دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
بابائے پونچھ کرنل خان محمد خان
نجیب الغفور خان
نجیب الغفور خان
نجیب الغفور خان (جموں و کشمیر لبریشن کمیشن)

خطہ سدھنوتی(پونچھ) میں سیاسی جذبہ اور احساس ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں موجود رہا ہے۔ اس خطے کے لوگ ہمیشہ جانی و مالی قربانی دیتے رہے ہیں۔ اس کا منظم و عملی مظاہرہ 1832-36 کے دوران سردار شمس خان ، سردار سبز علی خان اور سردار ملی خان جیسے عظیم حریت پسند وں کی قیادت میں اپنی کھالیں کھینچوا اور گردنیں کٹوا کر کیا۔ یہ ولولہ آزادی سکھوں کی صوبہ سرحد میں 1832 کے دوران شکستوں سے پیدا ہواتھا۔ رنجیت سنگھ نے صوبہ سرحد میں مہمات ملتوی کر کے علاقہ پونچھ میں شورش کو فوری دبانے کاحکم دیا۔ گلاب سنگھ ایک بڑے لشکر کے ساتھ پونچھ پر حملہ آور ہوا اور دو اہم مراکز منگ اور پلندری کو اپنی یلغار کا ہدف بنایااور بے گناہ عوام کا بے دریغ قتل عام کیا۔ ڈوگرہ شاہی کا دور پونچھ کی عوام کے لئے زیادہ مصیبت اور مفلسی کا دور تھا بالخصوص سدھن قبیلے کے لئے، کیونکہ یہی وہ قبیلہ تھا جس نے ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ سے ٹکر لی تھی۔یہ دور پونچھ کا وہ دور تھا جس میں اہل پونچھ اپنی زندگیوں کو جبر وتشدد،ظلم و افلاس میں گزارنے پر مجبور تھے کہ اللہ نے ان کے درمیاں مرد حق ومجاہد خان محمد خان کی شکل میں پیدا کیا۔جن کی طویل جدوجہد کے بعد 1947ء میں کشمیر کا یہ خطہ آزادی سے ہمکنار ہوا۔ بابائے پونچھ کرنل خان محمد خان المعروف خان صاحب 1882 ء میں چھے چھن ضلع سدھنوتی میں پیدا ہوئے۔آپ تعلیم کے بعد برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے اورپھریٹائرڈ ہونے بعدساری زندگی سیاسی وسماجی خدمت اور فلاحی واصلاحی تحریکوں میں گزری۔خان صاحب 1932 میں کشمیر اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور1946 ء تک کئی بار رکن اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔دوسری جنگ عظیم میں انکی مثالی کارکردگی کی بنیاد پر برطانوی حکومت نے انہیں''خان صاحب''کے خطاب سے نوازا1932 ء میںسماجی تنظیم سدھن ایجوکیشنل کانفرنس کی بنیادرکھی ،جسکا مقصد ریاست میں اعلیٰ تعلیم کا فروغ اور اصلاح معاشرہ تھا۔وہ ایک نیک،جہاندیدہ عمل کو کردار کے پیکر اور عبادت گزار شخصیت تھے۔خان صاحب کی جائے پیدائش چھے چھن گائوںہے جو آج کل خان صاحب کے نام سے منسوب ہے اورنیا نام خان آباد ہے۔ جو دریائے جہلم کے کنارے آزاد پتن سے تقریبا دس میل کے فاصلے پر ہے۔ خان صاحب کا خاندان لکڑی کی تجارت کرتا تھا۔ ڈوگرہ راج کے قیام کے دوران اہل پونچھ سدھنوتی کا خون بے دریغ بہایا گیا تھا۔
