دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سیاحت نامہ ۔کشمیر کی جنت کا اک رنگ ، وادی نیلم
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
مظفر آباد پہنچے تو شام ڈھل رہی تھی۔ تقریبا آٹھ بجے رات نیلم ویلی کے ایک خوبصورت، پرفضا مقام کیرن کی جانب روانہ ہوئے۔ مظفر آباد سے کیرن تک عموما تین گھنٹے لگتے ہیں تاہم رات کے وقت ٹریفک نہ ہونے کی وجہ سے ہم ڈھائی گھنٹے میں کیرن پہنچ گئے۔ دریائے نیلم ،جس کا قدیمی نام کشن گنگا ہے ، کے کنارے قائم ٹورسٹ ریزارٹ کے سبزہ زار میں رات کے کھانے کا بندوبست تھا۔ بہتے دریا کے پانی کی آواز پس منظر کی موسیقی کا کام کر رہی تھی۔ موسم میں پر لطف ہلکی خنکی تھی۔تھوڑے تھوڑے فاصلے پہ لگی میزوں پہ لوگ کھانے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ وہاں بار بی کیو تیار کرنے کا بھی انتظام تھا اور ایک فیملی خود اپنا کھانا تیار کر رہی تھی۔ دریا کے پار ہندوستانی مقبوضہ کشمیر ہے۔ ارد گرد کے گیسٹ ہاوسز کی رنگین لائٹیں ماحول کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی تھیں۔ دریا کے پار مقبوضہ کشمیر میں چند ہی لائٹیں تھیں، زیادہ تر وہاں اندھیرے کا ہی راج تھا۔

کیرن میں ہما ری رہائش کا انتظام ٹورسٹ ریزارٹ کے سامنے ہی قائم ایک خوبصورت ٹوئن ہلز ریزارٹ نامی گیسٹ ہائوس میں تھا۔ رات کے وقت گیسٹ ہائوس میں لگی جامنی رنگ کی لائٹیں خوبصورت لگ رہی تھیں۔ میرے حصے میں ٹاپ فلور، تیسری منزل کا کمرہ آیا۔ نئے تعمیر شدہ صاف ستھرے گیسٹ ہائوس کے کمرے بھی ہوا دار اور آرام دہ تھے۔ ہر فلور پہ کمروں کے سامنے سڑک کی جانب ٹیرس نما برامندے سے سامنے دریا اور مقبوضہ کشمیر کا علاقہ نظر آتا ہے۔ گیسٹ ہائوس کے سامنے کی طرف کے کمروں کے ساتھ چھوٹے ٹیرس بنے ہوئے ہیں جہاں بیٹھ کر، خوشگوار اور قوت بخش ہوا میں دیر تک قدرت کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کے باوجود دل نہیں بھرتا۔ رات کے وقت کمرے سے ملحقہ اسی ٹیرس میں بیٹھا تھا کہ نیچے سڑک سے بکروال بھیڑ بکریوں کے ایک بہت بڑے ریوڑ کے ساتھ گزرے۔ بکر وال اپنی مخصوص آوازوں سے ریوڑ کی بھیڑ بکریوں کو چلتے رہنے کی ہدایت دے رہے تھے۔ آدھی رات کے وقت بکر والوں کے بڑے قافلے پرکشش منظر پیش کر رہے تھے۔

اگلی صبح شاردہ کی طرف روانہ ہوئے۔ کیرن سے شاردہ کا فاصلہ 36 کلومیٹر ہے اور یہ سفر تقریبادو گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ دریائے نیلم پر نصب لوہے کے رسوں اور لکڑی کے تختوں والے پل کو گاڑی پہ ہی عبور کر کے جنگلات کے ریسٹ ہائوس پہنچے۔ یہاں پہلے لکڑی کا خوبصورت ریسٹ ہائوس ہوا کرتا تھا۔ اب اس کی جگہ پکی عمارت موجود ہے۔ دریا کے ساتھ ذرا بلندی پہ قائم اس ریسٹ ہائوس کے سامنے ایک خوبصورت لان ہے جہاں سے سامنے کی طرف نیلم،کشن گنگا دریا اپنی وسعت اور گہرائی میں ایک جھیل کی مانند محسوس ہوتا ہے۔ پل کے دائیں جانب چند موٹر بوٹس اور سکوٹر بوٹس موجود ہیں جن پہ سیاحت کے لئے آنے والے دریا کی سیر کرتے ہیں۔ انہی موٹر بوٹس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا نالہ مدھو متی پہاڑ کی جانب سے آتے ہوئے نیلم/کشن گنگا میں شامل ہو جاتا ہے۔ پہاڑ کی جانب کچھ ہی فاصلے پہ مدھو متی نامی اس نالے کے ساتھ ہی ایک قدیم بدھ، ہندو مت کی یونیورسٹی، مندرکاکھنڈر موجود ہے جسے شاردہ یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

