دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد حکومت کا قیام جموں و کشمیر کے عوام کی تاریخ ساز قربانیوں کا نتیجہ
نجیب الغفور خان
نجیب الغفور خان
ہر سال24اکتوبر کو آزاد حکومت ریاست جموں کشمیرکا یوم تاسیس منایا جاتا ہے۔ یہ تاریخی دن مقبوضہ جموں وکشمیر کی جدوجہد آزادی کو مکمل کامیابی تک جاری رکھنے کے تجدیدعہد کے ساتھ منایاجاتا ہے۔ 1947 میں اسی دن ظالم ڈوگرہ حکمرانوں کے تسلط کے خلاف کشمیری مسلمانوں نے مسلح جدو جہد کرکے ریاست جموں و کشمیر کا ایک حصہ آزاد کرایا اور آزاد کشمیر کے نام سے کشمیریوں کی نمائندہ حکومت کی بنیاد ڈالی۔یوم تاسیس کے موقع پر جموں و کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت دلانے اور بھارتی ناجائز فوجی قبضے کے خاتمے کے لئے جانیں قربان کرنے والے محسنوں کو بھی یاد کیا جاتا ہے۔اس دن آزاد جموں کشمیر کے تمام 10اضلاع میں خصوصی تقریبات کا انعقاد کر کے اس دن کی اہمیت پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔ یوم تاسیس کی اہمیت کو اجاگر کرنے اور نوجوان نسل کو اپنے اسلاف کے کارناموں سے روشناس کروانے کے لئے جموں و کشمیر لبریشن سیل نے خصوصی پروگرامات ترتیب دئیے ہیں۔جبکہ جموں و کشمیر لبریشن سیل نے 24اکتوبریوم تاسیس اور 27اکتوبر یوم سیاہ کے حوالے سے سوشل میڈیا پربھی خصوصی کیمپینزبھی شروع کر رکھی ہیں۔یوم تاسیس کے موقع پر شہدا ئے جموں و کشمیر کے لیے فاتحہ خوانی کے علاوہ جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کی جلد کامیابی اور آزاد جموں و کشمیر کی ترقی و خوشحالی کے لیے خصوصی دعا ئیں بھی کی جاتی ہیں۔
1947میں غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی ولولہ انگیز قیادت میں کشمیری حریت پسندوں نے ڈوگرہ راج کے خلا ف مسلع جدوجہد کا آغاز کیا،جس کے نتیجے میں آزاد کشمیر کا یہ خطہ آزاد ہوااور اور غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان اس کے بانی صدر منتخب ہوئے۔24 اکتوبر1947 کو ان علاقوں میں آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کے نام سے ایک عبوری انقلابیحکومت قائم کی گئی جس کے پہلے صدر غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان بنائے گئے، اس حکومت نے پونچھ(موجودہ ضلع سدھنوتی) کے علاقے تراڑ کھل کے گاں جنجال ہل کو اپنا دارالحکومت قرار دے کر یہاں سے امور ریاست چلانا شروع کر دئیے تھے۔ آزادکشمیرکی پہلی حکومت کی کابینہ میں صرف 6 وزرا تھے۔ 1949 کے اوائل میں دارالحکومت جنجال ہل سے مظفر آباد منتقل کیا گیا۔ یوم تاسیس کا تاریخی دن مناتے وقت غازی ملت کے کارناموں کو بھی خراج تحسین پیش کر کے نوجوان نسل کو یہ بھی یاد دلایا جائے کہ آزادکشمیر کا یہ خطہ جو حاصل کیا گیا تھا یہ آزادی ابھی ادھوری ہے کیونکہ ریاست جموں و کشمیرکے غالب حصے پر ابھی تک بھارت کا کاناجائز قبضہ ہے اور 10 لاکھ سے زائد بھارتی افواج قابض ہے۔
جموں و کشمیر کے عوام گذشتہ 76برسوں سے بھارت سے آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔آزاد حکومت کے قیام کا بنیادی مقصد آزاد کشمیر کو تحریک آزادی کا بیس کیمپ قرار دے کر باقی کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔غازی ملت سردار محمد ابراہیم نے آزاد حکومت کے قیام کے ساتھ ہی ایک شاندار خطاب فرمایا تھا،جو انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ا پنے خطاب میں غازی ملت نے کہا کہ عبوری حکومت کے قیام کا مقصد ڈوگرہ راج کے ناقابل برداشت مظالم اور اسکی زیادتیوں کا خاتمہ ہے،تاکہ ریاست کے عوام بشمول مسلمانوں،ہندووں اور سکھوں کو حکومت خود اختیاری کا حق حاصل ہو سکے۔ریاست کے کچھ علاقوں پر اپنا اقتدار مستحکم بنیادوں پر قائم کردیا ہے اورامید ہے کہ ڈوگرہ راج کے زیر تسلط ریاست کے بقیہ علاقوں کو بھی جلد آزاد کر وادیا جائے گا۔ عبوری حکومت اپنی ہمسایہ مملکتوں پاکستان اور بھارت کے بارے میں انتہائی دوستانہ اور اچھے جذبات رکھتی ہے۔اور توقع رکھتی ہے کہ دونوں مملکتیں جموں کشمیر کے عوام کی ان کوششوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کریں گی۔جو اپنی آزادی کے حصول کے حق کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔مگر بدقسمتی سے کشمیری 76سال گزرنے کے باوجود ریاست جموں و کشمیر کا بقیہ حصہ بھارت کے غیر قانونی تسلط سے آزاد حاصل نہیں کرہو سکا۔