خان صاحب نے اپنی عوامی زندگی کا آغاز سماجی و معاشرتی اصلاح اور عوام کی فلاح و بہبودکے پروگرام کی ترتیب سے کیا۔آٹا فی گھر سے بطور فنڈ جمع کرنے کی تحریک شروع کی اور پلندری میں تعلیم القران کے نام سے ایک دارلعلوم کی بنیاد رکھی۔ تعلیمی پسماندگی دورکرنے کے لئے انہوں نے سدھن ایجوکیشن کانفرنس کا قیام بھی عمل میں لایا۔ جس کے پلیٹ فارم سے انہوں نے جدوجہد شروع کی اور معاشرے میں رائج فضول رسومات مقدمہ بازی، چائے ، تمباکوکے فضول اخراجات کے خا تمے کیلئے سخت جدوجہد کی۔ ڈوگروں کے خلا ف جنگ کرنے اور ملک کو آزادکرانے کے لئے خان صاحب نے پلندری کے مقام پر اعلیٰ آفیسران پر مشتمل ایک وار کونسل قائم کی۔ جس کے وہ خود نگران تھے اور صدر شیر احمد خان تھے۔ وار کونسل کاکام تما م جنگی محازوں کا کنٹرول حاصل کرنا، فوجیوں کو منظم کرنا، محاذوں پر بھیجنا اور جنگی سامان پہنچانا تھا۔تحریک آزادی کے عظیم رہنماء بابائے پونچھ کرنل خان محمد خان نے کئی مرتبہ کوٹلی اورراجوری کا سفر کیا۔اوراکثر جگہوں پر دشمن پر حملے کے وقت موجود رہتے۔ جنگی خدمات کے صلہ میں خان صاحب کو کرنل کا خطاب دیا گیااور غازی کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ خان صاحب نے تعلیمی ، عسکری محاذوں پر خدمات انجام دینے کے بعد 1934 میں جموں و کشمیر قانون ساز اسمبلی میں بھی عوام کی بھر پور نمائیدگی کی۔ خان صاحب غیر معمولی سیاسی بصیرت کے مالک تھے۔ڈوگرہ راج ختم کرانے ،آزاد کشمیر کے علاقہ کو آزاد کرانے اور آزاد کشمیر کی حکومت قائم کرانے میں ان کا کردار اہم تھا۔
24اکتوبر1947ء کو جب آزاد کشمیر کی حکومت سر زمین پلندری میں قا ئم ہوئی تو خان صاحب ان دنوں جہاد کشمیر میں مصروف عمل تھے ۔اس عظیم جدوجہد میں خان صاحب کے کردار اور قربانیوں کے صلہ میں 1947ء میں فتح و کامیابی ملی۔اس جنگ میں سدھنوتی کے بہادر لوگوں نے آزاد کشمیر کا بیشتر علاقہ فتح کیا۔اتنے بڑے دشمن کو شکست فاش دینے میں بابا ئے قوم کرنل خان محمد خان کی محنت اور راہنمائی کا بہت بڑا عمل دخل تھا اورتحریک آزادی کو مرتب کرنے میں ان کے کا رہائے نمایاں سر فہرست ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ جنگ آزادی کا آغاز 1832-36کے پر آشو ب دور سے ہی ہو چکاتھا۔جب سدھنو تی کے سرداروںنے ڈوگرہ حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔جس کے نتیجہ میں 40ہزار کی آبادی میں سے15ہزار افرادنے جام شہادت نو ش کیا۔سدھنوتی کے لوگ پسماندہ مگر بہادر،محنتی اور جفا کش تھے۔ صدی کے آغاز سے ہی لوگ انڈین آرمی میں بھرتی ہو نا شروع ہو گئے تھے۔تحصیل سدھنوتی میں جنگ آزادی کا آغاز12اکتوبر کو لچھن پتن جس کاموجودہ نام آزاد پتن ہے سے ہوا۔ جہاں کیپٹن حسین خان شہید کے زیر ہدایت راجہ سخی دلیر اور ان کے ساتھیوں نے اس وقت ڈوگرہ فو جوں پر فا ئر کھولا ۔جب وہ پٹرول چھڑک کر پل نذر آتش کر رہے تھے۔راجہ سخی دلیر اور ان کی پا رٹی کی فا ئرنگ سے پل پر متعین ڈو گرہ فوج کا دستہ خوف زدہ ہو گیا اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ ان پر بڑا حملہ شروع ہو گیا ۔پلندری کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے وہ رات کو بد حواسی اور سخت گھبرا ہٹ کے عالم میں پلندری پہنچے اور وہاں کے ڈو گرہ کمانڈر کو حملے کی اطلاع دی آخرکار ڈو گرہ فوج کوپسپائی اختیار کرنی پڑی ۔
