دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جنوں سے دل کا آپریشن اور روحانی علاج کرنے والی شخصیات
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
آج سوشل میڈیا سے اطلاع ملی کہ آزاد کشمیر کے ضلع باغ کے ایک معروف حکیم صاحب سائیں جاوید وفات پا گئے ہیں۔باغ اور آزاد کشمیر کی مختلف شخصیات ان کی تصویر کے ساتھ انتقال کی اطلاع دیتے ہوئے دکھ اور افسوس کا اظہار کر رہی ہیں۔باغ کے ایک صحافی نے ان کے انتقال کی اطلاع کے ساتھ لکھا کہ باغ کی تحصیل بیرپانی سے تعلق رکھنے والے معروف معالج حکیم سائیں جاویدطویل عرصے تک ملک کے طول وعرض سے آنے والے مختلف بیماریوں کے مریضوں کا بلا معاوضہ علاج کرتے رہے ، سائیں جاوید کے عقیدت مندوں کا حلقہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان ، خیبر پختونخوا اور سندھ تک پھیلا ہوا تھا ۔

اس سے مجھے یاد آیا کہ سالہا سال پہلے باغ کے ایک پڑھے لکھے نوجوان نے اس حکیم صاحب کا مجھ سے تعارف کرایا اور ان کے علاج کی کرامات بیان کیں۔ اس نوجوان نے کہا کہ ایک ریٹائرڈ کرنل صاحب کو ڈاکٹروں نے عارضہ قلب کی وجہ سے آپریشن تجویز کیا تھا۔ ان کرنل صاحب کو کسی نے حکیم سائیں جاوید کا بتایا تو وہ علاج کے لئے سائیں جاوید کے پاس پہنچ گئے جنہوں نے جنوں کی مدد سے ان کا آپریشن کر کے انہیں صحت یاب کر دیا۔ اس نوجوان نے مزید بتایا کہ حکیم صاحب کے علاج کے بعد وہ کرنل صاحب دوبارہ راولپنڈی کے فوجی ہسپتال گئے جہاں سے انہیں آپریشن تجویز کیا گیا تھا۔ ان کے ٹیسٹ لئے گئے توبقول اس نوجوان کے، ڈاکٹر یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کرنل صاحب مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے تھے۔نوجوان نے یہ بھی بتایا کہ وہ حکیم صاحب علاج کے لئے کوئی پیسے نہیں لیتے اور وہ خدمت خلق پہ یقین رکھتے ہیں۔ میں نے اس نوجوان سے کہا کہ اگر مقصد خدمت خلق ہی ہے تو ان حکیم صاحب کو راولپنڈی آ کر لوگوں کا علاج کرنا چاہئے جہاں ضلع راولپنڈی کے علاوہ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور صوبہ کے پی کے سے لاکھوں مریض آ کر اپنا علاج کراتے ہیں۔ اس کے بجائے وہ حکیم صاحب باغ کے ایک گائوں میں بیٹھے ہیں جہاں لوگوں کو پوچھ پوچھ کر ان تک پہنچنا پڑتا ہے۔اس نوجوان سے مختلف سوالات پوچھنے سے یہ واضح ہوگیا کہ وہ حکیم صاحب جڑی بوٹیوں وغیرہ سے لوگوں کا علاج کرتے ہیں اور جنوں سے دل کے آپریشن کے لئے بھی کوئی معاوضہ نہیں لیتے۔ البتہ مریض سے دل کے آپریشن میں استعمال ہونے والے میڈیکل ٹولز منگوائے جاتے ہیں، جن کی قیمت چند لاکھ میں ہوتی ہے۔میں نے اس نوجوان کو سمجھانے کی بہت کوشش کی لیکن اس کے یقین اور عقیدت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

آزاد کشمیر بالخصوص ضلع باغ کے لوگ حکیم سائیں جاوید پر پورا اعتماد اور عقیدت رکھتے تھے ۔ میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے بھی لوگ ان سے علاج کرانے جاتے رہے۔ ایک بار میرا ایک دوست جو میرا کالج فیلو رہ چکا تھااور اب ایک حساس ادارے کے ساتھ وابستہ ہے، میرے پاس آیا اور باغ کے ان حکیم صاحب کا ایڈریس دریافت کیا۔ اس دوست نے بتایا کہ اس کے ایک جاننے والے نے ان حکیم صاحب کے پاس علاج کے لئے جانا ہے۔میں نے اسے ان حکیم صاحب کا ایڈریس تو معلوم کر کے دے دیا تاہم میں نے اسے بہت سمجھایا لیکن وہ اپنے ارادے سے باز نہیں آیا۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ضلع کے باغ میں مختلف امراض بالخصوص امراض دل اور کینسر کے مریض کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ حکومت کے شاکی رہتے ہیں کہ انہوں نے باغ میں تسلی بخش علاج کی معیاری سہولیات فراہم نہیں کی ہیں۔تاہم اس کے ساتھ ساتھ ضلع باغ کے لوگوں کا سائیں حکیم جاوید پہ اعتماد اور عقیدت غیر متزلزل ہے۔

