اطہرمسعود وانی
ورلڈ بنک کے زیر اہتمام پاکستان اور بھارت کے درمیان دریائوں کے پانی کی تقسیم سے متعلق'' سندھ طاس معاہدہ'' (انڈس واٹر ٹریٹی) کے حوالے سے پاکستان کو کشمیر کے دریائے جہلم پرمنگلا ڈیم بنا کر دیا گیا۔1960میں معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد منگلا ڈیم کی تعمیر کا کام فوری بنیادوں پر شروع کر دیا گیا۔اسی ڈیم کے حوالے سے میر پور کا پرانا قصبہ ختم ہو گیا اور اس کے بعد ایک نیا میرپور شہر آباد ہونا شروع ہوا۔لیکن نئے میر پور شہر کی تعمیر سے بھی پہلے منگلا ڈیم کے قریب ایک نیا قصبہ آباد ہو چکا تھا۔یہ تھی منگلا ڈیم کی تعمیر کے لئے کام کرنے والے امریکیوں کی قائم کردہ بستی۔اس میں رہائشی علاقے کے علاوہ منصوبے سے متعلق دفاتر، ورکشاپس،مختلف نوعیت کے سٹور اور منصوبے پر کام کرنے والے ہزاروں افراد کے لئے خوراک،علاج معالجے و دیگر سہولیات شامل تھیں۔منگلا ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں تین ہزار سے زائد امریکیوں کو وہاں مسلسل کئی سال مقیم رہنا پڑا۔ان میں سے بعض کو تین سال اور کئی کو اس سے بھی زیادہ عرصہ وہاں رہنا پڑا۔ان کے لئے ایک شاندار بستی بسائی گئی جہاں رہائشی عمارات ،سکول،ہائی سکول،ہسپتال،فائر برگیڈ،گراسری سٹور،مختلف دکانیں،باغیچے،سوئمنگ پول ،چرچ ،بنک سمیت ہر سہولت میسر تھی۔
اس رہائشی کالونی میں پانچ سو گھر اور بیچولرز کے لئے 150کواٹرز بنائے گئے۔چرچ کے علاوہ انٹر نیشنل ایلیمنڑی سکول ،جس میں پلے گرائونڈ اور پی ٹی کا انتظام،۔سکول کی ٹیچرز امریکن تھیں ۔ایک ہائی سکول جہاں کے ڈپلومہ ہولڈر کو امریکا کے کسی بھی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ مل سکتا تھا۔سکول لائیبریری سے کمیونٹی کے افراد بھی مستفید ہوتے ۔سکول کے بچوں کے لئے سکول بسوں کا انتظام۔وپڈا کے افسران کے بچے بھی قلیل تعداد میں ان سکولوں میں زیر تعلیم رہے۔ایک اچھے معیار کا ریسٹورنٹ ،جو امریکیوں کی سماجی سرگرمیوں کا مرکز رہتا۔دو سوئمنگ پول جن میں سے ایک اولمپک سائیز،گولف کلب ،انڈورز گیمز۔واپڈا کے افسربھی قلیل تعداد میں امریکیوں کے ساتھ موجود تھے۔کمرشل ایریا میں ایک بڑا گراسی سٹور جس میں کھانے پینے سمیت عام استعمال کی مختلف اشیاء ملتی تھیں۔باربر شاپ،بیوٹی سیلون،درزی کی دکان،ڈرائی کلین،لانڈری،جوتوں کی دکان،فوٹوگرافر شاپ،ہینڈی کرافٹس،سپورٹس کا سامان،کھلونوں کی دکان،پوسٹ آفس، امریکی بنک،پی آئی اے کا دفتر۔اس رہائشی کالونی کی ہر عمارت کے ارد گرد خوبصورت باغیچے قائم کئے گئے تھے۔منصوبے کے پہلے مرحلے میں تعمیراتی کاموں میں استعمال ہونے والی ہیوی گاڑیوں، مشینری اور مین پاور کا بندوبست کیا گیا۔دس ہزار پاکستانیوں کو مختلف شعبوں کے مطلوبہ کام سکھائے گئے۔لیبر کیمپ الگ سے قائم تھا جہاں ان کے لئے کھانے پینے، علاج کے لئے ڈسپنسری و دیگر سہولیات کے علاوہ نیشنل بنک ، پوسٹ آفس اور لیبر کے بچوں کے لئے سکول بھی قائم کیا گیا تھا۔
منصوبے پہ کام کرنے والے افراد کی کل تعداد تقریبا13ہزار تھی جس میں سے تقریبا تین ہزار امریکی اور چند ایک برطانوی بھی تھے۔منصوبے پر کام کرنے والی ملکی و غیر ملکی افراد کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لئے منصوبے کے کنٹریکٹر کی طرف سے 25ایکڑ پر مشتمل'' فوڈ پارک'' قائم کیا گیا تھا جہاں مختلف اقسام کی سبزیاں اور پھل پیدا کئے جاتے اور اس کے لئے جدید زرعی آلات استعمال کئے جاتے تھے۔مرغیوں کے گوشت اور انڈوں کے حصول کے لئے پولٹری فارم۔کھانے پینے کی اشیاء اچھی طر ح صاف کر کے لیبر کیمپ اور کالونی میں سپلائی کی جاتی تھیں۔اس بستی میں 80بیڈ کا جدید سہولیات سے آراستہ ایک ہسپتال بھی قائم تھا جہاں عام علاج کے علاوہ بڑے آپریشن کی سہولت بھی میسر تھی۔ ڈیم کے تعمیراتی کاموں کے علاقوں میں ایمبولینس گاڑیاں موجود رہتی تھیں۔جدید سہولیات سے آراستہ آگ بجھانے کی گاڑیاں اور عملہ بھی ہمہ وقت تیار رہتا۔
منگلا ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ تقریبا ساڑھے چھ سال میں مکمل ہوا۔فروری1967میں منگلا جھیل میں پانی بھرنا شروع کیا گیا اور ایک ماہ بعد جھیل بھرنے پر بجلی کی پیداوار شروع ہو گئی۔منگلا ڈیم کے افتتاح کے موقع پر تین جھنڈے ایک ساتھ لہرا رہے تھے، منگلا ڈیم کا جھنڈا،پاکستان کا پرچم اور آزاد کشمیر کا جھنڈا۔منگلا ڈیم تعمیر کرنے والے امریکیوں کے جانے کے بعد یہ رہائشی بستی واپڈا کے تصرف میں آگئی اور شنید ہے کہ وہاں واپڈا کالونی قائم ہے۔ لیکن معلوم نہیں کہ اب وہاں سہولیات کا کیا عالم ہے،سکول کس طرح کے ہیں،کمرشل ایریا کیسا ہے،ہسپتال کا کیا حال ہے اور سب سے بڑھ کر کہ 25ایکٹر کے'' فوڈ پارک'' کی اب کیا صورتحال ہے؟
October 19, 2018
واپس کریں