دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
24 اکتوبر ، یوم تاسیس آزاد حکومت جموں و کشمیر
انجینئر حمزہ محبوب۔  نوائے سروش
انجینئر حمزہ محبوب۔ نوائے سروش
24 اکتوبر کا دن آزاد جموں و کشمیر کے یوم تاسیس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں اس دن کو پاکستان و ہندوستان کے مابین متنازعہ ریاست کشمیر کے ایک حصہ کی بھارتی قبضہ سے آزادی کے طور جانا جاتا ہے۔ تقسیم ہند کے فارمولہ کے طے پاتے ہی کشمیر کا تنازعہ کچھ انداز سے ابھرا کہ اس میں تاریخ کے تمام اہم کردار یعنی قائد اعظم، نہرو، ماونٹ بیٹن اور مہاراجہ ہری سنگھ شامل ہو گئے۔ معاملات اس نہج پر پہنچے کہ ریاست کے اس حصے کی آزادی کےچڑھتے سورج نے منافقت، سیاست ، معاہدوں اور چالبازیوں کی کئی تاریک راتیں دیکھیں۔ تاہم تمام تر واقعات کے بعد کشمیر کا یہ حصہ بالآخر 24 اکتوبر 1947 کو بھارت کے قبضہ سے آزاد ہوا جو اب آزاد جموں و کشمیر کہلاتا ہے۔یوم تاسیس سے متعصل روداد آزادی کو جانچنے کے لیے ریاست کشمیر کی تاریخی و سیاسی حیثیت، قیادت کے اہم کرداروں، تقسیم ہند کے طریقہ کار، باونڈری کمیشن کے قیام ،غیر منصفانہ تقسیم،ریاست کے ساتھ کی گئیں نا انصافیوں، اس ناانصافی کے نتیجہ میں جدوجہد آزادی، جدوجہد آزادی کے نتیجہ میں آزاد کشمیر کے حصول تک کے تمام اہم محرکات کو پرکھنا اور واقعات کا جائزہ لینا ناگزیر ہے۔

ہندوستان کی تقسیم سے قبل ریاست کشمیر کی باگ ڈور 1830 میں رنجیت سنگھ کی جانب سے گلاب سنگھ کو اس وقت تفویض کی گئی جب وہ رنجیت سنگھ کے زیر اثر منگلہ قلعہ میں اہم ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ اور تب ہی باضابطہ طور پر گلاب سنگھ کو کشمیر کا گورنر نامزد کیا گیا۔ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد اس کی بیوہ جندہ رانی اور انگریزوں کے درمیان جنگ ہوئی جس سے رنجیت سنگھ کے خاندان کی حکمرانی کا دور اختتام کو پہنچا اور ان کے زیر اثر کشمیرکا مستقبل بھی ایک سوالیہ نشان بن گیا۔ انگریز سرکار نے راوی اور چناب کے بیچوں بیچ اس وادی کی قیمت 75 لاکھ روپے لگائی جو گلاب سنگھ نے بطور تاوان ادا کر دی اور ریاست کا مختار کل بن گیا۔ یوں یہ دور کشمیر میں ڈوگرہ راج کے اس دور کا آغاز ثابت ہوا جو کہ 24 اکتوبر 1947 کو اختتام پذیر ہوا۔

تقسیم ہند کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیےتاج برطانیہ کی جانب سے جولائی 1947 میں ماونٹ بیٹن کی سربراہی میں باونڈری کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کمیشن کے تحت پاک و ہند کی تمام ریاستوں کو یہ حق حاصل ہوا کہ وہ نئی قائم کردہ ریاستوں یعنی پاکستان اور بھارت میں سے ایک کا انتخاب کریں۔ اس موقع پر ریاست کی باگ ڈور مہاراجہ ہری سنگھ کے ہاتھ میں تھی۔ تقسیم ہند کے فارمولہ کے تحت ریاست کشمیر کو بھی بھارت یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ اپنے الحاق کا تعین کرنا تھا۔ تاہم ریاست کشمیر کی صورتحال بھارت کی باقی ماندہ ریاستوں سے قدرے مختلف تھی۔ دراصل ریاست کا حکمران مہاراجہ ہری سنگھ غیر مسلم جب کہ آبادی مسلمان تھی۔ یعنی مہاراجہ کو اپنے اختیار کے استعمال اور کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے اپنی خواہش و مسلم آبادی کے رجحان دونوں کو ملحوظ خاطر رکھنا تھا۔

