دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
10 دسمبر 2022 :انسانی حقوق کا بین الاقوامی اعلامیہ اور کشمیر میں پامالی کے 75 سال
انجینئر حمزہ محبوب۔  نوائے سروش
انجینئر حمزہ محبوب۔ نوائے سروش
10 دسمبر1948 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے انسانی حقوق کے متعلق عالمی اعلامیہ منظور اور جاری کیا جو کہ رنگ، نسل، مذہب، زبان، جائیداد، جنس، سیاسی اور لسانی تقسیم کی سوچ و نظریے کو رد کرتی ایک ایسی مستند دستاویز ہے کہ جس کا ترجمہ دنیا کی 500 سے زائد زبانوں میں کیا گیا ہے۔ یوں اس مسودہ کی منظوری اور اہم اعلامیہ کی مناسبت سے 10 دسمبر 1950 سے ہر سال یہ دن 'انسانی حقوق کے عالمی دن' کے طور پر منایا جاتا ہے۔ انسان کے بنیادی حقوق کی نشاندہی تو دنیا کی سینکڑوں زبانوں میں کر دی گئی لیکن دنیا کی کل آبادی کا اٹھارہ فیصد، کل رقبے کا 2.4 فیصد اور سب سے بڑی جمہوری ریاست ہونے کا دعوے دار ملک' بھارت ' ریاست جموںو کشمیر کے باسیوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی میں مصروف عمل ہے اور بدقسمتی سے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک و مقتدر اداروں کی زبانیں خاموش، آنکھیں چشم پوشی اور اقدامات محض مذمتی بیانات یا علامتی قراردادوں تک ہی محدود ہیں۔
10 دسمبر 2021 کو اسی دن کی مناسبت سے اقوام متحدہ کی جانب سے ''وقار، آزادی، اور انصاف سب کے لیے'' کے عنوان سے مہم کا آغاز کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیےبھرپور کاوشیں کی جائیں گی۔ لیکن مسلہ کشمیر کے تناظر میں ''وقار'' کی پامالی حریت رہنما میرواعظ عمر فاروق کو نماز جمعہ کی ادائیگی سے روک کر مذہبی آزادی پر قدغن لگا کر جاری رہی۔ 'آزادی اظہار رائے' کا خون بین الاقوامی شہرت کے حامل' خرم پروز' کی قیداور 'میڈیا پالیسی2020' کی صورت میں کیا گیا۔ جبکہ 'انصاف' کا قتل عام کالے قوانین، عدالتی قتل، جھوٹے مقدمات اور جعلی مقابلوں میں کشمیر کی شہادتوں کی صورت میں کیا گیا۔
مقبوضہ وادی ریاست جموں کشمیر میں انسانی بنیادی حقوق کی پامالی محض ایک برس کا قصہ نہیں بلکہ ان پامالیوں کا آغاز بھی انہی برسوں میں ہوا کہ جب دنیا انسان کے بنیادی حقوق کے سلسلہ میں اجلاس منعقد کر کے اعلامیہ جاری کر رہی تھی۔ ماضی کی سپر پاور برطانیہ نے 1947 میں تقسیم ہند کے اعلان کے بعد باونڈری لائن کمیشن اور لارڈ ماونٹ بیٹن کی غیر منصفانہ تقسیم اورپنڈت نہرو کی ساز باز سے کیے گئے فیصلوں کی صورت میں ریاست جموں کشمیر کے باسیوں کی حقوق سلبی کی ایسی بنیاد رکھی کہ جس کے نتیجہ میں ظلم و ستم کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ تقسیم ہند کے فارمولہ کے تحت ریاست کشمیر کے باسیوں کو بھی یہ حق حاصل ہوا کہ وہ اپنی امنگ و خواہش کے مطابق پاکستان یا ہندوستان میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ الحاق کا اعلان کریں۔لیکن بیسیوں واقعات کے بعد ریاست کے باسیوں کا یہ بنیادی حق اس وقت چھین لیا گیا جب مذہبی رجحان، فطری ربط اور عمومی رائے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس علاقہ کا الحاق مہاراجہ کی ایما پر بھارت سے کر دیا گیا۔ ریاست کی کل آبادی کا لگ بھگ77 فیصد مسلمان ہونے کی وجہ سے ،ریاست کا جغرافیائی ربط پاکستان سے ہونے کی وجہ سے مہاراجہ ہری سنگھ کا معاہدہ الحاق 1947 انسانی حقوق کی ایسی پامالی تھی جس نے جزوقتی طور پر نہ صرف ریاست کے باسیوں کی امنگوں کا قتل اور عوامی خواہشات کا خون کیا بلکہ کل وقتی طور پر بھارتی قابض فوج نے غیر قانونی قبضہ کی صورت میں وادی میں انسانی حقوق کی پامالی کی وہ تاریخ درج کی کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔
بھارت نے اپنے زیر قبضہ علاقہ میں ریاست پر اپنا کنٹرول حاصل کرنے اور کشمیری عوام کی خواہش آزادی کو دبانے کے لیے عورتوں کی عصمت دری، بزرگ شہریوں پر تشدد، نوجوان طبقے کو گرفتار، پیلٹ گنوں کا بے دریغ استعمال، آزادی کے متوالوں کا خون ناحق، اور ہزاوں افراد کو پابندسلاسل کرنے سے دریغ نہیں کیا۔ بھارتی قابض افواج کی انسانی حقوق کی پامالیوں میں قتل و غارت کی صورت میں اب تک ایک لاکھ سے زائد شہری اپنی جان سپرد خاک کر کے جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ بھارتی قابض فوج کی بربریت سے ایک لاکھ سے زائد کشمیری بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ 2016 سے اب تک قریبا 16 ہزار مظلوم شہری پیلٹ گن کے چھروں سے شدید زخمی ہوئے ہیں۔ جبکہ لگ بھگ 1300 لڑکے قوت بینائی سے محروم ہوئے۔ کشمیر کی فاطمہ کی بینائی کا جانا بھی ماضی کا اہم واقعہ رہا ہے۔ بھارتی فوج نے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، قتل و غارت ، اور غیر انسانی اقدامات پر ہی اکتفا نہین کیا بلکہ لگ بھگ ایک لاکھ سے زائد املاک کو بھی نقصان پہنچا کر مالی مسائل سے بھی دوچار کیا جا چکا ہے۔ماضی بعید میں ریاست میں آٹھ ہزار سے زائد گمنام قبروں کی موجودگی کے انکشاف نے دنیا کو ورطہ حیرت میں مبتلا کیا تاہم حقوق انسانی کی تمام تر شکوں و اخلاقی معیارات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارتی قابض افواج کی بربریت کا سلسلہ نہ تھم سکا۔
بھارتی قابض افواج کی جانب سے قریبا 16000 آپریشز کے نتیجہ میں 13 ہزار سے زائد بچوں کو غائب کیا گیا۔ جبکہ 2016 سے اب تک بھارتی ہندوتوافوج کی جانب سے قریبا 4 ہزار خواتین کی عصمت دری اور لگ بھگ 700 خواتین کو قتل کیا گیا۔ بھارت کے ان غیر انسانی اقدامات کا ذکر ماضی میں پاکستان کی جانب سے 131 صفحات پر مشتمل ڈوزیرمیں بھی کیا گیا کہ جس میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ2016 سے بھارتی فوج کے لگ بھگ 1128 افراد انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث رہے ہیں ۔ یاد رہے یہ تعداد بھارتی فوج کے اعلی افسران یعنی میجر جنرل، برگیڈیر و دیگر عہدیداران پر مشتمل ہے۔ جو کہ بھارت کی کشمیرمیں انسانی حقوق کی پامالی کی منصوبہ بندی و مضموم عزائم کی نشاندہی ہے۔ یاد رہے یہ شماریات بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس و تحقیق سے شامل کیے گئے۔
5 اگست 2019 کو معاہدہ الحاق اور سلامتی کونسل کی قرارداودوں کی روشنی میں قائم ریاست کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر کے بھارت کی یونیین ٹیرٹی بنا کر مودتوا و ہندوتوا سرکار نے کشمیر کو بھارت میں ضم کرنے اور کشمیریوں کے مستقبل اور بنیادی انسانی حقوق پر سوالیہ نشان عیاں کر دیا ہے۔5 اگست سے ایک دن قبل ہی ریاست کشمیر میں تمام سیاسی رہنماوں کو گرفتار کرتے ہوئے پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں رکھا گیا یا نظر بند کر دیا گیا۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق 33 سیاسی رہنماوں کو ایک جگہ قید کیا گیا۔ اس دوران وادی میں مکمل طور پر کرفیو لگایا گیا اور سکول لگ بھگ سات ماہ تک بند رہے۔ تمام تر پابندیوں کے ہوتے ہوئے صحافیوں پر بھی پابندی عائد کر دی گئی کہ جس کے تحت بھارتی ریاست کے مفادات سے ٹکراو والی کسی بھی رپورٹ کی اشعات پر سزائیں دینے کا فیصلہ کیاگیا۔ انٹر نیٹ پر بھی پابندی لگا دی گئی۔گویا اس دن سے پابندیوں، ظلم اور کرفیو کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوا۔
