دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقبوضہ کشمیر اور بھارت کا خارجہ محاذ
انجینئر حمزہ محبوب۔  نوائے سروش
انجینئر حمزہ محبوب۔ نوائے سروش
جدید ٹیکنالوجی اور گلوبلائزیشن کے اس دور میں کسی بھی ملک کے اقدامات اس خطے کے دیگر ممالک پر بلواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت کے اقدامات میں یہ عنصر زیادہ اہمیت اس لیے اختیار کر لیتا ہے کیونکہ دونوں ممالک کے مابین اہم تنازعہ کشمیر کی صورت میں موجود ہے۔کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں سے یہ معاملہ بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنا۔ اسی توجہ کی وجہ سے مختلف فورمز پردونوں ممالک کی محاذ آرائی دہائیوں پرانی ہے۔ اپنے من کے بیانیہ میں ڈھالنے کے لیے بھارت کی جانب سے مکارانہ خارجہ پالیسی اپنائی گئی۔5 اگست 2019 کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے غیر جمہوری و غیر آئینی اقدامات کے بعد کشمیر کے معاملہ پر بھارت کی جانب سے خارجہ محاذ پر ایسے بیش بہا اقدامات کیے گئے ہیں کہ جن سے بھارت کا کشمیر پر موقف و بیانیہ پروان چڑھ سکے۔ اور ان اقدامات سے دنیا کا تاثر بدل کر کشمیر کو اکھنڈ بھارت کے حصہ کے طور پر دنیا کو تسلیم کروا سکے۔ گو کہ تحریک کشمیر اور کشمیریوں کے جذبہ کے سامنے ایسے اقدامات حقیقت کو بدل نہیں سکتے تاہم دنیا میں بھارت اپنا تاثر قائم کرنے کی ہر اس کوشش میں مگن ہے کہ جس سے کشمیر کے اندر کے حالات کو سازگار دکھا کر تنازعہ کو بین الاقوامی منظرعامہ پر موضوع گفتگو بننے سے روک سکے۔

چونکہ یہ معاملہ و تنازعہ بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہے لحاظہ بھارت کی جانب سے بارہا ایسے اقدامات کیے جا رہے ہیں کہ جس سے بین الاقوامی دنیا کی رائے بدلی جا سکے۔ ان مقاصد کی تکمیل کے لییبھارت کی جانب سے کیے گئے اقدامات یورپی یونین کی جانب سے ڈس انفو لیب کی نشاندہی کی صورت سب سے نمایاں ہیں۔ بھارت کی جانب سے بے شمار ایسی ویب سائٹس بنائی گئیں جو بظاہر ریسرچ کے ادارے تھے اور یورپی یونین ان ویب سائٹس کی ریسرچ کے نتیجہ میں مختلف جریدوں کی تشہیر کرتی تھی۔ لیکن یورپی یونین کی تحقیق وچھان بین کے نتیجہ میں یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ بھارت نے بے شمار جعلی اکانٹ و ویب سائٹ مخص اس غرض سے بنائیں کہ جن سے غلط معلومات، پروپیگنڈہ اور حقائق سے منافی موقف دنیا کو پہنچا کر کشمیر کی حقیقی صورتحال سے آگاہی سے کوسوں دور بھارتی ایجنڈا کو پروان چڑھایا جائے۔ یورپی یونین نے بھارت کے ان عوامل کو نہ صرف بے نقاب کیا بلکہ باقاعدہ رپورٹ نشر کی جو میڈیا اور خبروں کی ذینت بنی۔