نالہ مدھو متی کے عقب میں دو پہاڑی چوٹیاں ہیں جن میں سے ایک کا نام ناردہ اور دوسری کا نام شاردہ ہے۔ ناردہ پہاڑ کے اوپر ایک چھوٹی جھیل بھی موجود ہے۔ وہاں تک جانے کا کوئی باقاعدہ راستہ نہیں، بہت مشکل چڑھائی والا طویل اور خراب راستہ ہے۔ وہاں بھی چند آثار قدیمہ ہیں۔ دریا کے دوسرے جانب ایک بڑا نالہ سرگن، جس کا قدیمی نام سرسوتی ہے، دریا میں شامل ہوتا ہے۔شاردہ کے مقام سے نالہ سرگن کے ساتھ ایک راستہ کاغان کی طرف جاتا ہے جو درہ نوری ناڑ عبور کر کے کاغان کے علاقے جل کھڈ جا نکلتا ہے۔

شاردہ کے فارسٹ ریسٹ ہائوس میں دوپہر کے کھانے کے بعد اگلے مقام کیل کی جانب روانہ ہوئے۔ شاردہ سے کیل تقریبا 21 کلومیٹر فاصلے پہ ہے اور یہ سفر تقریبا ڈیڑھ گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر کرتے ہوئے بعض اوقات زیادہ وقت بھی لگ جاتا ہے کیونکہ راستے میں آنے والے خوبصورت مناظر، پہاڑ سے بہہ کر آنے والے پانی کے جھرنے سیاحوں کو کچھ دیر کے لئے رکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ کیل سے پہلے ہی مارگلہ نامی ایک خوبصورت نالہ پہاڑ کی بلندی سے بہتا ہوا دریا کی جانب آتا ہے۔ مارگلہ نالے کا خوبصورت پانی سیاحوں کو رکنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہاں ایک ہائیڈرل پاور پروجیکٹ بھی زیر تعمیر ہے۔

کیل پہنچتے ہی ہم اڑنگ کیل کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ تک ایک الیکٹرک چیئر لفٹ لگائی گئی ہے۔ لوگ اس پہ سوار ہو کر دوسرے پہاڑ تک پہنچتے ہیں اور وہاں سے بائیں جانب پیدل چڑھائی چڑھتے ہوئے تقریبا آدھے گھنٹے میں پہاڑ کے ٹاپ پہ واقع میدانی علاقے اڑنگ کیل پہنچتے ہیں۔یہاں سے اوپر جانے کے لئے گھوڑے بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں جو گھنے جنگل کی ایک پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے اڑنگ کیل پہنچتے ہیں ۔میں ایک گھوڑے پہ سوار ہو کر گھنے جنگل کی پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے اڑنگ کیل پہنچا۔گھوڑا گھنے جنگل کے درمیان ایک پگڈنڈی سے گزرتے ہوئے چڑھائی چڑھنے لگا۔ گھوڑے کا نوجوان مالک گھوڑے کی رسی پکڑے آگے چلتا رہا۔ اڑنگ کیل اپنی خوبصورتی کی وجہ سے سیاحوں میں مقبول ہے۔ اڑنگ کیل میں تقریبا تین سو سے چار سو لکڑی سے بنے گھر ہیں اور وہاں رہنے والے لوگوں کا تعلق ایک ہی خاندان(مغل)سے ہے۔ اڑنگ کیل میں بھی سیاحوں کے لئے گیسٹ ہاوس اور ہوٹل قائم ہیں۔ اڑنگ کیل میں کافی تعداد میں سیاح نظر آئے۔

اڑنگ کیل سے واپسی پیدل ہی ہوئی کیونکہ اترائی کے سفر میں مشکل نہ تھی۔ واپسی کے اس سفر میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ سیاح کافی تعداد میں چڑھائی چڑھتے ہوئے اڑنگ کیل جا رہے تھے۔ ان میں بچے کے علاوہ خواتین بھی شامل تھیں۔ چیئر لفٹ پہ سوا ر ہو کر واپس دوسری جانب پہنچے۔ اسی مقام پہ پاک فوج کے شہدا کی ایک یاد گار بھی قائم ہے۔ اس کے ساتھ ہی پاک فوج کی طرف سے آرمی پبلک سکول اور کالج زیر تعمیر ہے اور توقع ہے کہ جلد ہی یہ سکول ، کالج کام شروع کر دے گا۔ نیلم ویلی کے بالائی علاقے میں قائم کیا جانے والا یہ سکول و کالج علاقے کی ترقی کے حوالے سے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔

