دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
27اکتوبر:ایک اور یوم سیاہ
شوکت علی ملک
شوکت علی ملک
ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ میں 27 اکتوبر وہ منحوس دن ہے جب آج سے 75 سال قبل غاصب ہندوستان کی بزدل افواج نے سری نگر ائرپورٹ پر اپنے ناپاک قدم رکھے وہ دن اور آج کا دن ہندوستان نے مقبوضہ کشمیر کو ایک فوجی چھاؤنی میں تبدیل کر رکھا ہے۔ ہندوستان کی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں مظالم کی انتہا کر رکھی ہے خاص طور پر ماورائے عدالت نہتے کشمیریوں کے قتل عام،نافذ شدہ جملہ کالے قوانین،کرفیو،گرفتاریوں،گھر گھر تلاشیوں کی آڑ میں خواتین کی بے حرمتی،حریت قائدین کی نظربندی،سوشل میڈیا پر پابندیوں،سکولوں اور کالجوں کے بچوں پر تشدد قابل مذمت ہے۔ بھارت کی حکومت آئین کی دفعہ 35 A میں تبدیلی کر کہ کشمیر میں آبادی کے تناسب میں تبدیلی کی سازش کررہی ہے اور ریاست کے خصوصی سٹیٹس کو ختم کرنا چاہتی ہے جو کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے اقوام متحدہ کو بھارتی حکومت کی اس بد بیتی پر مبنی غیر آئینی اقدام کا نوٹس لینا چاہئے بھارت خطہ کے اندر مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کہ بجائے ہندو انتہا پسندی کو ہوا دے رہا ہے اور پاکستان کو کمزور کرنیکی مسلسل سازشیں کررہا ہے مگر کشمیر عوام اسے اس کی مذموم حرکتوں میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے اور پاکستانی عوام اور بہادر مسلح افواج کے ساتھ مل کر دشمن کی ہر سازش کا مقابلہ کرتے رہیں گے۔
کشمیری عوام نے کبھی بھی غیر قانونی قبضے کو قبول نہیں کیا اور 1947 میں عوامی بغاوت کے ذریعے آزادی کی جدوجہد شروع کی۔ دریں اثناء ہندوستانی حکومت نے یکم جنوری 1948 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کیا، کشمیر کے تنازع کو حل کرنے کے لیے اس کی مدد طلب کی۔سلامتی کونسل نے جنگ بندی، جنگ بندی لائن کی حد بندی، ریاست کو غیر مسلح کرنے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں ایک آزاد اور غیر جانبدار رائے شماری کی منظوری دینے والی دو قراردادیں منظور کیں۔ یہ قراردادیں 13 اگست 1948 اور 5 جنوری 1949 کو منظور کی گئیں جنہیں پاکستان اور بھارت دونوں نے قبول کیا۔ ان قراردادوں کا صرف ایک مرحلہ (جنگ بندی اور جنگ بندی لائن کی حد بندی) نافذ کیا گیا جبکہ مقبوضہ علاقے کو غیر مسلح کرنا اور رائے شماری کا انعقاد ابھی تک غیر عملی ہے۔
جنوری 1989 سے 2021 تک بھارتی فوجیوں نے تقریبا 2لاکھ کشمیریوں کو شہید کیا، ہزاروں خواتین کو بیوہ، بچے یتیم ہوئے جبکہ ہزاروں کشمیری خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا۔ کشمیریوں کو ڈرانے دھمکانے کے لیے خواتین کی عصمت دری کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ 10،000 سے زائد بے گناہ نوجوانوں کو لاپتہ کیا گیا جن کے ٹھکانے کا بھی کوئی پتہ نہیں چل سکا۔ جبکہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو جعلی مقابلوں میں بھارتی فوجیوں کے مارے جانے کے بعد علاقے میں دریافت ہونے والی ہزاروں بے نشان قبروں میں دفن ہونے کا بھی خدشہ ہے۔سینکڑوں نوجوان اپنی ایک یا دونوں آنکھیں گولی کے زخموں سے کھو چکے ہیں جبکہ ہزار سے زائد اپنی بینائی سے محروم ہونے کے دہانے پر ہیں۔ حریت رہنماؤں سمیت سینکڑوں افراد کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔
یکم ستمبر2021 بطلِ حریّت، مقبوضہ کشمیر میں چلتے پِھرتے پاکستان، سیّد علی گیلانی نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور اپنے ربّ کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے، آزادی کی جس جدوجہد کے لیے زندہ رہے، اپنے جیون کے92 برس گزار کر اُسی کے نام کے ساتھ آنکھیں موندلیں۔۔5 اگست 2019 کے بعد سے ہندوستان نے تمام موجودہ معاہدوں کی پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر کو دنیا کے سب جسے بڑے انسانی پنجرے میں تبدیل کردیا۔ بڑے پیمانے پر نسل کشی اور آبادی میں تبدیلی ہونا شروع ہوگئی ہے۔ آئی آئی او جے کے کی سیاسی قیادت حراست میں لے لی گئی یا گھروں میں نظربند کردیا گیا اور اسے زبردستی کنارہ کش کیا جا رہا۔ پاکستان نے بھارت کی ظالم اور سفاک حکومت کے سامنے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ پاکستان ہمیشہ سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کی جنگ میں ان کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ عالمی کھلاڑی تنازع کے حل کو نظر انداز کرتے رہتے ہیں، یہ خطے میں ایک انسانی مسئلہ بن گیا ہے۔ یہ مسئلہ ایک بین الاقوامی تنازعہ ہے۔ تاہم، متنازعہ وادی میں اس کے انتہائی کمزور کیس کی وجہ سے، بھارت اسے دو طرفہ تنازعہ قرار دیتا ہے اور اس مسئلے کو بین الاقوامی شکل دینے سے گریز کرتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق زید رعد الحسین نے گزشتہ سال مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ایک رپورٹ میں کہا تھا:''ہندوستان اور پاکستان کے مابین تنازعہ کے سیاسی طول و عرض طویل عرصے سے مرکزی سطح پر ہیں، لیکن یہ وقت کے ساتھ منجمد تنازعہ نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا تنازعہ ہے جس نے لاکھوں لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے اور آج تک ناقابل برداشت مصائب کا شکار ہے۔
تمام فریقوں کی طرف سے ماضی اور حال کی خلاف ورزیوں اور زیادتیوں کا احتساب اور متاثرین کا ازالہ ہونا ضروری ہے۔ ''ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو کشمیر کی آزادی اور مسلسل جدوجہد کی تاریخ سے روشناس کروائیں۔ کشمیر اور پاکستان کے مابین برادرانہ تعلق اور محبت کے رشتے اور اس کی اہمیت کے بارے میں بتایا جائے، کیونکہ ہماری یہ نوجوان نسل ہی ہمارا مستقبل ہیں لہذا انہیں کشمیر کی اہمیت اور اس کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا بھی بخوبی علم ہونا چاہیے۔ کشمیر اور کشمیری برادری کیلئے اپنی محبت کا اظہار اور ان کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے انہیں ان کے فرائض سے آگاہ کیا جائے۔ہماری کل آبادی کا 60 فیصد حصہ نوجوان پر مشتمل ہے۔ ان نوجوان کو کشمیر کا سفیر بنانے کیلئے حکومتی رہنماؤں اور تعلیمی اداروں کو مل کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ہرادارے میں ایک ایک کشمیر چئیر اور کشمیرکمیٹی ہونی چاہئے۔ نوجوان طلباء پر مشتمل کشمیر کمیٹی اپنے اپنے اداروں میں کشمیر کے حق میں اپنی محبت کا اظہار کرنے کیلئے مختلف تقریبات کا انعقاد کرے، سیمینار کروائیں، تقرری مقابلے اور کشمیری شہداء کیلئے اپنی تحریروں سے خراج تحسین پیش کریں۔ اور پھر ان نوجوان کشمیری سفیروں کو عالمی سطح پر کشمیر کا مقدمہ احسن طریقے سے لڑنے کیلئے تیار کیا جائے تاکہ پاکستان کی بہتر نمائندگی کی جاسکے۔ہمارے وہ کشمیری رہنما جنہوں نے آزادی کی اس جدوجہد میں اپنی جانوں کے نذرانے دیے این کی اس جدوجہد کو آگے بڑھانے اور پایا تکمیل تک پہنچانے کیلئے ان کاوشوں کی اشد ضرورت ہے۔
واپس کریں