مذہبی یگانگت و جغرافیائی اعتبار سے کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق فطری تھا ۔تقسیم ہند کے ان ایام میں بھارت کی پوری کوشش تھی مہاراجہ کا جھکاو اپنی طرف کیا جائے ۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے بھارت و باونڈری کمیشن کے سربراہ ماونٹ بیٹن میں ساز باز جاری تھی۔ باونڈری کمیشن کی پہلی ناانصافی و بے ایمانی پنجاب کے ضلع گورداسپور اور پٹھان کوٹ کو بھارت میں ضم کرنےکی صورت میں سامنے آئی کہ جس سے کشمیر کا تعلق زبردستی بھارت سے قائم کر دیا گیا۔ یاد رہے گورداسپور وہ علاقہ تھا جو بھارت اور کشمیر کو آپس میں ملاتا تھا۔ یوں اس اقدام سے جغرافیائی طور پر بھارت سے الحاق کے لیے سازگار ماحول بنانے کی کوشش کی گئی۔

1947 میں ریاست جموں و کشمیر کی سیاسی نمائندگی چوہدری غلام عباس اور شیخ عبداللہ کر رہے تھے۔قبل ازیں ان دونوں رہنماوں نے سیاست کا آغاز1932 میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی تشکیل سے کیا۔ تاہم ان دونوں رہنماوں میں خلفشار اس وقت نمایاں ہوا کہ جب11 جون 1939 کے اجلاس میں مسلم کانفرنس کو نیشنل کانفرنس میں تبدیل کر دیا گیا۔ مسلم کانفرنس سے نیشنل کانفرنس تک کا یہ سفر در حقیقت دو مختلف نظریات کی عکاسی تھا، جو شیخ عبداللہ کی سیکولر اور چوہدری غلام عباس کی تحریک پاکستان پر کاربندی کی صورت میں موجود تھا۔ نیشنل کانفرنس کے قیام کے بعد چوہدری غلام عباس سیکولر سوچ و نظریے پر قدرے غیر مطمئن ہو گئے ۔ مئی 1940 کے نہر و کے دورہ کشمیر کے موقع پرنیشنل کانفرنس نے نہرو کو بھرپور استقبالیہ دیا تو چوہدری غلام عباس اور شیخ عبداللہ کے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے۔ یوں دونوں رہنماووں نے راہیں مکمل طور ہر جدا کر لیں ۔ 3 اپریل 1941 کو جموں میں سردار گوہر رحمان خان کی رہائش پر چوہدری غلام عباس کی صدارت میں مسلم کانفرنس کا قیام عمل میں لایا گیا۔

یوں تقسیم ہند کے ان اہم برسوں میں جموں کے چوہدری غلام عباس مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے عوام کی نمائندگی کر رہے تھے، جو پاکستان سے الحاق کی حامی جماعت تھے۔ تو دوسری جانب شیخ عبداللہ سیکولر نظریہ کے ساتھ پنڈت نہرو کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ریاست کی قانون ساز اسمبلی کے 2 جنوری 1947 کے انتخابات میں شیخ عبداللہ کی نیشنل کانفرنس نے حصہ نہیں لیا جبکہ مسلم کانفرنس نے کٹھن حالات کے باوجود 21 میں سے 16 نشستیں حاصل کر کے عوام کا اعتمادحاصل کیا۔ 3 جون 1947 کے تقسیم پلان کے فوری بعد یعنی 18 جولائی 1947 کو مسلم کانفرنس کے اجلاس میں قرارداد الحاق پاکستان پیش کی گئی۔ اس اجلاس کی صدارت قائم مقام صدر چوہدری حمید اللہ خا ن نے کی۔