یہ خان صاحب کی کمال ذہانت، فہم و فراست اور دور اندیشی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اس خطے کے ہزاروں لوگوں کو برطانوی فوج میں بھرتی کروایا۔ ان لوگوں نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں نہ صرف حصہ لیا بلکہ بے پناہ عسکری صلاحیتوں او ر شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کیا۔ یہی وہ تربیت یافتہ لوگ تھے جنہوں نے 1947میں ڈوگرہ افواج کے ساتھ لڑ کر آزادکشمیر کا یہ خطہ آزادکروایا۔ خان صاحب کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ انہوں نے اس خطہ پونچھ کی دو مرتبہ جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی میں نمائندگی کی۔ اور جب 1947میں ڈوگرہ کے خلاف تحریک آزادی شروع ہوئی تو وہ پیرانہ سالی کے باوجود جنگ آزادی میں خود شریک ہوئے ۔
بابائے پونچھ11 نومبر 1961 ء کو انتقال فرماگئے۔ خان صاحب ہمیشہ لوگوں میں صلح جوئی، بھائی چارگی، محبت اور یگانگت کا درس دیتے رہے۔ و۔ ان کے کامیاب مہم سے خطے کے تمام نوجوان اور عمر رسیدہ لوگوں نے نسوار کا استعمال چھوڑ دیا۔ خان صاحب کرنل خان محمد خان جیسی شخصیات قوموں کی زندگی میں چراغ راہ کی حیثیت بھی رکھتی ہیں اور نشان منزل بھی ہوتی ہیں۔ خان صاحب سستی شہرت کے کبھی طالب نہ رہے۔ انہوں نے قومی خدمت اور ملی تگ و دو کے لیے سیاست کی بجائے علم اور اصلاحِ معاشرہ جیسے دشوار لیکن پائیدار شعبوں کا انتخاب کیا۔ پونچھ اور اہلِ پونچھ کی ترقی کے ہر میدان میں خان صاحب کی شخصیت کا اثر اولین محرک نظر آتا۔ انہوں نے تعلیم کی بنیادی اہمیت کا اندازہ کرتے ہوئے تعلیم کے فروغ کے لیے اپنی زندگی وقف کردی اور ایک ایسے متوازن اور موثر نظام تعلیم کی تشکیل کی جس کے مثبت اثرات پونچھ میں ہی نہیں بلکہ پورے آزاد کشمیر میں مینار نور بن کر روشن ہوئے۔ پونچھ کی ماضی قریب کی پُر آشوب تاریخ سے واقفیت کے بغیر نہ تو خان صاحب کی پُر عزم کاوشوں، بے لوث خدمات اور قابلِ صد ستائش کارناموں کا اندازہ لگایاجاسکتاہے اور نہ ہی ''آپ راجی اورڈوگرہ شاہی،، کے طویل دور میں عوام پر ظلم و استبداد کے ہولناک واقعات اور حالات سے آگاہی ہوسکتی ہے۔ خان صاحب نہ صرف آزادکشمیر بلکہ مملکت پاکستان کے ایک قومی اثاثہ تھے۔غرض خطہ پونچھ اور سدھنوتی کے عوام نے تحریک آزادی کشمیرمیں گراں قدر خدمات انجام دیں ۔ہر گھر سے کسی نہ کسی کو شہادت نصیب ہوئی ،بہادری اور طاقت کا عملی مظا ہرہ کیا۔جس کی بدولت خطہ کشمیر آزاد ہوا۔سدھنوتی میں جدوجہد آزادی کو منظم کرنے میں بابائے پونچھ خان محمد خان کا کردار نا قابل فراموش ہے۔انہوں نے قومی خدمت اور ملی تگ و دو کے لئے سیاست کے بجائے علم واصلاح معاشرہ جسے شعبوں کا انتخاب کیا۔پونچھ اور اہل کشمیر کی ترقی کے ہر میدان میں بابائے قوم کی شخصیت کا اثر اولین محرک نظر آرہا ہے۔اصلاح معاشرہ میں بھی بابائے قوم درد دل کے ساتھ مصروف رہے۔ان کی کوششوں سے لوگوں کو متعدد تباہ کن رسومات سے نجات ملی۔سیاسی میدان میں بھی خان صاحب نمایاں رہے۔بابائے پونچھ کی مختلف شعبہ ہائے جات میں خدمات کا احا طے کرنا مشکل کام ہے۔وہ ہرمیدان میں نمایاں رہے اوراب بھی بابائے پونچھ اپنے کردار اور کارناموں کی شکل میں کشمیر کا یہ آزاد خطہ ہمارے سامنے موجود ہے۔

واپس کریں