دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
6 نومبر:شہدائے جموں کو خراج عقیدت
شوکت علی ملک
شوکت علی ملک
شہدائے جموں،ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا انسانیت کا قتل عام ہے جب لاکھوں انسانوں کو مذہب کی بنیاد پر علاقائی تفریق پر شہید کیا گیا۔دنیا بھر میں کشمیری یوم شہدائے جموں منارہے ہیں اور بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید ہونے والے ہزاروں کشمیریوں کو خراجِ عقیدت پیش کررہے ہیں۔6  نومبر1947 کو بھارت اور مہاراجہ ہری سنگھ کی افواج نے ہزاروں کشمیریوں کو بے رحمی سے شہید کرکے جموں و کشمیر پر اپنا قبضہ جمالیا تھا۔یوم شہدائے جموں کے موقع پر آزاد جموں کشمیر سمیت دنیا بھر میں دعائیہ تقریبات منعقد کی گئی ہیں۔ شہداء کی یاد میں خصوصی سیمینارز کا انعقادبھی کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اورمختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے کشمیریوں کے حق میں صدائے احتجاج بلند کی جا رہی ہے۔اس روز ڈوگرہ فوج نے سازش کے تحت پاکستان ہجرت کرنے والے جموں کے لاکھوں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ انہیں پاکستان پہنچانے کا دھوکہ دے کر بچوں اور خواتین سمیت لاکھوں مسلمانوں کو نہایت سفاکی سے قتل کردیا۔
عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق 1947 میں دولاکھ سے زائد کشمیریوں کو قتل کردیا گیا۔ اس بہیمانہ قتل عام کی انسانی تاریخ میں کہیں نظیر نہیں ملتی۔مسلمانوں کے گھروں کو جلانے کا سلسلہ اکتوبر 1947 ہی میں شروع ہوگیا تھا،ڈوگرہ سپاہیوں اور ہندو انتہا پسندوں نے مسلم مردوں کا قتل عام کیا جبکہ عورتوں کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔بھارتی فوج، گورکھا رجمنٹ اور ہندو بلوائیوں کے ظلم کا نشانہ جموں، کٹھوعہ، اودھم پور، ریاسی اور دیگر علاقوں کے کشمیری شامل تھے۔ 1947 سے قبل جموں میں 80 فیصد آبادی مسلمانوں پر  مشتمل تھی، لیکن اس قتل عام کے بعد مسلمان اقلیت میں بدل گئے۔ جموں کے 123 دیہات میں مسلم آبادی کی اکثریت تھی، ان تمام دیہاتون کو ملیا میٹ کردیا گیا۔ ضلع کٹھوعہ میں مسلمانوں کی پچاس فیصد آبادی کو تہہ تیغ کردیا گیا۔ گجر برادری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد رام نگر میں بربریت کی بھینٹ چڑھے۔ رائے پور گاؤں کو مکمل طور پر راکھ کا ڈھیر بنادیا گیا۔ جموں، اکھنور، راجپورہ، چینی، ریاستی، کھٹوعہ، سانبہ، اودھم پور، مسلمانوں کی متقل گاہیں بن گئیں۔ یہی عمل کوٹلی میر پور اور دوسرے علاقوں میں دہرایا گیا۔ مواضعات، بیر نگر، سلنی، چانڈی وغیرہ میں مسلمانوں کا قتل اکتوبر کے مہینے میں شروع ہو چکاتھا۔  