ایک جانب بھارت نواز ماونٹ ییٹن کا کردار، نہرو کی چالیں و دباو، مسلم رہنما شیخ عبداللہ کا بھارت جانب جھکاو تو دوسری جانب کثیر مسلم آبادی کا وجود، مسلم کانفرنس کا الحاق پاکستان کا نظریہ اور جغرافیائی اعتبار سے پاکستان سے تعلق؛ ایسے محرکات تھے کہ جن کی وجہ سے مہاراجہ کو کسی بھی نتیجہ پر پہنچنے میں دشواری تھی۔ یوں مہاراجہ نے 12 اگست کو پاکستان اور ہندوستان کو معاہدہ قائمہ کی پیشکش کی کہ جس کے تحت یہ کوشش کی گئی کہ کسی فیصلہ تک پہنچنے تک ریاست کشمیر کو الحاق کے بجائے جوں کا توں رہنے دیا جائے۔ پاکستان نے اس معاہدہ پر 15 اگست پر رضامندی ظاہر کر دی اور معاہدہ پر دستخط کر دیے تاہم بھارت نے اس معاہدہ سے بھی انکار کر دیا۔

مہاراجہ ہری سنگھ درحقیقت کشمیری آبادی کی تمام امنگوں کے برخلاف بھارت سے الحاق کا خواہش مند تھا اور اس فیصلہ کے لیے موذوں وقت و حالات کا منتظر تھا۔ گورداسپور کے بھارت سے الحاق کے اقدام، نہرو ماونٹ بیٹن ساز باز، بھارت کے معاہدہ قائمہ پر رضا مندی ظاہر نہ کرنے سے ریاست کی مسلم اکثریتی آبادی میں بے چینی پیدا ہو گئی اور مظاہروں و جلسے جلوسوں گا آغاز ہو گیا۔ اس صورتجال میں مہاراجہ کو بغاوت کا خدشہ لاحق ہوا اور اسی خدشہ کے پیش نظرمہاراجہ نے مسلم کشمیریوں کہ جو انگریز فوج میں شامل تھے، ان تمام سے اسلحہ ضبط کرنا شروع کر دیا اور یہ اسلحہ مقامی ہندووں میں تقسیم کرنا شروع کر دیا۔ ڈوگرہ فوج سے تمام مسلم افسران کو تہ و بالا کر دیا گیا۔ پونچھ اور میرپور میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ ڈوگرہ سرکار کی جانب سے کریک ڈاون اور عوامی ردعمل کو دبانے کے اقدامات نہ تھمے۔ ان اقدامات سے بے چینی کو مزید ہوا ملی۔

اس تمام تر صورتحال میں 11 اگست 1947 کو جمعتہ الوداع کے موقع پر لوگ جلے جلوسوں کی صورت میں موجودہ آزاد کشمیر کے علاقہ راولاکوٹ میں جمع ہوئے اور پاکستان سے الحاق کا اعلان نہ ہونے کی صورت میں ریاست بزور بازو لینے کا عزم ظاہر کیا ۔23 اگست کو نیلہ بٹ کے مقام پر اسی قسم کا اجتماع منعقد ہوا کہ جس میں کشمیر کے حصول بزور بازو کا عزم دہرایا گیا۔ 26 اگست 1947 کو مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان نے دھیرکوٹ سے اپنی بھرپور مزاحمت کا آغاذ کیا۔ کریک ڈاؤن کے بعد عوامی ردعمل میں شدت آتی گئی اور پاکستان کی جانب سے قبائلی بھی کشمیری مسلمانوں کی حمایت کے لیے پہنچنا شروع ہو گئے۔ اس تمام تر صورتحال میں مہاراجہ ہری سنگھ فرار ہو گر دلی پہنچ گیا۔ جہاں اس نے ریاست پر اپنا اثر برقرار رکھنے کے لیے باضابطہ طورپر بھارت سے عسکری مدد کی اپیل کی۔ماونٹ بیٹن، اور نہرو نے فوجی مدد کو معاہدہ الحاق سے مشروط کیا اور بعد ازاں معاہدہ الحاق کی روشنی میں بھارتی فوج سرینگر پہنچی تاہم کشمیر کا وہ علاقہ جو اب آزاد جموم و کشمیر کہلاتا ہے ،کشمیری عوام کی جدوجہد و قبائلی مدد سے آزاد کرایا جا چکا تھا۔
واپس کریں