یورپی یونین جیسے مستند اتحاد کی جانب سے پردہ چاک ہونے کے باوجود بھارت اپنی منافقانہ چالاکیاں و چال بازیوں سے باز نہ آیا۔ یورپی پارلیمنٹ ممبرز کو ریاست کے خرچ پر مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر کا دورہ کروا کر یہ تاثر قائم کرنے کی کوشش کی گئی کہ ریاست میں امن قائم ہے اور بھارت کے آئین منسوخی کے اقدامات سے ریاست کے نظم و نسق اور کشمیریوں پر اثر انداز نہیں ہوئے۔ جو کہ بلاشبہ حقیقت سے دور بین الاقوامی دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکے کے مترادف ہے۔مزید برآں بھارت کی جانب سے اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت حاصل کرنے کی کوشش بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ بھارت،برازیل، جرمنی نے مستقل رکنیت کے لیے کوششیں تیزی سے جاری کر رکھی ہیں۔ مگر پاکستان،روس، ارجنٹائن اور چین کے اقدامات سے بھارت کی یہ چال کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔حال ہی میں بھارت کی جانب سے یہ کوشش کی گئی کہ آمدہ برس یعنی 2023 میں بھارت میں طے شدہ جی 20 ممالک کا اجلاس کشمیر میں منعقد کروایا جائے۔ یاد رہے جی 20 میں امریکہ، روس، چین اور مسلمان ممالک میں ترکی، انڈونیشیا اور سعودی عرب بھی شامل ہیں۔اس کوشش کا مقصد یہ تھا کہ کشمیر میں بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کر کے یہ تاثر قائم کیا جائے کہ کشمیر کے معروضی حالات بالکل سازگار اور کشمیریوں کی مزاحمت کا کوئی وجود نہیں۔اقوام متحدہ میں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے وجود، پاکستان کے شدید ردعمل اور چین، سعودی عرب اور ترکی کی جانب سے تحفظات پر یہ مقام فی الوقت تبدیل تو کر دیا گیا ہے لیکن یہاں یہ معاملہ نہایت اہمیت کا حامل ہے کہ گو کہ مقام تو تبدیل کر دیا گیا ہے لیکن مرکزی اجلاس کے علاوہ لگ بھگ 200 میٹنگز کا انعقاد بھارت میں ہو گا جس میں سے چند ایک کشمیر میں بھی منعقد ہوں گی۔ یقینی طور پربھارت اس کوشش میں رہے گا کہ کشمیر میں میٹنگز کے دوران دنیا کو یہ تاثر دے سکے کہ تحریک کشمیر ختم ہو چکی اور
حالات سازگار ہو چکے ہیں۔

جی 20 کے محاز سے ہٹ کر دیکھا جائے تو ایک نہایت اہم کامیابی جو بھارت کے حصے میں آمدہ چند ماہ میں آ رہی ہے وہ اقوام متحدہ کی صدارت ہے۔ یکم دسمبر 2022 سے ایک ماہ کے لیے بھارت کو صدارت تفویض ہو گی۔ یقینی طور پر اس اہم موقع کو بھارت اپنے موقف کو واضع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ امور خارجہ میں ملک کی معاشی درجہ بندی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو حال ہی میں بھارت کو ایک اہم کامیابی ملی۔ یعنی بھارت برطانیہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن چکا ہے۔ یقینی طور پر معاشی استحکام اور ترقی سے بھارت اپنے موقف کو منوانے میں کافی حد تک کامیاب رہ سکتا ہے کیونکہ دنیا کی دوسری بڑی مارکیٹ ہونے کے ناطے ہر ملک کا مفاد اس سے جڑا ہے خواہ وہ متحدہ عرب امارات ہو یا سعودی عرب۔

حال ہی میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اہم اجلاس سمرقند میں منعقد ہوا۔ اہم نکتہ یہ ہے کہ اب اس تنظیم کی صدارت بھی بھارت کو ملنے جا رہی ہے اور آمدہ اجلاس ستمبر 2023 میں بھارت میں منعقد ہو گا۔ یقینی طور پر اس اہم تنطیم کہ جس میں چین اور روس بھی شامل ہیں بھارت اپنی اہمیت برقرار اور بڑھانے کہ ہر ممکن کوشش کرے گا جو کہ لامحالہ کشمیر اور پاکستان پر اثر انداز ہو گا۔ روس، یوکرین تنازعہ کے بعد روس کو جی 8 تنظیم سے نکال دیا گیا تھا لیکن آمدہ اجلاس میں بھارت کی شرکت کے امکانات بھی روشن ہو چکے ہیں۔ امکان قوی ہے کہ بھارت باضابطہ طور پر اس تنظیم کا حصہ بننے جا رہا ہے۔

