دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مادر جمہوریت کی دعوے دار 'فاشسٹ ریاست بھارت
انجینئر حمزہ محبوب۔  نوائے سروش
انجینئر حمزہ محبوب۔ نوائے سروش
نوائے سروش l انجینئر حمزہ محبوب
لاطینی زبان سے اخذ کردہ لفظ ڈیموکریسی یعنی 'جمہوریت ' اپنے مفہوم کے اعتبار سے 'عوام کی طاقت' کے معنی رکھتا ہے۔ سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کے مطابق جمہوریت سے مراد ایک ایسا نظام مملکت ہے جو کہ' عوام کی حکومت'، 'عوامی حکومت'اور 'عوام کے لیے حکومت' کے اصولوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یعنی یہ ایک ایسا نظام حکومت ہے جہاں عوامی امنگوں اور رائے کی روشنی میں حکومت تشکیل پاتی ہے اور عوامی حقوق کے تحفظ کا اختیار عوام کے ہی منتخب کردہ نمائندوں کے سپرد کیا جاتا ہے ،تا کہ وہ رنگ، نسل ، مذہب اور سیاسی تقسیم سے بالاتر ہو کر عوامی امنگوں کے مطابق بلا امتیاز اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں جمہوری نظام حکومت رائج ہے لیکن بھارت دنیا کی سب سے 'بڑی جمہوری ریاست' ہونے کا دعوے دار ہے اور اس سلسلہ میں' 26 جنوری' کے دن کواپنے یوم جمہوریہ کے طور پر مناتا ہے۔ دعووں کے برعکس تقسیم ہند سے لے کر اب تک اور خاص بالخاص 2014 سے بھارت کی جانب سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ایسے اقدامات کیے جا چکے ہیں کہ جن سے نہ صرف جمہوری اقدار کو طے و بالا کیا گیا بلکہ بنیادی انسانی حقوق، مذہبی، شخصی، سیاسی اور سماجی آزادی کو بھی نیست و نابود کر دیا گیا۔ انہی اقدامات کے نتیجہ میں مختلف بین الاقوامی حلقوں سےایسی بارہا آوازیں اٹھ رہی ہیں جو کہ اس دعوے کی تائید کرتی ہیں کہ سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کی داغ بیل درحقیقت نظریہ ہندوتوا کی نمائندگی کرتے مسلح گروو یعنی بھارتہ اجنتہ پارٹی اور آر ایس ایس کے ہاتھوں میں ہے ،جو سیاسی، مذہبی ، سماجی اور ہندو ازم کی پرچار کے ساتھ ایک ایسی ریاست کے قیام کی راہ پر گامزن ہیں کہ وہ دن دور نہیں کہ جب نام نہاد جمہوریہ بھارت فاشسٹ ریاستوں کی مادر کا درجہ حاصل کر لے گا۔

علوم سیاسیات کے مطابق فاشزم ایک ایسا نظام حکومت ہے جو کہ کہنے کو جمہوری ہی کہلاتا ہے مگر اس میں اقدامات اور طرز عمل آمرانہ ہی ہوتے ہے۔ قومیت پرستی کی انتہا اس نظام کی معراج ہوتی ہے۔ جس کی مثال بیسویں صدی میں اٹلی کے موسیلینی کے ہاتھوں نیشنل فاشسٹ پارٹی کے قیام کی صورت میں موجودہے، جس نے عوامی دباو کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسی حکومت تشکیل دی کہ جس سے ایک پارٹی سسٹم کو رائج کیا گیااور بعد ازاں پروپیگینڈا ، قومیت پرستی اور عوامی ذہن سازی کر کے فاشسٹ ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بھارت میں بھی ہندوازم کے پرچار کی غرض سے متحرک بی جے پی اور مودی سرکار کے اقلیتوں کے خلاف اقدامات، ہندی کی بطور زبان زبردستی نفاذ کے عزائم، مسلمانوں کے خلاف اقدامات، سی اے اے2019 کے قانون،' ریاست کشمیر میں 5 اگست 2019 کے انتہائی غیر جمہوری اقدامات' اور' ہندوستان صرف ہندووں کا 'جیسے اقدامات اور بیانات سے اب یہ بات عیاں ہے کہ بھارت جمہوری اقدار سے کوسوں دور فاشسٹ ریاست بننے کی ڈگر پر ہے۔ سیاسیات کی اصطلاحات و مفہوم کے جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت،ہندوتوا پالیسی، مودتوا طرز عمل اور حکمران جماعت کا منشور 'فاشزم 'اور 'فاشسٹ طرز حکومت' کو نہ صرف اپنا بخوبی چکی ہے بلکہ تیزی سے اپنے دہائیوں کے سیکولر ریاست ہونے کےنام نہاد دعوے اور عمومی تاثر کوبھی پس پشت ڈال چکی ہے۔

