دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
8 اکتوبر، قدرتی آفات سے آگہی کا دن
شوکت علی ملک
شوکت علی ملک
شوکت علی ملک ۔ محکمہ تعلقات عامہ حکومت آزاد کشمیر
قومی سطح پر 8 اکتوبرکو آفات سے نمٹنے کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے، یہ دن ان قیمتی جانوں کی یاد دلاتا ہیجو 2005 کے قیامت خیز زلزلے میں جان کی بازی ہار گئے تھےـ2005میں آنے والا زلزلہ بھی ان ہی واقعات کا تسلسل تھا جو انڈین اور یوریشین پلیٹ باؤنڈری پر موجود فالٹ سسٹم سے پیدا ہوا تھا۔ اِس کا میگنی ٹیوڈ 8.6 تھا اور اس کا مرکز مظفرآباد شہر سے 19 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع تھا۔ یہ زلزلہ اپنے مرکز کے مقام پر زمین کی سطح سے 15 کلومیٹر گہرائی میں یکدم توانائی کے اِخراج کی وجہ سے آیا۔ اِس نے ملک کے شمالی حصے کو بری طرح جھنجھوڑا اور تقریباً 3 ملین گھروں کو جزوی یا مکمل طور پر نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ یہ زلزلہ کئی مقامات پر لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ بھی بنا جس نے کئی گاؤں اور قصبے مٹی کے نیچے دفن کردیئے۔ ہمیں آج بھی وہ تکلیف دہ مناظر یاد ہیں۔ شاید ہم انہیں کبھی نہ بھول سکیں گے۔
اس دن کو منانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ قدرتی آفات، ان کے مختلف زمروں، ان کے نتائج اور قدرتی آفات سے بچنے کے طریقوں کے بارے میں آگاہی پھیلانے کا ایک پلیٹ فارم ہے۔ اس دن اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں قدرتی آفات کے بارے میں معلومات پھیلانے کے لیے مختلف سرگرمیاں منعقد کی جاتی ہیں۔یہ دن اہم ہے کیونکہ یہ تمام لوگوں کو خود انحصار بنانے پر زور دیتا ہے۔ وہ کسی بھی قسم کی آفت کا شکار ہونے سے پہلے اس آفت کو دور کرنے پر بھی زور دیتا ہے۔پاکستان سمیت دنیا بھر کے کئی ممالک اور کمیونٹیز کیلئے زلزلے ایک بڑا خطرہ ہیں جس سے پیدا ہونے والی تباہی کے امکانات سے نمٹنے کے لئے عام لوگوں کی تیاری وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سیلاب، زلزلے، وبائی امراض پھوٹنے سمیت دیگر ایسے ہی واقعات کے بارے میں عوام کو مختلف عوامل سے آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ کسی بھی آفت کی صورت میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے خو اور دوسروں کو بچانے میں معاون ثابت ہو سکیں۔
ماہرین کے مطابق آفات میں زیادہ تراموات عوام میں آگاہی کے فقدان اور حکومتی اداروں کی فوری مد د رسانی نہ ہونے کے باعث ہوتی ہیں پیشگی اقدامات اور احتیاطی تدابیر اختیار کر کے آفات اور ناگہانی حادثات کے نقصانات کوکم کیاجاسکتا ہیجس کیلئے عوامی آگاہی مہم اور جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کارلانا وقت کی اہم ضرو رت ہے۔آزاد کشمیر اور صوبہ خیبر پختونخوا میں سترہ برس قبل آنے والے زلزلے میں قریب ایک لاکھ افراد جاںبحق ہو گئے تھے۔ آٹھ اکتوبر پاکستان میں قدرتی آفات سے بچاؤ اور ان کے بارے میں آگاہی کا قومی دن منایا جا رہا ہے۔پاکستان کو مسلسل تباہ کن سیلابوں اور زلزلوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد قدرتی آفات سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ ہے۔پاکستان کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جو سب سے زیادہ موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہے ہیں اور حالیہ دو عشروں میں پاکستان آفات کی شدید زد میں رہا ہے۔پوری دنیا میں موسمی تغیر اور بڑھتے ہوئے درجہ حرارت سے قدرتی آفات وقوع پزیر ہو رہے ہیں۔