کیل میں رات قیام کے بعد ہماری اگلی منزل نیلم ویلی کا آخری مقام تائوبٹ تھا۔ کیل سے سرداری نامی گائوں تک سڑک کی توسیع اور تعمیر کا کام جاری تھا۔ جانوئی کے فارسٹ ریسٹ ہائوس میں چائے پینے کے بعد آگے روانہ ہوئے۔ پھلوئی، سوناری، سرداری کے بعد ہلمت پہنچے تو آرمی کی چیک پوسٹ سے معلوم ہوا کہ ہندوستانی فوج کی طرف سے گولہ باری کی جارہی ہے، اس لئے آگے کا راستہ بند کیا گیا ہے۔ ہم ساتھ ہی واقع ایک پہاڑی پہ واقع ہلمت کے فارسٹ ریسٹ ہاوس جا کر گولہ باری بند ہونے کا انتظار کرنے لگے۔

وہاں بھی ہندوستانی فوج کے گولہ باری کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ ہم ریسٹ ہاوس کے سامنے وسیع گھاس کے میدان میں بیٹھ گئے اور وہاں ہی چائے پی۔ دریا کے پار سامنے کی جانب بلند دو پہاڑوں کے درمیان جنگل سے دھواں اٹھتے نظر آیا۔ وہاں انڈین فوج کے چند گولے گرے تھے۔ تقریبا دو گھنٹے انتظار کے بعد گولہ باری بند ہونے کی اطلاع ملی تو ہم تائوبٹ کی جانب روانہ ہو گئے۔ یہیں معلوم ہوا کہ ہندوستانی فوج کی فائرنگ کی وجہ سے بکر والوں کے قافلے قبل از وقت پنجاب کی میدانی علاقوں کی طرف رخ کر رہے ہیں۔2020میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان لائین آف کنٹرول پر سیز فائر معاہدے کی توثیق ہوئی جس کے بعد سے کنٹرول لائین پہ دونوںملکوں کے درمیان اب سیز فائر جاری ہے ۔

نیکرو ن اور کریم آباد کے دیہاتوں کے بعد آخر ہم شام کے وقت تائو بٹ پہنچ گئے۔ تائو بٹ کے شروع میں ہی دریا کے پار جانے کے لئے ایک پیدل پل نصب ہے اور دوسری جانب متعدد خوبصورت گیسٹ ہاوس موجو د ہیں۔ اس پل پہ ہدایت تحریر ہے کہ ایک وقت میں ایک آدمی گزرے۔ ہم نے پل عبور کرنا شروع کیا تو پل کبھی اوپر نیچے اور کبھی دائیں، بائیں ہلنے لگا۔ پل کے پار اس علاقے کو تائو بٹ پار کہا جاتا ہے۔ گیسٹ ہائوسز کے آگے، دریا کے ساتھ ایک بڑا میدان اور عقب میں گھنا جنگل۔ کئی درخت ایسے کہ تاج پہنے محسوس ہوتے ہیں۔ یہاں سے دریا کے آر پار آنے جانے کے لئے لوہے کے رسے کی ایک چھوٹی سی مینول لفٹ بھی نصب ہے جس میں ایک وقت میں دو افراد بیٹھ سکتے ہیں۔ اس جگہ کی خوبصورتی اپنی مثال آپ ہے۔

تائو بٹ کے گاوں داخل ہوئے تو ایک منفرد منظر ہمارے سامنے تھا۔ یہاں گگئی نالہ نیلم ،کشن گنگا میں ملتا ہے۔ تائو بٹ سے تقریبا ایک، ڈیڑھ کلو میٹر آگے کی طرف دود گئی نامی نالہ گگئی نالے میں شامل ہوتا ہے۔ تائو بٹ میں ٹراوٹ مچھلی کا ایک ہیچری فارم قائم ہے۔ تائو بٹ کی خوبصورتی ایک منفرد انداز رکھتی ہے۔ تائو بٹ میں بھی کئی گیسٹ ہائوس قائم ہیں۔ یہاں کا فارسٹ ریسٹ ہاوس مکمل طور پر لکڑی سے بنا ہوا ہے۔ دریا کے ساتھ ذرا بلندی پہ قائم چند سال قبل تعمیر کردہ ریسٹ ہائوس اور اس کے سامنے گھاس کا لان علاقے کے حسن میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔

تائو بٹ کا سکون بخش ماحول اورخنکی مائل فرحت بخش ہوا انسان کو ایک مختلف کیفیت میں لے جاتی ہے۔ اگلی صبح واپس شاردہ کی جانب سفر شروع ہوا۔ گاڑی نے ریسٹ ہائوس سے واپسی کا سفر شروع کیا تو ارد گرد کے دلفریب مناظر کو دیکھنے کو ملے۔ تائو بٹ کے عقب سے بہتا ہوا گگئی نالہ خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہے۔ میرا تو تائو بٹ سے واپس آنے کا بالکل بھی دل نہیں کر رہا تھا۔دل کرتا ہے کہ اس سال دوبارہ تائو بٹ جائوں اور چند دن وہاں کے جنت نما ماحول میں سکون سے چند دن قیام کروں۔


واپس کریں