دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقبوضہ کشمیرپولیس ، قادرگاندربلی سے ایوب پنڈت تک !
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
مقبوضہ کشمیر کا ایک پولیس افسر قادر گاندر بلی کانام وادی کشمیر کے مسلمانوں میں ظلم اور بربریت کی ایک علامت کے طور پر تاریخ میں مشہور ہے۔پاکستان اور ہندوستان کے قیام کے بعد سے ایک طویل عرصہ تک قادر گاندر بلی مقبوضہ کشمیر کے ان پولیس افسران میں نمایاں رہا جو ہندوستان کی وفاداری میں کشمیریوں پر درندگی سے انسانیت سوز مظالم ڈھاتے رہے ۔قادر گاندر بلی خاص طور پر پاکستان سے محبت رکھنے والے کشمیریوں پر بھیانک مظالم کی ایک علامت بنا رہا۔قادر گاندر بلی کسی معزز شخص کو قراقلی ٹوپی(جسے جناح کیپ بھی کہتے ہیں) پہنے دیکھتا تو سر بازار مارپیٹ کا نشانہ بناتے ہوئے اسے سڑکوں پر گھسیٹتا،اس کے کپڑے پھاڑ دیتا، اس کی ٹوپی میں پیشاب کرتا،پاکستان زندہ باد کہنے والوں کے منہ میں گرم آلو رکھتا،ان کے منہ میں خود پیشاب کرتا،پاکستان کی حمایت اور آزادی کی سیاسی سرگرمیوں میں ملوث کشمیریوں پر بدترین جسمانی تشدد کرتا اور بڑی تعداد میں معصوم بچوں کو بھی شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بناتا۔قادر گاندر بلی جب مرا تو اسے ہندوستان کی طرف سے سرکاری اعزازات سے نوازا گیا۔تقسیم برصغیر کے بعد ریاست کشمیر میں شیخ عبداللہ کے دور حکومت کے بعد غلام محمد بخشی کے دور میں بھی کشمیری حریت پسندوں پر غیر انسانی ظلم و ستم کرنے والوں میں قادر گاندر بلی درندگی کے طور پر نمایاں رہا۔

میری نسل تک کے کشمیری قادر گاندر بلی کے بھیانک غیر انسانی کردار سے آگاہ ہیں لیکن میرے بعد کی کشمیری نوجوانوں کو قادر گاندر بلی بھولتا جا رہا ہے ،اب ان کو مقبوضہ کشمیر پولیس کے وہ افسر یاد ہیں جو ہندوستانی حکومت سے ترقی،انعام پانے کے لئے کشمیریوں پر ظلم کرتے ہوئے تمام حدیں پار کر رہے ہیں،ان میں سید عاشق حسین بخاری ایس ایس پی اور امتیاز میر ایس ایس پی ایسے دوپولیس افسران کی ایک مثال ہے جنہوں نے دو دو سو سے زائد کشمیری نوجوانوں کو تشد د سے قتل کیا۔

مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک کشمیری سید محمد شفیع گیلانی سوشل میڈیا پہ لکھتے ہیں کہ '' ڈی جی پی ایس پی وید آسمان ہندوستان سے نہیں اترا،یہ جموں کا پشتنی باشندہ ہے،ویسے اس عہدے سے قبل اچھی شہرت کے مالک تھے،اب عہدے کی پاسداری کر رہے ہیں،جو ہمارے مقامی مسلم افسران نے ان سے کئی گنا زیادہ نبھائی ہے۔شایدہی پیر غلام حسن شاہ،غلام جیلانی پنڈت، علی محمد وٹالی، ڈی این کول(کشمیری پنڈت)عبدالمجید لون اور اس قبیل کے دیگر مقامی پولیس افسران کو لوگ بھولے ہوں گے جن کے ہاتھوں لوگ اذیت خانوں میں موت کو پکارتے تھے لیکن وہ بھی نہیں آتی تھی۔لیکن یہ بھی ناقابل تردید حقیقت ھے کہ اس محکمے میں کئی اچھے لوگ بھی ہیں ان کو ہمیشہ پشت بہ دیوار رکھا جاتا ہے،اہم عہدوں پر کبھی نہیں رکھا جاتا۔ ان ظالم افسران و اہلکاروں میں بھی شاید ہی کوئی بھارت نواز ہو،لیکن اپنے ذاتی مفادات کے لئیے کسی بھی حد تک گر جاتے ہیں،اب ان کا کیا کیا جائے،یہ ایک چبھتا ہوا روح فرسا سوال ہے جس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں''۔

اطلاعات کے مطابق جمعتہ الوداع سے پہلے کی رات ایک مشکوک شخص سرینگر کی تاریخی جامع مسجد کے باہر مشکوک حالت میں مسجد سے نکلنے والوں کی تصویریں بنانے پر جب پکڑا گیا تو اس نے وہاں سے نکلنے کے لئے فائرنگ کر دی جس سے تین شہری زخمی ہوئے،اس پرموقع پر موجود افراد نے اس پولیس افسر کر پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔ہندوستانی لابی اس واقعہ کو کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کے خلاف استعمال کر رہی ہے ،ان کی طرف سے یوں ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جیسے کشمیری شہریوں نے بلاوجہ ایک پولیس افسر کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا۔مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی وزیر اعلی محبوبہ مفتی نے اس واقعہ کے ردعمل میں دیئے گئے بیان میں کہا کہ کشمیر پولیس اپنی کرنی پہ آئی تو کشمیری پولیس کی جیپ دیکھ کر ہی بھاگنے لگیں گے جبکہ نیشنل کانفرنس کے صدر عمر عبداللہ نے ایوب پنڈت نامی پولیس افسر کو ہلاک کرنے والوں کو جہنم میں جلنے کی بددعا دی ۔