سال 2014 سے لیکر اب تک کے غیر جمہوری اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت میں ماسوائے ہندووں کے کوئی مذہب، انسان یا معاملہ ایسا نہیں جو کہ فاشسٹ حکمران یعنی نریندرا مودی کے ہندوتوا اقدامات سے محفوظ رہا ہو۔ بھارت میں بدنام ذمانہ ' سیٹیزن امیڈمنڈایکٹ 2019' کا اجرا کیا گیا جہاں اقلیتوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے دستاویزات فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی۔ یاد رہے کہ اس ایکٹ سے تمام اقلیتوں اور خاص بالخاص مسلمانوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان مرتب کرتے ہوئے اپنی شناخت ثابت کرنے کے لیے دستاویزات کی تلاش اور ریاست سے وفاداری کے ثبوت دینے کیا پابند کیا گیا ہے جو کہ دہائیوں سے آباد شہریوں کے لیے نہ صرف آزمائش بلکہ دکھ اور حذیمت کا باعث بھی ہے۔ یاد رہے بھارت میں مسلمان کل آبادی کا تقریبا 15 فیصد ، عیسائی لگ بھگ 2.4 فیصد اور دیگر 2 فیصد ہیں جو کہ تقریبا کل آبادی کا کم و بیش 20 فیصد بنتے ہیں۔ گویا بھارت کےہندو راج کے پیش نظر اس غیر جمہوری ایکٹ نے بنیادی شہری حقوق کی پامالی کی صور ت میں تمام اقلیتوں کے دوسرے درجے کے شہری کے طور پر لا کھٹرا کیا ہے جو کہ 'ہندوستان صرف ہندووں' کے نعرے کی واضع توسیق ہے۔

قصہ یہیں تمام نہیں ہوتا بلکہ بھارتی شہریت یافتہ مسلمانوں کو محض الزامات یا شکوک و شبہات کی بنیاد پر بھی ریاستی جبر کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ماضی قریب میں غیر قانونی تعمیر کو جوازیت بنا کر انتظامیہ کی جانب سے بلڈوزرز سے مسلمانوں کی تعمیرات اور گھروں کو مسمار کیا گیا ہے۔گزشتہ برس جب ہندوؤں کے تہوار رام نومی کے موقع پر کئی ریاستوں میں ہندو مسلم فسادات بھڑک اٹھے، تو دہلی اور ریاست مدھیہ پردیش سمیت کئی مقامات پر مسلمانوں کے مکانات کو منہدم کر دیا گیا۔ ریاستی مشینری کا محض اقلیتوں کے خلاف استعمال بھارت کے نام نہاد جمہوری دعوے پر بدنما داغ بن چکا ہے۔مزید برآں گزشتہ برس بھارتی ریاست کرناٹک میں حجاب پر پابندی عائد کی گئی جس کے نتیجہ میں طالبہ کا احتجاج سوشل میڈیا اور عالمی توجہ کا مرکز رہا۔ بی بی سی میں شائع ہونے والی رپورٹ میں حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشل کے سابق سربراہ آکار پٹیل حجاب پر پابندی کو ہندوتوا کے ایک وسیع ایجنڈے کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔وہ کہتے ہیں ’سنہ 2014 کے بعد سے انڈیا نے مسلمانوں پر دھاوا بول دیا ہے۔ یہ جو کرناٹک میں آج ہو رہا ہے یہ صرف اس سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ٗ
ستم بالائے ستم یہ کہ اب ہندوازم کے فروغ کے لیے ہندی کی نصاب میں شمولیت اور نفاذ کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں خواہ وہ سنسکرت کے خاتمے کی صورت میں ہو یا اردو اور کشمیری کے متبادل کے طور پر۔