مسلمان پولیس آفیسرز کو گھر بھیج دیا گیا جبکہ مسلم فوجیوں سے اسلحہ بھی لے لیا گیا۔ اسی طرح جموں کینٹ میں تعینات مسلم بریگیڈئر کی جگہ ہندو ڈوگرہ افسر کو تعینات کردیا گیا۔ مسلمان غریب الوطنی کا شکار ہوگئے، ریاستی اداروں میں مسلمانوں کی حیثیت مہاجروں جیسی تھی، ڈپٹی کمشنرکے دفاتر بھی آر ایس ایس کے حوالے کردئیے گئے۔ مہاراجہ پٹیالہ یادوندرا سنگھ نے فوجی جتھوں کو جموں بھیجا جنہوں نے مسلمانوں کا بے دردی کیساتھ قتل عام کیا۔بھارتی فوج، ہندو انتہا پسندوں اور سکھ رجمنٹ کے مظالم کا عملی مشاہدہ کرنے کیلئے بھارتی وزیر داخلہ سرداروالبھائی پٹیل، وزیر دفاع بلدیو سنگھ اور مہاراجہ پٹیالہ خود جموں آئے۔  انہوں نے کمال مکاری کیساتھ مسلمانوں کو پاکستان بھیجنے کا لالچ دیا۔ 5نومبر کو جموں سے مسلمانوں کوٹرکوں میں لادا گیا۔ مگر اسے چیت گڑھ سیالکوٹ لے جانے کی بجائے کھٹوعہ روڈ پر لے جایا گیا۔ یہاں مسلمان مہاجرین کی بسوں پر مسلح افراد نے حملہ کر دیا اور ماوا کا مقام مسلمانان جموں کیلئے قتل گاہ بن گیا۔ اس قافلے میں کم از کم 4 ہزار افراد شامل تھے، لیکن شہر میں اس قتل عام کی خبر تک نہ ہوئی۔ دوسرے روز 6 نومبر کو یہ کہانی پھر دہرائی اس روز 70 ٹرکوں میں لوگوں کو بٹھایا گیا اور اس روز سب سے زیادہ خون بہایا گیا۔ یہ سانحہ ستواری کے علاقہ میں پیش آیا۔ 7 نومبر کے قافلہ میں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے گئے ان سے ''نازیت'' کی روح بھی کانپ اٹھی اور شیطان نے بھی اپنا چہرہ چھپا لیا۔
شہداء جموں کی اس تاریخی شہادت اور جبر و ظلم کے اس وقعہ پر جناب ایم کے نقشبندی اور ممتاز کشمیری مورخ جناب رشید ملک نے قومی جرائد میں بہت دفعہ لکھا ہے۔اکتوبر کے آخری ہفتہ اور 6,5نومبر 1947ء کے دوران ڈوگروں اور سکھوں نے تین لاکھ سے زائد کشمیریوں کو انتہائی بے دردی سے شہید کر دیا اور قریباً پانچ لاکھ کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا۔یوم شہداء جموں کے حوالہ سے برطانوی مورخ ایسٹر لیمپ نے اپنی کتاب مستند حقائق کے حوالہ سے انکشاف کیا کہ پنجاب سے ہندئوں اور سکھوں کے خونی جھتے جموں داخل ہوگئے جنہوں نے وحشیانہ قتل وغارت گری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دولاکھ سے زائد مسلمانوں کو شہید کردیا اور لاکھوں لوگوں کو مغربی پنجاب (پاکستان) کی طرف دھکیل دیا۔
برطانوی اخبار ڈیلی دی ٹائمز لندن نے اس قتل عام کی رپورٹنگ کرتے ہوئے لکھا کہ 2 لاکھ 37 ہزار مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔ یہاں تک کہ وہ پاکستان بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہ سب ڈوگرہ راج کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد سے صرف 5 دن قبل شروع کیا گیا۔ جبکہ اس قتل عام کے 9 دن بعد مہاراجہ نے بھارت سے الحاق کا اعلان کردیا۔اسٹیٹس مین کے ایڈیٹر آئن سٹیفن نے اپنے کتاب میں لکھا کہ خزاں 1947 کے اختتام تک تقریب 2 لاکھ مسلمانوں کو قتل کردیا گیا۔ ایک اور صحافی ہوریک الیگزینڈر کے مطابق جموں کے مسلمانوں نے پاکستان کی خاطر اپنی زندگی، دولت، رشتہ دار اور جذبات قربان کئے۔1947 میں شروع ہونے والا کشمیری مسلمانوں کا قتل عام آج تک نہیں تھم سکا۔ کشمیری آج بھی قابض بھارتی افواج کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ وہ آج بھی بھارتی فوج کی گولیوں کانشانہ بنتے ہیں مگر آزادی کے نعرے سے پیچھے نہیں ہٹ رہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری 75سال سے جاری انسانیت کے قتل عام کو روکوانے کیلئے کردار ادا کرے۔ اور مسئلہ کشمیر کا پرامن  حل تلاش کریں۔

واپس کریں