کلر سیداں میں ایک پیر صاحب ہیں جو مائک پہ چھو کی آواز نکالتے ہیں ، جدید، بڑے لائوڈ سپیکر کے ذریعے ان کے چھو کی آواز کئی بار گونجتی ہے اور اس سے مختلف امراض میں مبتلا لوگوں کو شفا مل جاتی ہے۔ ایک بار ایک عزیز نے بتایا کہ وہ ڈڈیال آزاد کشمیر سے براستہ کلر سیداں اسلام آباد آ رہتے تھے تو کلر سیداں روڈ پہ انہیں کئی گھنٹے ٹریفک جام میں پھنسا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ اس روڈ پہ کئی کلومیٹر تک گاڑیاں پارک تھیں جو کلر سیداں کے چھو کی آواز سے لوگوں کے امراض کا علا ج کرنے والے پیر حق خطیب کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے وہاں آئے ہوئے تھے۔سوشل میڈیا میں وائرل ہونے والی کئی وڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ پیر صاحب ایسے کئی افراد کو ایک منٹ میں ٹھیک کر دیتے ہیں جن پہ جن چڑھے ہوتے ہیں اور ان جنوں کی وجہ سے وہ منہ اور جسم کو تیڑھا کر کے اوں اوں کی آوازیں نکال رہے ہوتے ہیں، پیر خطیب ہاتھوں میں پکڑی تسبیح کے دوچار دانے پھیرتے ہیں،جن کے چنگل میں پھنسے شخص کے ماتھے میں ایک بار ہاتھ مار کر چھو کر تے ہیں وہ وہ شخص یکدم جن کی قید سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اسی طرح وہیل چیئر پہ بیٹھ کر آنے والے چلنے پھرنے سے معذور افراد کو بھی پیر خطیب اسی طرح ایک صرف آدھے منٹ میں ٹھیک کر کے اشارہ کرتے ہیں کہ اٹھو اور چلو،اور وہ معذور یکدم اٹھ کر چلنا شروع ہو جاتا ہے۔

کچھ ہی عرصہ قبل پیر خطیب انگلینڈ کے دورے پہ گئے تھے۔ ان کی برمنگھم کی ایک وڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں ایک بڑا ہال بڑی تعداد میں موجود پاکستانیوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ سب نے اپنے ماتھے پہ ایک ہاتھ رکھا ہوا تھا، بہت بڑے ہال میں متعدد خواتین کے چیخنے کی ایسی آوازیں بھی آ رہی تھیں جس طرح جن کی قید میں پھنسے افراد پیر صاحب کے پاس آ کر آوازیں نکالتے ہیں، اور پیر صاحب دنوں ہاتھوں سے تسبیح کے چند دانے پھیر کر لائوڈ سپیکر پہ چھو کی آ واز نکالتے اور ان کی آواز بڑے جدید ایکو لائوڈ سپیکر پہ کئی بار گونجنے لگتی۔مجھے یاد آیا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ان پیر صاحب کی تصویر شائع ہوئی تھی اور اس کے بعد ان پیر صاحب کی کرامات اور مشہوری آسمان کو چھونے لگی۔

حکومت کے چاہئے کہ وہ بڑے بڑے ہسپتالوں پہ کروڑوں ، اربوں روپے خرچ کرنے کے بجائے اس طرح کی روحانی شخصیات کو بڑے بڑے مراکز تعمیر کر کے دے اور ان کی اندرون ملک اور بیرون ملک خوب تشہیر کی جائے تا کہ خلق خدا ان کی کرامات سے فیض پا سکے۔البتہ ایسی روحانی شخصیات کی کرامات کی تشہیر کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضرور بتایا جائے کہ کرامات کے موثر ہونے کی بنیادی شرط ان روحانی شخصیات کی کرامات پہ بھرپور یقین کیا جانا ہے، اگر ان روحانی شخصیات پہ اندھا یقین نہیں رکھا جائے گا تو ایسے لوگ ان روحانی شخصیات سے فیض نہیں پا سکیں گے۔یہ عوام کی کمبختی ہے کہ ایسی روحانی شخصیات کے ہوتے ہوئے حکومت گھمبیر ملکی مسائل کے حل کے لئے ان روحانی شخصیات کی مافوق الفطرت کرامات سے استفادہ کرنے کا اہتمام نہیں کرتی۔ ایسی روحانی شخصیات پہ یقین اور ان سے گہری عقیدت رکھنے والوں کو اس بات کا بھی یقین رکھنا چاہئے کہ یہ شخصیات ملک کے معاشی، سیاسی مسائل کے علاوہ دفاعی اور خارجہ امور کے گنجلک مسائل بھی حل کر سکتی ہیں۔


اطہر مسعود وانی
03335176429


واپس کریں