ظلم و بربریت کے اس نئے دور میں عظیم بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی نے بھی وفات پائی ۔تاہم اس موقع پر بھی بھارت نے انسانی حقوق کی پامالی میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور ان کی میت بھی ورثا کرنا تو درکنار بلکہ وصیت کے برخلاف گمنا م جگہ پر تدفین تک کر دی گئی۔ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سربراہ و معروف حریت رہنما یسین ملک کو بھی غیر قانونی مقدمات میں الجھا کر پابند سلاسل کیا گیا ہے ۔ یہی نہیں خواتین کے حقوق کی علمبدار عاصیہ اندرابی کو بھی مقید کیا گیا ہے جبکہ ان کے شوہر بھی گزشتہ 27 برس سے مقید ہیں۔ جن کو ایشیا کے سب سے طویل مدت سے مقید فرد کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔
دی ٹائمز کی حالیہ رپورٹ میں دنیا کے سو بااثر افراد کی فہرست جاری کی گئی ہے جس میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے خرم پرویز بھی شامل ہیں۔ خرم پرویز کا جرم بھارت کی جانب سے مقبوضہ وادی جموں و کشمیر میں ظلم و بربریت کے خلاف قلم و کلام سے جدوجہد کرنا ٹھہرا۔ اس فرض کی تکمیل اور حق گوئی کی علمبداری کے لیے گزشتہ دو دہائیوں سے میدان میں مصروف عمل رہے۔ خرم پرویز جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی تنظیم جموں و کشمیر کوالیشن آف سول سوسائٹی (COCC)کے پروگرام کووآرڈینیٹر اور ایشین فیڈریشن اگینسٹ ڈس اپیرینسز(AFAD) کے چئیرپرسن ہیں۔ انہوں نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بھی بھرپور آواز میں بلند کی۔ انہی کی کوششوں کے مرہون منت یورپ ہو یا امریکہ تمام مقتدر حلوں میں آٹھ ہزار لاپتہ افراد کے لیے آواز بلند ہوئی۔ لاپتہ افراد کی بیویوں کو 'آدھی بیوہ' کے نام سے پہچان دے کر ان خواتین کے بنیادی حقوق کے حصول کی کوششوں میں بھی خرم پرویز کا کردار نہایت اہم رہا۔ ۔ خرم پرویز کی خدمات اور حق گوئی بھارتی قوتوں کو آنکھ نہ بھائی۔ پبلک سیفٹی ایکٹ اور یو اے پی اے ایسے سیاہ قوانین ہیں کہ جن کے تحت 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد لگ بھگ 2300 ہیومن رائٹ ایکٹوسٹ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ صحافیوں کو بھی اس تعداد کے ساتھ ملا لیا جائے تو یہ تعداد 10000 بنتی ہے۔
بھارت کی جانب سے ریاست جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی پر اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ جیسے اداروں کی جانب سے بارہا ایسی رپورٹس کا اجرا کیا گیا ہے جس میں بھارتی کے جرائم کو شماریات، اعداد اور واقعات کی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔ لیکن بین الاقوامی فورمز کی جانب سے مسلے کا ادراک ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اس ضمن میں ضرورت ایسے عملی اقدامات کی ہے کہ جس سے بھارت پر دباو بڑھا کر ریاست کا کنٹرول ریاست کے باشندوں کی منشا کے مطابق ممکن ہو سکے۔ پاکستان کی جانب سے بھی ہر متعلقہ فورم پر کشمیر کا مقدمہ پیش کیا جاتا رہا ہے تاہم دیگر مسلم ممالک کی خاموشی، چند مسلم ممالک کی بھارت پروری، سپر پاورز کے بھارت ے جڑے تجارتی مفادات اور مستند اداروں میں بھارت کامالی و سیاسی اثرو اسوخ ایسے چیلنجر ہیں کہ جن کامقابلہ ریاست کشمیر میں ہوتے بھارت کے غیر آئینی، غیر انسانی اور جابرانہ اقدمات مظالم کو بارہا، مسلسل اور بھرپور انداز سے بے نقاب کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔
واپس کریں