دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
13جولائی یوم شہدائے کشمیر
نجیب الغفور خان
نجیب الغفور خان
پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج یوم شہداء کشمیر بھرپور طریقے سے منایا جا رہا ہے۔ہر سال 13 جولائی کو دنیا بھر کے کشمیری ان شہداء کی یاد میں یوم شہداء کشمیر مناتے ہیں جنہوں نے ڈوگر کی طرف سے برسنے والی گولیوں کا راستہ اپنے سینے سے روکا، مگر اپنے عزم میں کوئی کمی نہ آنے دی۔ لیکن بدقسمتی سے بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کو شہید کرنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آج ہندوستان مقبوضہ جموں وکشمیر میں بدترین ریاستی دہشت گردی کر رہا ہے۔13 جولائی 1931 کا یہ واقعہ تحریک آزادی کشمیر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ کشمیری مسلمان گزشتہ دو صدیوں سے اپنی آزادی کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ ویسے تو ہر دن کشمیریوں کی قربانیوں سے بھرا ہے مگر 13جولائی 1931ء جموں وکشمیر کی تاریخ کا وہ غیر معمولی دن ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔یہ دن حقیقی معنوںمیںکشمیریوں کی تحریک آزادی کا نقطہ آغاز ہے۔ اس دن کشمیریوں کے اوپر چلنے والی گولی سے نہ صرف کشمیری مسلمانو ں میں بلکہ غیر مسلم کشمیریوں کے دلوں میں بھی ڈوگرہ حکمرانوں کے خلاف نفرت کا آغاز ہوا۔ وائسرائے ہند کشمیر گئے تو کشمیری مسلمانوں کے ایک نمائندہ وفد نے ان کے سامنے دس نکات پر مشتمل ایک قرارداد پیش کی۔ جس میں کشمیریوں کے بنیادی حقوق، ملازمتوں میں نمائندگی اور دیگر اہم نکات کوشامل کیا گیا۔وائسرائے نے ان مطالبات کا جائزہ لینے کے لئے ایک کمیٹی بنائی۔ مگر بد قسمتی سے کمیٹی کوئی بھی فیصلہ نہ کر سکی اور مہاراجہ پرتاب سنگھ نے اس قرارداد پر دستخط کر نے والے کشمیریوں کو سخت ترین سزائیں دیں اور ان کو ریاست بد ر کیا۔ 1927ء میں ہری سنگھ نے ریاست سے باہر رہنے والے مسلمانوں کو ریاست کے اندر منقولہ و غیر منقولہ جائیداد سے محروم کر دیا۔ جس کے نتیجے میں شیخ عبد العزیز جیسے مسلمان راہنمائوں نے کشمیریوں کے لئے ملازمتوں میں 50%کوٹہ کے لئے قرارداد پیش کی۔ مگر ہر ی سنگھ نے اس کو یکسر مسترد کر دیا۔ اس کے بعد 11ستمبر1930ء کو شیخ عبد اللہ اور سرینگر کا لج کے 12طلباء نے مہاراجہ ہر ی سنگھ کو جو قرارداد پیش کی28جنوری1931ء کو اسکا انتہائی غیر تسلی بخش جواب دیا گیا۔ جس کی وجہ سے ریاست کے اند راور بالخصوص تعلیم یافتہ طبقے میں مہاراجہ کے خلاف نفرت کا سمندر اٹھ گیا۔ اس زمانے میں ایک غیر سیاسی تنظیم مسلم ایسوسی ایشن کے نام سے قائم ہوئی جس نے مسلمانوں کے مطالبات کے حل کے لئے با ضابطہ جدوجہد کا آغاز کیا مگر اس کے ساتھ ہی ایک ایساواقعہ ہوا جس نے مسلمانوں کے جذبات کو ابھار کر رکھ دیا ۔ یہ واقعہ پولیس کی طرف سے مسلمانوں کو عید کی نماز کی اجازت نہ دینے سے شروع ہوا اور ساتھ ہی قرآن پاک کی بے حرمتی کا واقعہ بھی سامنے آیا۔ جس پر مسلمانوں کا رد عمل شدید ہو گیا اور انہوں نے احتجاج کرنا شروع کیا۔ جس پر حکومت نے ان کے اکٹھا ہونے پر پابندی عائد کر دی۔ 12جون کو مسلمانوں کاجامع مسجد خانقاء میں ایک اجتماع ہوا۔ جس میں عبد القدیر نامی نوجوان نے بڑی جوشیلی تقریر کی اور اعلان کیا کہ ہم ڈوگرہ کی ان پابندیوں کو کسی صورت نہیں مانیں گے۔ اس نوجوان کی جوشیلی تقریر کے بعد مسلمانوں میںمذید حوصلہ پیدا ہوا۔ مگر25جون کو حکومت نے عبد القدیر کو گرفتار رکر دیا۔ جس کے بعد مسلمانوں کے اندر مہاراجہ کیخلاف غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔ مسلمانوں نے ایک ریلی نکالی اور مہاراجہ کے خلاف نعرے اور تحریک آزادی کے حق میں تقاریر کیں۔ جس کی وجہ سے مہاراجہ کو خطرات محسوس ہو نے لگے۔ وہ ہر حال میں مسلمانوں کی اس تحریک کو دبانا چاہتا تھا۔ ادھر مسلمانوں کے جذبات میں روز بروز شدت آ رہی تھی۔ اور ان کے اندر ایک نیا عزم ، ولولہ اور حوصلہ جنم لے رہا تھا۔ مسلمانوں نے مہاراجہ کے مظالم کے سامنے ڈٹ جانے کا عزم کیا ہوا تھا۔ 13 جولائی 1931 کو صبح سویرے سینکڑوں مسلمان سینٹرل جیل سری نگر کے باہر جمع ہو گئے۔ سنٹرل جیل سرینگر کے باہر نہتے کشمیری اور مسلح ڈوگرہ سپاہی آمنے سامنے تھے۔ اس دوران مسلمانوں نے نماز کیلئے صف بندی شروع کر دی تو اذان کیلئے ایک نوجوان نے دیوار پر چڑھ کر اذان دینا شروع کی۔ ابھی پہلا جملہ اللہ اکبر ہی کہا تھا کہ پولیس نے اسے گولی مار کر شہید کر دیا۔ فوراً دوسرے جوان نے اس کی جگہ لی اور دوسرا جملہ مکمل کیا۔ اسے بھی گولی مار کر شہید کر دیا گیا۔ یوں اذان کے ہر جملے پر ایک جوان اپنی جوانی قربان کرتا فدیہ راہ خدا ہوا۔ یوں 2 2 نوجوان اذان مکمل کر کے حیات جاوداںپا گئے۔ غالباً یہ دنیا کی واحد اذان ہے جس میں اللہ کا کا نام پکارتے ہوئے22 موذن جان قربان کر بیٹھے۔ 13 جولائی کا واقعہ تحریک آزادی کشمیر میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس واقعہ کو تحریک آزادی کشمیر کا نقطہ آغاز بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس واقعہ کے بعد اس میں نئی جان اور نئی روح پیدا ہو گئی تھی۔ یہ نئے عزم ولولے کے ساتھ اٹھی تھی۔ اب یہ تحریک آؤ افغان اور نالہ و فریاد کے دور سے نکل کر سرفروش اور سربکف ہو گئی تھی۔یہ حقیقت ہے کہ کسی بھی ظالمانہ اور جابرانہ نظام سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اور عزت و آزادی کی صبح بہاراں کا منظر دیکھنے کے لیے لہو کے نذرانے دینا پڑتے ہیں اور سروں کی فصل کٹانا پڑتی ہے ۔ وطن اور قوم کی خاطر دی گئی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ 13جولائی 1931 جموں و کشمیر کی تحریک آزادی کا وہ دن ہے جب خطہ کشمیر کی جدوجہد آزادی ایک منظم تحریک کی شکل اختیار کر گئی اور آج مقبوضہ جموں و کشمیر کے مجاہدین اور غازی اپنے مقدس لہو سے اس خونی تاریخ کا ایک اور باب رقم کر رہے ہیں۔ ریاستی دہشت گردی کے باوجود بھارت کشمیریوں کی آواز کو دبانے میں مسلسل ناکام رہا ہے، ایک لاکھ کشمیری شہدا کا خون تحریک آزادی کشمیر کے زندہ ہونے کی دلیل ہے۔یوم شہدائے کشمیر 9دہائیوںسے ہر سال 13 جولائی کو منایا جاتا ہے۔یہ تاریخی دن کشمیر اور پاکستان کے عوام اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری اور پاکستانی مناتے ہیں۔13جولائی کی قربانیوں کی داستان آج تک کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو تازہ رکھے ہوئے ہے۔ یہی واقعہ دراصل تحریک آزادی کی بنیاد بنااوریہی وہ ناقابل فراموش دن ہے جب کشمیریوں نے عہد کیا کہ وہ ہر قیمت پر آزادی حاصل کر کے رہیں گے۔