دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد ریاست جموں وُکشمیر میں بلدیاتی انتخابات کے حق اور مخالفت میں کون ؟
محمد اسلم میر
محمد اسلم میر
ٓآزاد ریاست جموں وکشمیر میں گزشتہ ستر سال سے مخصوص برادریوں کے سیاست داں بڑے قبائل کے مفادات کو ہمیشہ عوامی مفادات پر ترجیح دیتے رہے ہیں۔ اس کی مثال گزشتہ ہفتے آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں دیکھنے کو ملی جب ساری حکمران و اپوزیشن پارلیمانی جماعتیں قانون ساز اسمبلی کے فلورپر بلدیاتی انتخابات کے خلاف ایک ہی صف میں نظر آئیں ۔ ارکان اسمبلی نے ملکر بلدیاتی انتخابات کو روکنے کے لئے بل پیش کیا ۔ اس بل کو قانون ساز اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل ایک ماہ تک آزاد ریاست جموں وکشمیر کے سیاست دانوں کی درجنو ں خفیہ نشتیں ہوئیں ۔ پوری حکومت اور اپوزیشن بلدیاتی انتخابات کے لئے ایک ہو گی جبکہ وزیر اعظم تنویر الیاس جو شروع دن سے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں سنجیدہ رہے بلکہ انہوں نے محدود و سرکاری وسائل میں تیس کروڑ روپے ان انتخابات کی تیاریوں کے لئے الیکشن کمیشن کو بھر وقت جاری بھی کئے۔
وزیر اعظم تنویر الیاس اپنی پارلیمانی جماعت تحریک انصاف اور اپوزیشن کی مخالفت کے باجود بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے ڈٹ گے لیکن تحریک عدم اعتماد اور اپنی پارلیمانی جماعت کے ٹوٹنے کے ڈر سے وہ بھی وقتی طور پر خاموش ہوئے لیکن اپنے ساتھیوں اور قابل اعتماد دوستوں کے ذریعے وہ اعلی عدالتوں اور میڈیا تک یہ بات پہنچاتے رہے کہ ان بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں وہ تنہا ہیں اور اس کی مدد کی جائے۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم نے سب سے پہلے بلدیاتی انتخابات کو تیس نومبر تک کرانے کی مکمل یقین دہانی کرادی جبکہ باقی سیاسی جماعتیں دن رات آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کی مخالفت کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی اور مالی مفادات کے لئے اب گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی مخالفت پر نیلہ بٹ دھیرکوٹ میں ایک ہوگے۔ اپوزیشن جماعتوں نے بلدیاتی انتخات کے التوا کے لئے پہلے پندرہویں ترمیم کی آڑ میں جھوٹا بیانہ گھڑ لیا اور پورے آزاد ریاست جموں وکشمیر میں حکومت اور ریاست پاکستان کے خلاف چند لوگوں کو اکسا کر سڑکوں پر لے آئے کہ آزاد کشمیر کو صوبہ بنایا جارہا ہے۔ پانچ اگست دو ہزار انیس جب مقبوضہ ریاست جموں وکشمیر میں مکمل لاک ڈان تھا اور کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہاں کے لوگوں کے ساتھ کیا ظلم ہو رہاہے لیکن اس د وران بیس کیمپ میں آزاد ریاست جموں وکشمیر کی سیاسی جماعتیں نہ صرف خاموش رہیں بلکہ اس وقت کے وزیر اعظم فاروق حیدر امریکہ اور یورپ کے دورے پر چلے گے۔ دوسری جانب جب اکتیس سال کے بعد آزاد کشمیر کے نوجوانوں کو بلدیاتی انتخابات کے ذریعے اقتدار میں نچلی سطح پر شامل کرنے کی بات شروع ہوئی تو حکومت سے بڑھ کر یہی سیاست داں جو پانچ اگست دوہزار انیس کو مقبوضہ کشمیر کے عوام کے ساتھ یکجہتی اور ان پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کو اجا گر کرنے کے بجائے امریکہ بھاگ گے تھے اچانک سڑکوں پر نکل آئے۔