بلکہ روز بروز بھارت کے مظالم بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ 5 اگست کو مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کو د وحصوں میں تقسیم کیا تھا اور وادی کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے لیے وہاں غیر کشمیریوں کو زمین خریدنے کی اجازت بھی دی تھی۔ جاری محاصرے میں نہ صرف اظہار رائے پر پابندی ہے بلکہ ہسپتالوں تک رسائی پر بھی پابندی ہے، اس لاک ڈان سے جموں و کشمیر کی معیشت کو اربوں ڈالرسے زائد کا نقصان ہوا ہے اور یہ نقصان بھارتی حکومت کا نہیں بلکہ اس عوام کا ہے جو ڈوگرا راج سے آج تک جدو جہد میں مشغول ہیں۔ بھارت جمہوری ملک کا دعوی کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ کشمیریوں کو مکمل آزادی دے اور ان کو جمہوری طریقے سے رہنے کا حق بھی دینا چاہیے۔مگر وہ مقبو ضہ کشمیر میں نہتے اور معصوم کشمیر یوں پر ظلم و بربریت کی انتہا کئے ہوئے ہے۔کالے قوانین کے ذریعے کشمیریوں کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ معصوم کشمیریوں کے جذبہ حریت سے گھبرا کر قابض فورسز نے چھروں سے کشمیریوں کی بینائی چھیننا شروع کر دی معصوم انسانوں پر ظلم و بربریت کے وہ حربے استعمال کئے جا رہے ہیں جن سے انسانیت شرما جا تی ہے۔مقبو ضہ وادی میں قا بض فورسز نے خواتین کے بال کاٹنے جیسے انسانیت سوز مظالم سے کشمیریوں کی تحریک کو دبانے کی ناکام کوشش شروع کر دی ہے مگر ہندوستانی قابض فورسز کسی طرح بھی جذبہ آزادی کو دبانے میں کا میا ب نہیں ہو سکتیں۔
مقبوضہ کشمیر میں آئے روزقتل وغارت گری بھارتی حکومت کی کھلم کھلا دہشت گردی ہے۔ بھارت کے زیر قبضہ جموں وکشمیرمیں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں نے ہزاروں کشمیریوں کو دوران حراست لاپتہ کیا ہے۔ بھارتی فوجیوں کوکالے قوانین آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ، ڈسٹربڈ ایریا ایکٹ، پبلک سیفٹی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون کے تحت استثنی حاصل ہے جس کی وجہ سے ان کو کسی بھی شخص کو قتل، گرفتار اورہراساں کرنے اور املاک کو تباہ کرنے کا لائسنس حاصل ہے۔اس مظلوم خطہ میں بے شمار لوگوں کی زندگیاں ویران ہو چکی ہیں۔ بھارتی حکومت کی دہشت گردی عالمی اداروں کے منہ پر کھلا طمانچہ ہے کہ وہ انسانی حقوق کے دعوی دار بھارت کی مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی اور بندوق کے زور پر کشمیریوں کو غلام رکھنے کا نوٹس لیں۔ ایک لاکھ سے زاہد کشمیری شہید، ہزاروں کی تعداد میں معذور، لاتعداد خواتین کی آبرو ریزی اور بہت بڑی تعداد میں خواتین کے سہاگ اجا ڑ دیے گئے اور معصوم بچوں کو یتیم کر دیا گیا مگر نہ ہی بھارت کا ظلم و ستم سے ہاتھ رک رہا ہے اور نہ ہی کشمیریوں کی اس تحریک میں کمی آ رہی ہے عالمی اداروں اور بالخصوص اقوام متحدہ کا کردار انتہائی مایوس کن ہے۔ آج جہاں آزاد حکومت کا یوم تاسیس ہے وہاں اقوام متحدہ کا عالمی دن بھی ہے۔ یہ دن 1945 میں اقوام متحدہ کے منشور کے نافذالعمل ہونے کی سالگرہ کی یاد تازہ کرنے کے لیے منایا جاتا ہے۔جس کا مقصد دنیا بھر کے لوگوں کو اقوام متحدہ کے مقاصد اور کارناموں سے متعارف کروانا ہے مگر افسوس صد افسوس مقبوضہ کشمیرمیں اب تک رونما ہونے والے انسانی المیے کی واحد وجہ اقوام متحدہ ہی ہے کہ وہ اب تک اپنی ہی متفقہ منظور کی گئی قراردادوں پر عملدرآمد کروانے میں ناکام رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے کشمیریوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیے جانے کے باوجود ابھی تک بھارت کو مجبور نہیں کیا جاسکا کہ وہ کشمیر میں استصواب رائے کروائے۔ اگر اقوام متحدہ کا ادارہ اپنا کردار احسن طریقے سے ادا کررہا ہوتاتو آج دنیا میں جنگ و جدل کا بازار یوں نہ گرم ہوتا۔ امریکا نے جس ملک پر بھی چڑھائی کی، اس کے لیے اخلاقی جواز اقوام متحدہ نے ہی مہیا کیا۔ اسی طرح کمزور ممالک یا فریق کو ایک مرتبہ بھی اقوام متحدہ نے کوئی مدد فراہم نہیں کی۔ اسرائیل کا فلسطین پر اور بھارت کا کشمیر پر قبضہ، ایسے ہی معاملات ہیں جو نصف صدی سے زاید سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پر حل طلب موجود ہیں مگر اقوام متحدہ جیسا ادارہ انہیں حل کرنے کے بجائے مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتا ہے۔ آج اقوام متحدہ کے عالمی دن پر اگر کشمیر جیسے بنیادی اور اہم مسئلے کا حل کرنے کے لئے اقدامات نہ کئے گئے تو پھر اس ادارے کے قیام کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔

نجیب الغفور خان(جموں و کشمیر لبریشن سیل)
liberationcellajk@yahoo.com

واپس کریں