل باوجوہ کے دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان دبئی میں خفیہ مزاکرات ہوئے تھے جس میں دونوں ملکوں کے درمیان پوشیدہ طور پر کشمیر سے متعلق کئی باتوں پہ اتفاق کیا گیا۔
مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی الیکشن میں نیشنل کانفرنس سب سے زیادہ سیٹیں حاصل کر کے مقامی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے اور اس کا بھارتی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے ساتھ اتحاد بھی ہے۔بھارتی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی پر اعتماد تھی کہ وہ پیشگی اقدامات کی بدولت مقبوضہ کشمیر اسمبلی الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے اپنی حکومت قائم کر لے گی لیکن جموں کی اکثریتی سیٹیں حاصل کرنے کے باوجود وادی کشمیر میں ' بی جے پی ' اور اس کی پراکسی پارٹیوں کو ہزیمت خیز شکست سے دوچار ہونا پڑا۔یہ بات تو واضح ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی کے '' پر مزید کتر دیئے گئے ہیں'' اور اس اسمبلی پہ لیفٹینٹ گورنر کے برتر اختیار کی حاکمیت مسلط کی گئی ہے۔اس کے باوجود اب یہ نیشنل کانفرنس کا امتحان ہے کہ وہ اپنے اعلانات، وعدوں کے مطابق بھارتی حکومت کی مزاحمت کا کردار اپناتی ہے، کورنش بجا لاتی ہے یا بھارتی حکومت کی چوکھٹ پہ سجدہ ریز ہو جاتی ہے۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے الیکشن مہم کے دوران اپنی تقریر میں کہا تھا کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس جموں و کشمیر میں پاکستانی ایجنڈے پہ کام کر رہی ہیں۔ بھارتی وزیر اعظم کا یہ بیان مقبوضہ کشمیر میں نیشنل کانفرنس کی کامیابی کی ایک اہم وجہ بن گیا۔
دوسری طرف پاکستان کے دارلحکومت اسلام آباد میں رواں ماہ کے تیسرے ہفتے کے شروع سے منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی شرکت کے اعلان سے اس بات کے امکانات بھی ظاہر ہو رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پوشیدہ رابطے اور بات چیت باقاعدہ شکل اختیار کر سکتی ہے۔تاہم یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر اسمبلی الیکشن اورپاکستان اور بھارت کے درمیان پس پردہ یا ظاہری رابطوں میں کشمیریوں کی لئے کوئی خیر کی کوئی خبر ہے یا نہیں۔
واپس کریں