اس اچانک رد عمل پر آزاد ریاست جموں وکشمیر کے نوجوان بھی کھڑے ہوئے لیکن بعد میں ان تمام جلسوں اور مظاہروں کی اصل کہانی اور اس کے سیاسی کردار ان جوانوں کے سامنے آئے کہ آزاد ریاست جموں وکشمیر کو پانچواں صوبہ بنانے کے لئے پندرہویں ترمیم کے نام پر جو بل اسمبلی میں پیش کیا گیا وہ دراصل بلدیاتی انتخابات کو ختم کرنے اور نوجوانوں کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے کیا گیا۔ آزاد جموں و کشمیر کو پانچواں صوبہ بنانے کی پندرہویں ترمیم کی آڑ میں جو کھیل آزاد کشمیر کی سیا ست پر قابض چند بڑے قبائل کے لیڈروں نے کھیلا وہ اس وقت ہار گے جب انہیں بلدیاتی انتخابات کے التوا کے حوالے سے پیش کیا گیا بل اسمبلی سے واپس لینا پڑا۔ آزاد کشمیر کے ستائیس لاکھ لوگوں کے نام پر سالانہ پونے دو کھرب روپے کھانے والے یہ سیاست داں اور ان کے قبائل سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین کو در اصل یہ فکر لگ گی کہ علاقے کی ترقی کے لئے جو پسیے آرہے ہیں وہ اب ان کی جیبوں میں جانے کے بجائے براہ راست بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے زمین پر لگیں گے اور ان کی عوام پر سیاسی گرفت کمزور ہوگی اور وہ سیاسی طور پر کمزور ہوں گے۔ عوامی دباو اور نوجوانوں کی طرف سے شدید رد عمل کے بعد ایک طرف حکومت اور اپوزیشن نے بل واپس لے لیا۔ دو سری جانب اعلی عدالتوں نے نوجوانوں کے جزبات اور آزاد ریاست جموں وکشمیر کے عام آدمی کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے بلدیاتی انتخابات میں التواءکی تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ نے فیصلہ سنادیا ہے. سپریم کورٹ نے حکومت کو انتخاب کے لئے 30 نومبر تک کی مہلت دی اور بلدیاتی انتخابات کو یقینی بنانے کے لئے انتظامات جاری رکھنے کے بھی احکامات جاری کئے۔
آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ میں بلدیاتی انتخابات کے التواءکے لئے سپریم کورٹ کے فل بینچ نے چیف جسٹس جسٹس راجا سعید اکرم خان کی سربراہی میں حکومتی درخواست کی سماعت کی. ۔ فل بنچ میں جسٹس خواجہ نسیم اور جسٹس رضا علی خان بھی شامل تھے ۔فل بنچ کے سامنے حکومتی وکلاءنے موقف اختیار کیا کہ سیکیورٹی صورتحال او ر حفاظتی عملے سمیت وسائل کی کمی کے سبب 28 ستمبر کو عدالتی احکامات کے مطابق بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نا ممکن ہے جس کے پیش نظر حکومت کو تمام معاملات یکسو کرنے کے لئے آئندہ سال 25 مئی تک کی مہلت دی جائے. ۔ دوران سماعت مخالف فریق آزادجموں و کشمیر بار کونسل کے وکلاءکا کہنا تھا کہ بلدیاتی انتخابات کے التواءکی درخواست حکومتی بدنیتی پر مبنی تھی جسے واضع ہوتا ہے کہ وہ اکتیس سا ل کے بعد بھی بلدیاتی انتخابات کے ذریعے اقتدار نچلی سطح پر منتقل کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ عدالت ا لیکشن کمیشن کے جاری شیڈول کے مطابق ہی بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا حکم جاری کرئے۔دوران سماعت آزاد جموں وکشمیر سپریم کورٹ کے فل بنچ نے ریمارکس دیئے کہ بلدیاتی انتخابات شہریوں کا بنیادی اور آئینی حق ہے اور اس حق کو یقینی بنانے کے لئے عدالت آئین اور عوام کے ساتھ ہے۔فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لئے پہلے سے دی گی مہلت کو بڑھاتے ہوئے 30 نومبر تک بلدیاتی انتخاب کا وقت دے دیا ہے. آزاد جموں وکشمیر سپریم کورٹ نے حفاظتی عملے کی کمی کے باعث آزاد ریاست جموں وکشمیر کے تینوں ڈویژنز میں ایک دن کے بجائے تین ایام کے وقفے سے انتخابات کروائے جانے کی بھی اجازت دے دی۔ سپریم کورٹ کے فل بنچ نے بلدیاتی انتخابات کو تیس نومبر تک . آزادجموں و کشمیر الیکشن کمیشن کو بھی جاری شیڈول پر نظر ثانی کرنے کی ہدایت کرتے ہوے کہا کہ وہ اپنا کام جاری رکھے اور حکومت الیکشن کمیشن کو تمام دستیاب وسائل فراہم کرئے۔
بشکریہ روزنامہ دنیا

واپس کریں