بھارت کے مسلمان ممالک سے تعلقات اور ان تعلقات کے نتیجہ میں کشمیر کے بارے میں اپنی منشا کا بیانیہ قائم کرنے کی کوششیں بھی ماضی کا حصہ رہ چکی ہیں۔ 5 اگست 2019 کے انتہائی اقدام کے فوری بعد ہندوتووا کے علمبردار نریندرا مودی کو متحدپہ عرب امارات کا خصوصی ایوارڈ دیا گیا۔ دریں اثنا بحرین نے بھی مودی کو خصوصی ایوارڈ سے نوازا۔ یعنی کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے ساتھ مسلم ممالک سے ساز بار کر کے ایسا تاثر قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی کہ ان غیر جمہوری اقدامات سے کشمیر کا تنازعہ ختم ہو چکا ہے اور ان انتہائی اقدامات کا مسلمان ممالک بھی تائید کرتے ہیں۔ماضی میں متحدہ عرب امارات کہ جانب سے کشمیر کے لیے ڈائریکٹ فلائٹس کا آغاز بھی کیا گیا۔ تاہم پاکستان کے بروقت رد عمل سے یہ سلسلہ زیادہ عرصہ برقرار نہ رہ سکا۔

یوں خارجہ محاز پر بھارت کو جی 20 اجلاس کی میزبانی، اقوام متحدہ کی صدارت اور شنگھائی تعاون تنظیم کی صدارت اور میزبانی کی صورت میں ملنے والی کامیابیوں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت ان تمام تر کامیابیوں و اختیارات کے وجود کے ساتھ مسلہ کشمیر پر دیگر ممالک کا موقف اپنے بیانیے کے مطابق بدلنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا ، خواہ وہ حقیقت سے کوسوں دور ہی کیوں نہ ہو۔ اور ماضی قریباآرٹیکل 370 کی تنسیخ کے فوری بعد مسلمان ممالک کے بھارت سے تعلقات کی بہتری سے اس موقف کو مزید تائید ملتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام فورمز پر پاکستان بلواسطہ یا بلاواسطہ بھارت کے جھوٹے بیانیے ، کشمیر کی حقیقی صورتحال اور تحریک کشمیر کو اجاگر کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔ یقینی طور پر چین، سعودی عرب ، ترکی اور ملائیشیا پاکستان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے بھارت کے مکارانہ عزائم اور ظلم پر پردہ پوشی کو بے نقاب کر سکتے ہیں۔

بھارت نے گزشتہ برسوں میں کشمیر کی خصوصی خیثیت پر شب خون کرنے کے بعدخارجہ محاظ پر غلط مواد کی تشہیر،جعلی اکانٹس کے وجود، پروپیگنڈہ کرتے ریسرچ اداروں، چال باز دوستوں کی موجودگی اور ہندوتوا سرکار کے زیر اثر جھوٹ کی بنیاد پر بین الاقوامی دنیا کی رائے بدل کر پاکستان کو قصوروار، بھارت کو خیر خواہ اور کشمیریوں کو اپنا ہمنوا ٹھہرانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے جو کہ لاکھوں کشمیری جانوں کی قربانیوں، بہن، بیٹیوں کی لٹی عصمت، پیلٹ گنوں سے ضائع آنکھوں، سید علی گیلانی، مقبول بٹ،اشرف صحرائی اور یسین ملک کی قربانیوں اور 8 لاکھ فوج کی موجودگی سے نہ صرف ناکام ہوئیں بلکہ بے نقاب ہوئیں۔ ضرورت اس امر کی ہے جدید دور کیان مسائل و چالبازیوں یعنی جھوٹ، ہائبرڈ وار فئیر اور پروپیگنڈہ کے مقابلہ کے لیے بطور مسلمان، کشمیری اور پاکستانی اپنی دانست میں رہتے ہوئے زبان، قلم اور ہر ممکنہ عمل سے کوشش کی جائے تا کہ کشمیر کی حقیقی صورتحال، تحریک و جدوجہد کشمیر کی حقیقت، کشمیریوں کی رائے، دشمن کا جھوٹ اور اپنا سچ آشکار کر کے دنیا کے طاقتور حلقوں کی جانب سے بھارت پر دباو بڑھایا جائے ۔ اللہ مع الحق!
واپس کریں