اطہرمسعود وانی
موجودہ صورتحال کے تناظر میں 28ستمبر2014ء کا ایک کالم
گزشتہ روزپاکستان کے ایک معرودف صحافی نجم سیٹھی نے جیو ٹی وی کے پروگرام ’آپس کی بات ‘ میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کی تقاریر کے حوالے سے بات کی۔نجم سیٹھی پالیسیوں کے حوالے سے ”اند ر کی باتیں بتانے کے حوالے سے خاصہ رکھتے ہیں۔نجم سیٹھی نے کشمیر کے حوالے سے جو باتیں کیں،وہ صرف ان کی ذاتی رائے ہی نہیں بلکہ انہوں نے اپنی رائے کے اظہار کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے ایک مضبوط ر اور عمومی مکتبہ فکر کی ترجمانی بھی کی ہے۔ اس سوال کہ انڈیا تو مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں44سیٹیں لیکر حکومت بنانا چاہتے ہیں تاکہ کشمیر کی بھارت سے الگ شناخت کی آئینی شق 370کو ختم کیا جا سکے، کے جواب میں نجم سیٹھی نے کہا کہ کشمیر کسی صورتحال میں بھی آج کی ماڈرن ریاست میں حق خود ارادیت نہیں دیتی،چاہے جو مرضی وعدے کیئے ہوں،جو مرضی دستخظ کئے ہوں،وہ حق خود ارادیت نہیں دیتی،یہ تو طے شدہ حقیقت ہے کہ کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں بنے گا،البتہ کشمیر کو کتنی اٹانومی ملے گی،کتنی خود مختاری ملے گی،اور کس قسم کی سلوشن نکلے گی پاکستان اور بھارت کے مزاکرات میں،جس میں کشمیر کے عوام بھی رضامند ہو،اسی لئے پاکستان کا موقف یہی رہا ہے کہ کشمیریوں کی خواہشات اور امنگوں کے مطابق،اب اگر کشمیر کے لوگ یہ چاہتے ہوں کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں بننا چاہتے،fine ،اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہندوستان کا حصہ نہیں بنناچاہتے تو یہ بھارت اور کشمیرکے درمیان ہے اور انڈیا کبھی کشمیر میںعلیحدگی کی تحریک نہیں چلنے دےگا،کبھی بھی کشمیر میں الگ سٹیٹ نہیں بننے دے گا، کوئی ماڈرن سٹیٹ نہیں بننے دے گی،ہم نہیں بلوچستان کو ایک الگ ریاست بننے دیں گے،یہ ماڈرن سٹیٹس کا given fact ہے،خانہ جنگی ہو جاتی ہے لیکن ریاست اپنی رٹ اپنے علاقے میں چیلنج نہیں ہونے دیتے ،سول وار ہوتی ہے توحکومت اس کی مخالفت ہی کرتی ہے جس طرح مشرقی پاکستان میں سول نافرمانی کی حکومت نے مخالفت کی ،مگر بات چیت ہونی چاہئے اور ایسا حل نکلنا چاہئے کہ کشمیر کے عوام کو کوئی سہولتیں ملیں،کشمیر کے عوام کی رائے کو سنا جائے،ان پر جو تشدد ہو رہا ہے وہ ختم ہو،ان کی آزادی کو defineکیا جائے کہ ہندوستان کے اندر رہتے ہوئے وہ کیسے اپنی آزادی کو بڑہا سکتے ہیں،اور پاکستان کے ساتھ تجارت آمد و رفت کو کیسے بڑہایا جائے،مشرف کے دور میں ’آﺅٹ آف بکس ‘ حل کی یہی بات ہو رہی تھی کہ آئندہ پچاس سال کے لئے کوئی فارمولہ نکالا جائے،plebicite کا معاملہ پچاس سال کے لئے آگے کر دیا جائے اور اس عرصہ کے لئے کوئی عارضی انتظام کر دیا جائے جس میں کشمیریوں کو تھوڑی سی اٹانومی اور مل جائے،لیکن بی جے پی کے ارادے نیک نہیں ہیں،اس میں کوئی شک نہیں ہے،اگر بی جے پی کشمیر سے متعلق آئینی شق کے خاتمے سے کشمیر کی آزادی اور بھی مشکل ہو جائے گی اور پاکستان کے ساتھ مزاکرات کرنے میں کشمیری عوام کے مفاد میں اور بھی کم ہو جائے گی۔
بلاشبہ کشمیریوں کی عمومی امنگوں اور خواہشات کے برعکس حالات دشوار اور کٹھن ہیں اور متنازعہ ریاست جموں و کشمیرکے زمینی حقائق اور علاقائی عزائم کشمیریوں کی جدوجہد اور خواہشات سے میل نہیں کھاتے۔نجم سیٹھی کی یہ باتیں کشمیریوں کو تلخ اور بے اعتنائی کا روئیہ لگ سکتی ہیںلیکن یہی وہ حقائق ہیں ،وہ باتیں ہیں جو پاکستان اور بھارت کے باقاعدگی سے بلا تعطل ہونے والے پس پردہ مزاکرات میں زیر غور آتی ہیں،جن امکانات پر بات کی جاتی ہے۔کشمیر سے متعلق صورتحال یہ ہے کہ جس متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کو سلامتی کونسل کی قرار دادوں میں ریفرنڈم کا وعدہ کر رکھا ہے،اس کے دو حصے،آزاد کشمیر و گلگت بلتستان، پاکستان کے زیر انتظام اور تین حصے لداخ،وادی کشمیر اور جموں بھارت کے زیر انتظام ہیں۔بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کو اپنی ریاست بنا لیا تاہم کشمیر اور انڈیا سے متعلق تمام امور کشمیر اسمبلی کی رضامندی سے آئینی شق370کے ذریعے مشروط کر دیا۔جبکہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی پاسداری میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو اپنا آئینی حصہ نہیں بنایا۔آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں آئینی ،انتظامی اور مالیاتی امور پر پاکستان سے مطالبات ،شکایات تو ہیں لیکن عمومی طور پر یہ دونوں علاقے پاکستان کے ساتھ رہنے کی رائے رکھتے ہیں۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے لداخ کے اکثریتی بدھ مت کے لوگوں کا عشروں سے مطالبہ ہے کہ انہیں دہلی کے زیر انتظام یا ہماچل پردیش کے ساتھ ملایا جائے۔جموں کے اکثریتی ڈوگروں کی رائے سے متعلق اگر کسی کو کوئی شک ہے تو اس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ معترض ڈوگروں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتا۔گزشتہ پانچ دہائیوں سے بالخصوص ریاست کے جس حصے میں تحریک آزادی عملی طور پر جاری ہے ،وہ ریاست کا اکثریتی آبادی والا علاقہ وادی کشمیر ہے۔وادی کشمیر کے مسلمانوں نے نسل در نسل بھارت کے اتنے ظلم سہے ہیں اور سہہ رہے ہیں کہ ان کے جسم ہی نہیں ان کی روحیں بھی گھائل ہیں،کشمیریوں کے نزدیک ان کی کامیابی یہی ہے کہ ان کی جدوجہد کا تسلسل جاری ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے ” آﺅٹ آف بکس“ حل میں بھارت اور پاکستان کی مجبوریاں تو ہو سکتی ہیں لیکن کشمیری اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ بھارت اور پاکستان کشمیر کے قدرتی وسائل سے باہمی معاہدے کے ذریعے خوب خوب مستفید ہوتے رہیں لیکن کشمیر کے باشندوں کے لئے کوئی کمتر،ادنی قسم کی نام نہاد آزادی کا انتخاب کر لیا جائے۔
بھارت کو عمومی طور پر اس بات سے سخت تکلیف ہوتی ہے کہ مسئلہ کشمیر کو ایک عالمی مسئلے کے طور پر اقوام عالم میں اٹھایا جائے۔بھارت یہ کہتا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بھارت پاکستان کے ساتھ باہمی طور پر حل کرے گا لیکن دوسری طرف بھارت اس بات سے نظریں چراتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ مزاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر پرامن طور پر حل کیا جائے۔بھارت کی یہ کوشش چلی آرہی ہے کہ مزاکرات میں پاکستان بھارتی'' ڈکٹیشن'' پر چلے اور جس طرح بھارت کہے ،پاکستان وہی اقدامات اٹھاتا جائے۔یوں یہ حقیقت کھل کر نظر آ رہی ہے کہ بھارت اور پاکستان شملہ سمجھوتے کو چارعشرے سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود مسئلہ کشمیر باہمی طور حل کرنے میں ناکام چلے آ رہے ہیں۔بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بھارت کو اقتصادی ترقی کا ''شاہکار'' بنانے کے نعرے لگا رہے ہیں لیکن اس حقیقت کو نظر انداز کر رہے ہیں کہ دیرینہ اور سنگین مسئلہ کشمیر حل کئے بغیر بھارت اور پاکستان کے درمیان اچھے تعلقات کا قیام ممکن نہیں ہے ،جو جنوبی ایشیا میں امن و ترقی کی کنجی ہے۔
دوسری طرف بھارتی مقبوضہ کشمیربا لخصوص گزشتہ26سال سے بھارتی فوجی جارحیت ، ظلم و زیادتی اور قتل و غارت گری کانشانہ بنتے چلے آ رہے ہیں اور اب مقبوضہ کشمیر میں آنے والے حالیہ تباہ کن ہولناک سیلاب سے کشمیری بے سرو سامانی کے عالم میں معاشی طور پر دو تین عشرے پیچھے چلے گئے ہیں۔اس سیلاب میں بھارتی حکومت نے کشمیریوں کی امداد کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے کشمیریوں کے خلاف اپنی روائیتی دشمنی اور نفرت کا کھلا مظاہرہ کیا ہے۔وزیر اعظم نواز شریف کی طرف سے عالمی پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر کے پر زور تذکرے سے بھارتی حکومت بوکھلاہٹ کا شکار دکھائی دیتی ہے شاید بھارت کو یہ امید نہیں ہو گی کہ پاکستان کا کوئی بھی معاملہ ہو،حکومت اور فوج ایک ہی موقف پر عمل پیرا ہیں۔اب یہ فیصلہ بھارت نے کرنا ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر پرامن اور منصفانہ طور حل کرنے کی راہ اختیار کرتا ہے یا پاکستان کے خلاف روائتی ہٹ دھرمی دکھاتے ہوئے اپنی اقتصادی ترقی کی کوشش کو ناکامی سے ہمکنار کرنے کو ہی اپنی عقلمندی تصور کرتا ہے۔
اطہر مسعود وانی 0333-5176429 28ستمبر2014ء
واپس کریں