مذہبی انتشار کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ برسوں میں تمام اقلیتوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی اور آزادی کے شدید خطرات لاحق ہیں۔ گزشتہ برس بی جے پی کی رہنما نور پور شرما کی جانب سے توہین مذہب اور اس کے بعد کے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ توہین رسالت کی صورت میں مسلمانوں کے جذبات کو ہوا دی گئی اور بعد ازاں احتجاج کرنے پر مسلمانوں کو ہی سزائیں دی گئی۔ جس کی مثال آفرین فاطمہ کے گھر کی مسماری تھا ۔بھارتی صحافی و تجزیہ نگار ساکسی جوشی نے بھی اپنے تجزیہ دیتے ہوئے بیان کیا کہ اس طرح کے اقدامات کو مقصد نہ صرف اقلیتوں کو دبانا ہے بلکہ ووٹ بنک کی غرض سے اکثریتی ہندووں کو بھی خوش کرنا ہے۔ ہندو ازم کی پرچار کے معاملہ کو پرکھا جائے تو پولیس اور ہندووں کی جانب سے زبردستی مسلمانوں کو جے شری رام کے نعرے لگانے کی ویڈیوز وقتا فوقتا سامنے آتی رہی ہیں۔ یہی نہیں بلکہ مسلمان ریہڑی بانوں کوبھی بارہا تشدد کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کو جہادی کے نام سے بھی نشانہ بنانا معمول رہا ہے۔متعصبانہ ہندو راج کی عکس کشی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ 1947 سے لیکر اب تک پہلی بار کسی ایک ریاست کا وزیر اعلی بھی مسلمان نہیں۔

بھارت کے اندر کے واقعات کے جائزہ کے بعد جموں کشمیر پر غیر قانونی قبضہ کی داستان اور غیر جمہوری رویہ اور اقدامات کہ فہرست طویل ہے تاہم جستہ جستہ جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اول بھارت نے مقبوضہ کشمیرکے باشندوں کو تقسیم ہند کے بعد سے اب تک اقوام متحدہ کی تفویض حق رائے دہی سے محروم رکھ کر غیر جمہوی اور غیر آئینی رویہ روا رکھ کر ریاست پر ناجائز تسلط اور قبضہ برقرار رکھا ہے۔ جس کے ردعمل میں لاکھوں کشمیری اپنی جان آزادی کی راہ میں قربان کر چکے ہیں۔ مقبوضہ وادی جموں کشمیر میں اپنے غیر قانونی تسلط کو برقرار رکھنے کے لیے 1947 سے اب تک دلی سرکار کی جانب سے بارہا کھٹ پتلی حکمرانوں کو مسلط کیا گیا ۔ خواہ وہ 1951 کی نام نہاد اسمبلی کا قیام ہو یا 1957 میں بھارتی منظور نظر بخشی کے زیر اثر دھاندلی زدہ انتخابات، 1962 کے متنازعہ انتخابات ہوں یا جی ایم صادق کا دور، 1977 کا گورنر راج ہو یا 1983 کے بدامن انتخابات، 1986 کا گورنر راج ہو یاصدارتی راج، 1987 میں غیر آئینی طور پر فاروق عبداللہ کو وزارت اعلی کی تفویض ہو یا 1989 کا گورنر راج، 19 جولائی سے اکتوبر 1996 تک کا صدارتی راج ہو یا 2002 کے انتخابات؛ ریاست جموں و کشمیر میں بھارتی غیر جمہوری اقدامات کی کالک تاریخ کے اوراق میں سیاہ ابواب کی صورت میں موجود ہے۔