اس واقعہ کے اگلے روز تاریخی جامع مسجد کو بند کرتے ہوئے ارد گرد کے تمام علاقے کو سیل کر کے بڑی تعداد میں فورسز متعین کی گئی ہیں ۔اس وجہ سے ڈوگرہ دور کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جب کشمیری رمضان المبارک کے جمتہ المبارک کی نماز یہاں ادا نہیں کر سکے۔بعض حلقوں کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کشمیر پولیس اور ان کے گھر والے(جن کی تعداد کشمیر کی کل آبادی کا دس فیصد بتائی جا رہی ہے)کو تحریک آزادی کا مخالف نہیں بنانا چاہئے۔معلوم نہیں کہ ان مخصوص حلقوں کی طرف سے شیخ عبداللہ خاندان کی نیشنل کانفرنس اور محبوبہ مفتی کی پارٹی کی طرح کے ہندوستان نوازوں کو کیوں پولیس فورس کی دس فیصد آبادی میں شامل نہیں دکھایا گیا۔

کشمیر کاز کے لئے عالمی سطح پہ متحریک جموں و کشمیر کانسل فار ہیومن رائٹس کے سربراہ سید نزیر گیلانی نے سوشل میڈیا پہ اس واقعہ سے متعلق کہا ہے کہ '' کشمیریوں کی بھارتی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت کا عدد آسمان کو چھو رہا ہے۔ سوا لاکھ کے قریب ریاستی باشندوںکو ہندوستانی فورسزنے بے دردی کے ساتھ کھلے عام، اذیت خانوں اور جھوٹے مقابلوں میں رات کی تاریکی میں قتل کیا ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔اس قتل عام میں کشمیری پولیس نے مالی مفاد اور ترقیاب ہونے کی لالچ میں نہ صرف ظلم و جبر کا ایک بازار لگایا ہے بلکہ کشمیری اور مقامی ہونے کی آڑ میں بے گناہ لوگوں بالخصوص نوجوانوں کو کھلے عام قتل کیا جاتا ہے اور ایک بڑی تعداد کو عمر بھر کے لئے اپاہج کر دیا گیا ہے ۔ بڑی تعداد میں نوجوانوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں اور انہیں عمر بھر کے لئے انہیں عدالتوں کی کاروائی میں ملوث کر دیا گیا ہے۔اس ماحول میں ڈی ایس پی محمد ایوب پنڈت کی عام لوگوں کے ہاتھوں ہلاکت پہلا واقعہ ہے جہاں عوام نے پر اسرار موجودگی کا نوٹس لیتے ہوئے قتل کے اس خاص ردعمل کا اظہار کیا''۔ نزیر گیلانی کا کہنا ہے کہ '' قتل جیسے رد عمل کے بجائے کشمیریوں پر ظلم کرنے والے کشمیری پولیس افسران اور دوسروں کا سو شل بائیکاٹ کیا جائے،ان کے مظالم کا ریکارڈ مرتب کیا جائے، انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث ان لوگوں کی ضرور پکڑہوگی، نیلا آسماں بھی دیکھ رہا ہے اور تاریخ کے حساب کا دائرہ ان ظالموں کے گرد تنگ ہوتا جا رہا ہے۔سید نزیر گیلانی آخر میں لکھتے ہیں کہ ''ڈائر یکٹر جنرل پولیس وید کے حضورعرض ہے کہ مظلوم کبھی بھی rascalبد معاش نہیں ہوتا، اس کی آہ سے نیلگوں آسماں اور سومناتھ مندر کی بنیادیں ہل کر رہ جاتی ہیں''۔

یہ صرف کشمیر کی تاریخ ہی نہیں بلکہ بھیانک،غیر انسانی ظلم و ستم کا ایک مسلسل عمل ہے جو کشمیریوں سے روا رکھا گیا ہے۔ ایک بات جو اس واقعہ سے بھی واضح ہو کر سامنے آئی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی ایسے کئی لکھنے والے تحریر اور عوامی تاثر پر dominateہوتے ہوئے اس طرح کی صورتحال پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں جو کشمیرکاز کے لئے مہلک نقصان پر مبنی اور ہندوستان کے حق میں ہے۔انہی سے متاثر ہو کر کشمیر کاز کے کئی حامی بھی کنفیوزن کا شکار ہو کر اپنی رائے کے ایسے پیمانے پیش کر رہے ہیں جس سے کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کو شدید طور پر نقصانات ہو سکتے ہیں۔کشمیری اپنی امن پسندی کی وجہ سے مشہور رہے ہیں۔ہندوستان نے سات عشروں سے کشمیریوں پر اتنے مظالم ڈھائے اور بالخصوص گزشتہ30,40سال سے ڈھا رہا ہے، اس کا مقبوضہ کشمیر سے باہر بیٹھا کوئی شخص تصور بھی نہیں کر سکتا۔

واپس کریں