اکیسویں صدی کی پہلی دو دہایؤں سے پاکستان ایک تسلسل کے ساتھ قدرتی آفات کا شکار رہا ہے جس میں سیلاب، زلزلے، طوفان، برفانی تودوں کا گرنااور خشک سالی شامل ہے۔ جبکہ تقر یبا پانچ ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ 8 اکتوبر سانحے کے بعد قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے وفاقی اور صوبائی سطع پر موثر حکمت عملی کے تحت اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا جو کہ آفات سے نمٹنے کی انتظامی استطاعت رکھتے ہیں. ایس ڈی ایم اے آزاد کشمیر سطح پر قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے ایک فعال اور منصوبہ ساز ادارہ ہے جو آفات سے نمٹنے، آفات کے خطرات میں کمی لانے اور تیاری سے متعلق منصوبہ سازی کرتا ہے۔ اور اپنی منصوبہ سازی کے تحت اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ تمام تر امدادی کاروائیوں میں عورتوں،بزرگوں،بچوں اور معذورافراد اور انفرسٹرکچر کو نقصان سے بچاؤ کا خاص خیال رکھا جائے، قدرتی آفات سے درپیش خطرات کو بروقت آگاہی اور بہتر حکمت عملی سے کم کرنا ریاستی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔حکومتی اقدامات کے نتیجے میں آفات کے نقصانات کو کم کرنے سے معاشی اور سماجی ستحکام لایا جا سکے گااورممکنہ آفات سے متاثرہ علاقوں میں تمام ترقیاتی منصوبوں میں آفات کے خطرات کو ملحوظ نظر رکھ کر حکمت عملی ترتیب دینے میں مدد گار ثابت ہونگے۔آفات کے خطرات کو کم کرنے کے لیے شعور و گاہی اور تعلیم کو فروغ دینا ہو گا۔ عوام کو ہر قسم کی آفات سے محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کرنا ایس ڈی ایم اے کی اولین ترجیح ہے۔
آزاد کشمیر کی حکومت آفات سے نمٹنے اور صلاحتی دائرہ کار کو بڑھانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے اوریہ حکومت کے پائیدار ترقی کے ایجنڈہ میں شامل ہے۔ماضی میں قدرتی آفات سے نمٹنے کا نظام موجود نہ تھا لہذا آفا ت کی وجہ سے ہمیں بھاری مالی اور جانی نقصان اٹھاناپڑا لیکن اب آفات سے نمٹنے کا ایک مکمل اور موئثر نظام اور ادارہ موجو د ہے جو کہ پورے جنوبی ایشاء میں اپنی مثال آپ ہے۔قدرتی آفات دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں آتی ہیں اور یہ زندگی کے وجود سے ہی بنی نوع انسان کے لیے ایک عام سی بات ہے۔ قدرتی آفات میں سمندری طوفان، زلزلے، طوفان، برفانی تودے اور سونامی شامل ہیںـہم اس وقت تک حادثات سے مکمل طور پر بچ نہیں سکتے جب تک ہم فطرت کی گود میں رہ رہے ہیں اور اس سلسلے میں ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ چونکہ ہمیں قدرتی ماحول میں رہنے کی ضرورت ہے ہمیں حادثات کے بارے میں تھوڑا زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے چاہے وہ انسان کے بنائے ہوئے ہوں یا قدرتی۔ ایک مناسب ڈیزاسٹر مینجمنٹ بنی نوع انسان کے ذریعہ کئے گئے اہم ترین کاموں میں سے ایک ہے۔ اگر ہم کامیابی کے ساتھ ایک مثالی سائنسی انتظامی منصوبہ تیار کر لیں تو یہ ممکن ہے کہ ہم اس تباہی کے اثرات کو کم کر سکیں گے جس سے بنی نوع انسان کو درپیش ہے اور اسی وجہ سے یہ اس وقت پریشان ہے۔موثر منصوبہ بندی ہمیشہ کسی بھی چیز کا بہترین ردعمل ہوتا ہے جو ہمارے قابو میں نہیں ہے اور ہمیں قدرتی اور انسانی ساختہ آفات کی صورت میں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔تو یہ ممکن ہے کہ ہم اس تباہی کے اثرات کو کم کر سکیں گے جس سے بنی نوع انسان کو درپیش ہے اور اسی وجہ سے یہ اس وقت پریشان ہے۔موثر منصوبہ بندی ہمیشہ کسی بھی چیز کا بہترین ردعمل ہوتا ہے جو ہمارے قابو میں نہیں ہے اور ہمیں قدرتی اور انسانی ساختہ آفات کی صورت میں بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔

واپس کریں