5 اگست 2019 کو اقوام متحدہ کے تفویض کردہ ، مہاراجہ ہری سنگھ کے معاہدہ الحاق کی روشنی میں قائم ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے ریاست کے مستقبل پر سوالیہ نشان مرتب کر دیے ہیں۔ یادرہے، اس خصوصی حیثیت سے مراد آرٹیکل 370 اور 35 اے کا خاتمہ ہے کہ جس کے وجود سے ریاست میں کسی غیر ریاستی فرد کو ذمین خریدنے اور نوکری حاصل کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ بھارت کے اس غیر آئینی اقدام کا مقصدمقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کی فلسطین میں آباد کاری کے طرز پر ہندووں کی آبادکاری کا منصوبہ ہے کہ جس سے وادی میں مسلمانوں کی آبادی کے تناسب کو تبدیل کر کےاقوام متحدہ کی قراردار کی شکل میں موجود ممکنہ حق رائے دہی کو اپنے حق میں کرنا شامل ہے کہ جس سے کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ ہونا ہے۔ 5 اگست سے ایک دن قبل ہی ریاست کشمیر میں تمام سیاسی رہنماوں کو گرفتار کرتے ہوئے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں رکھا گیا یا نظر بند کر دیا گیا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 33 سیاسی رہنماوں کو ایک جگہ قید کیا گیا۔ اس دوران وادی میں مکمل طور پر کرفیو لگایا گیا اور سکول لگ بھگ سات ماہ تک بند رہے۔ تمام تر پابندیوں کے ہوتے ہوئے صحافیوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی کہ جس کے تحت بھارتی ریاست کے مفادات سے ٹکراو والی کسی بھی رپورٹ کی اشعات پر سزائیں دینے کا فیصلہ کیاگیا۔ انٹر نیٹ پر بھی پابندی لگا دی گئی۔گویا اس دن سے پابندیوں، ظلم اور کرفیو کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔

جمہوری ریاست کے دعوے دار بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے ایسے سیاہ قوانین ہیں کہ جن کے تحت 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد لگ بھگ 2300 ہیومن رائٹ ایکٹوسٹ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ صحافیوں کو بھی اس تعداد کے ساتھ ملا لیا جائے تو یہ تعداد 10000 بنتی ہے۔ مزید برآں دنیا کے سو بااثر افراد میں شامل ہیومن رائٹ ایکٹیوسٹ خرم پرویز کی قید، سیاسی جدوجہد میں مصروف عمل یسین ملک ، شبیر شاہ، عاصیہ اندرابی اور دیگر کئی رہنماووں کی قید بھارت کے کھوکھلے دعوے پر تماچے سے کم نہیں۔بھارت میں امت شاہ، نریندرا مودی جیسے حکمرانوں کے وجود، آر ایس ایس کی سیاسی جماعت کی حکمرانی، ہندو ازم کے فروغ ، اقلیتوں کی حقوق سلبی، حقوق انسانی کے کاکنان کو مقید کرنے، مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانے، مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم، ریاستی اسمبلی پر غیر آئینی دھاوں، کٹھ پتلی حکمرانوں کے چناو، پے درد پے گورنر و صدارتی راج کے بعد 5 اگست 2019 کے انتہائی ، یک طرفہ ، غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر انسانی اقدامات کے بعد حقائق اس امر کی تائید کرتے ہیں کہ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست تو نہ سہی البتہ جلد یا بدیر 'فاشسٹ ریاست' کی 'مادر' کا رتبہ حاصل کرلے گا اور بین الاقوامی سروے میں بھارت کی ڈیموکریسی انڈیکس میں واضع تنزلی اس روش کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
واپس کریں