13جولائی کے اس سفاکانہ واقعہ کے بعد بھی 9 دہائیوں سے کشمیری عوام ہندو راشٹرا کے ریاستی جبر و ستم کا شکار رہے مگر ہمت نہیں ہاری۔ہر سال 13جولائی کو دنیا بھر میں شہدائے کشمیر کو زبردست طریقے سے خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔کشمیری اس عزم کا اعادہ بھی کرتے ہیں کہ وہ ہندوستانی جبر و استبداد سے آزادی حاصل کر کے رہیں گے۔ 13جولائی کا دن بلاشبہ کشمیریوں کے عزم و حوصلے اور جدوجہد کا نشان ہے۔5اگست2019کے بعد سے کشمیریوں کا بے جاقتل،جعلی مقابلے، گرفتاریاں اور گھروں پر چھاپے روز کامعمول بن چکے ہیں۔5 اگست 2019 کے بھارتی غیر قانونی اقدام کو نہ کشمیریوں نے تسلیم کیا ہے اور نہ ہی دنیا نے تسلیم کیا ہے۔2019 میں مودی سرکار نے مقبوضہ جموں کشمیر میں یوم شہدا کی تعطیل ختم کرنے کا اعلان کر کے کشمیریوں کی تاریخ کی توہین کی اور بھارتی حکومت نے 26 اکتوبر کو نام نہاد'یومِ الحاق'کے موقع پر سرکاری تعطیل منانے کا اعلان کیا گیا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ مقبوضہ وادی میں بھارتی ریاست سے نفرت بڑھ رہی ہے۔اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیری اپنے حق کیلئے جائز جدوجہد کر رہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر پر 10لاکھ بھارتی فوجی مسلط ہیں۔ہندوستان متنازعہ علاقے کو مسلم اکثریتی ریاست سے ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنے پر تُلا ہوا ہے۔جو جنیوا کنونشن4کے آرٹیکل 49کی خلاف ورزی ہے۔ اس تنازعے کے باعث آج مقبوضہ جموں و کشمیر میں ایک سنگین انسانی بحران ہے جس کا کوئی عالمی برادری نے ہی لینا ہے۔ان تمام تر اوچھے ہتھکنڈوں کے باوجود بھی بھارت کشمیریوں کی شناخت اور تاریخ مسخ کرنے میں ہمیشہ ناکام رہا ہے۔ بھارت دُنیا کا سب سے بڑا د ہشتگرد ملک ہے جو کشمیری قوم کی آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لئے ہر حربہ استعمال کر رہا ہے لیکن ہر با ر اسے ناکامی کا سامنا رہا۔بھارت کی کشمیریوں کے ساتھ دھوکا دہی کی لمبی اور شرمناک تاریخ ہے13.-جولائی کی قربانیوں کی داستان جذبہ آزادی کو تازہ رکھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔یہی وہ ناقابل فراموش دن ہے جب کشمیریوں نے حریت کے ایک نئے باب کو رقم کیا اور عہد کیا کہ کشمیری ہر قیمت پر آزادی حاصل کر کے رہیں گے۔ا س واقعہ کے بعد مسلمانوں کے جذبات مذید بلند ہوئے اور کشمیری مسلمانوں نے مہاراجہ سے آزادی کے لئے باقاعدہ جد وجہد کا آغاز کر دیا۔ یہی واقعہ دراصل تحریک آزادی کی بنیاد بنا۔ہر سال 13جولائی کو کشمیری دنیا بھر میں مختلف پروگراموں کے ذریعے شہدائے کشمیر کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیشکرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ ہندوستانی جبر و استبداد سے آزادی حاصلکر کے رہیں گے۔ جموں و کشمیر لبریشن کمیشن نے اس دن کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے مختلف پروگرامات کا انعقاد کر رکھا ہے جبکہ جموں و کشمیر لبریشن کمیشن میڈیا ونگ کی ظرف سے 13جولائی کے حوالے سے سوشل میڈیا پر خصوصی کیمپین بھی چلائی جارہی ہے۔

نجیب الغفور خان (انچارج ڈیجیٹل میڈیا جموں و کشمیر لبریشن سیل)

واپس کریں