جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
ادراک
جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
پاکستان کے آئین 1973 میں حال ہی میں چھبیسویں ترمیم کے زریعہ اعلی عدلیہ کے حوالہ سے بہت سی ترامیم کی گئ ہیں جن کو اصلاحاتی کے بجائے انتقامی اور عدلیہ کے اندرونی انتظامی معاملات میں micro management کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا -
انتقامی اس لئے کہ گزشتہ ڈیڑھ دہائ سے سپریم کورٹ نے ریاستی ، حکومتی ، مقننہ اور عوامی انتظامی معاملات میں سئو موٹو اختیارات کے نام پر اپرادھی مچا دی تھی جس سے ریاست کے نظم و نسق کا توازن بگڑ گیا تھا - مکمل انصاف کے کرنے کی دفعہ کے بہانے اس کیس میں فریقین کے درمیان مکمل انصاف کے بجائے جو دل و دماغ میں آتا ہے شروع ہو جاتے ہیں اس کے باوجود پاکستانی عدلیہ 127 ویں نمبر پر ہے - بازاری اشیاء کے انراخ مقرر کرنا ، خارجی معاملات میں مداخلت، قانون سازی اور قانون سازوں کے اختیار استعمال کرنا جیسے وزرائے اعظم کو توہین عدالت میں سزا دے کر عہدے سے بر طرف کرنا، الیکشن کے معاملات میں سر تا پا مداخلت ، انتظامی اداروں کے سربراہوں کو عدالتوں میں بلا کر گھنٹوں بٹھا کے بے عزت کرنا ، ماتحت عدالتوں میں بے جا مداخلت اور مانیٹرنگ کرنا ، عدلیہ میں سیاست دانوں کی طرح تفرقہ اور گروپ بندی کرنا ، بار کے انتخابات میں مداخلت کو روز مرہ کی زمہ داری اور اختیار سمجھا جاتا ہے، چہیتے وکیلوں یا دیگراں کے زریعہ اپنے مخالفین کے خلاف رٹ کراکر نمکین تبصرے اور ٹی وی چینلز کے زریعہ ٹکر چلانا اکثر کی فطرت ثانی بن گئ ہے - ججز اپنی پہلی قانونی رائے کا احترام کرنے کے بجائے من پسند وکلاء کے لئے اس کے مغائر رائے قائم کرتے ہیں - کچھ ججز کی یہ فطرت ثانیہ بن گئ ہے کہ وہ اپنے ، اپنے ساتھیوں ، دوستوں کے کام یا اپنے مخالف کے کام سیکریٹری حکومت یا وزیر کی گردن پہ لات رکھ کے کراتے یا کرواتے ہیں - اکثر ججز انتظامیہ اور مقننہ کو ادارہ سمجھنے کو تیار نہیں بلکہ اپنے آپ کو عقل کل سمجھتے ہیں اور چند وکلاء شہرت اور دھونس کے خواہش مند ججوں کا فیور حاصل کرنے کے لئے ان کو مافوق الفطرت اتھارٹی کہہ کے اچھالتے ہیں - مارشل لاز کو جائز اور الیکشن میں من پسند لوگوں کے حق میں اسٹیبشمنٹ کے کہنے پر اپنا کندھا فراہم کرنے اور ان سارے اعمال اور بد عملیوں میں نمایاں رول ادا کرنے میں بد قسمتی سے پنجابی جج ہی پیش پیش رہے - ان ججز کو اس حقیقت کا ادراک نہیں رہتا کہ حفظ مراتب ، تقدم ، ترتیب اور زمہ داریوں کے اعتبار سے ر یاست کے بعد مقننہ ، اس کے بعد انتظامیہ اور تیسرے درجے پر عدلیہ آتی ہے - عدلیہ کے مٹھی بھر ججوں نے ریاست ، سوائے فوج کے جن کے پاس بندوق اور ڈسپلن ہے ، پوری ریاست کو یر غمال بنارکھا ہے جن کے پیچھے کوئ عوامی طاقت اور جواب دہی نہیں ہے - یہ بھی حقیقت ہے کہ جج بھی باقی اداروں میں موجود باقی لوگوں کی طرح ہیں کیا کریں اس ملک کا اور کون سا ادارہ اور کون سی اتھارٹی اپنی حدود میں محدود ہے - سب بے لگام ہیں ، آئین اور قانون بر سبیل تذکرہ ہی ہیں -
اگر حکومت کو اصلاحات کی خواہش ہے تو ماتحت عدلیہ میں وسیع پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے جہاں عام آدمی کا براہ راست واسطہ پڑتا ہے - آئینی عدالت میں آئینی معاملات لے جانا کوئ اصلاحات نہیں بلکہ اس سے مقدمہ بازی ہی بڑھے گی اور لوگ سپریم کورٹ ، شریعت کورٹ ، ہائی کورٹ اور آئینی عدالت کے درمیان کو ہلو کے بیل کی طرح گھو متے رہیں گے- متبادل داد رسی نہ ہو نے کا بہانہ بنا کر رٹ دائر کی جاتی ہے اور عدالتیں وکلاء کو اکا مو ڈیٹ کرنے کے لئے بغیر پس و پیش انٹر ٹین کر کے خبر بنا لیتے ہیں - رٹ چونکہ آئین کے تحت ہی ہوتی ہے اس لئے ہر رٹ آئینی عدالت میں ہی لینڈ کرے گی کیونکہ اس معاملہ میں آئینی انٹر پرٹیشن ہی ہونا ہوتی ہے -
بے راہ روججوں کے خلاف سپریم جو ڈیشل کونسل SJC کے پاس شکایت کرنے کے بجائے آئینی ترمیم کے زریعہ عدلیہ کے نظام کو ہی شکنجے میں کس دیا گیا اور الگ آئینی عدالت کے بجائے اعلی عدلیہ کے اندرونی انتظامی معاملات ، جیسے سپریم کورٹ ہی کے ججز پر مشتعمل” آئینی بنچز “ کی تشکیل میں پارلیمانی مداخلت کی راہ ہموار کر دی گئ اس کے روح رواں بلاول زرداری تھے جو مبینہ طور کسی امید سے ہیں - اس بنچ میں ججز کی نامزدگی کے لئے موجود جو ڈیشل کمیشن پاکستان (JCP ) میں پارلیمنٹ کے ممران کی تعداد باقی ممبران کے مقابل میں زیادہ کر دی گئ ؛ ججز اور چیف جسٹس کی تقرری بھی اس کی سفارش پر ہوگی؛ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں ان ہی ججوں میں سے آئینی بنچ کو JCP نامزد کرے گا ؛ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کی تقرری سینئر موسٹ جج کے بجائے تین سینئیر ججو ں میں سے JCP کرے گا; چیف جسٹس سپریم کورٹ کے عہدہ کی میعاد تین سال یا 65 سال کی عمر ہوگی ان میں سے جو پہلے وقوع پذیر ہو ؛ سپریم اور ہائ کورٹس کے ججوں کی برطرفی کے لئے سپریم جو ڈیشل کونسل SJC کو ججوں کی اہلیت جانچنے کا اختیار دیکر کسی بھی جج کو “ نا اہلی “ کی بنیاد بر طرفی کا اختیار حاصل ہوگا ؛ سپریم کورٹ اور ہائ کورٹس کے سئو موٹو اختیار کو محدود کر کے ان کے رو برو کیس کے علاوہ کوئ اور نکتہ نہیں ہوگا ؛ ایک ہائ کورٹ کے جج یا کیس کو کسی دوسرے ہائ کورٹ میں ٹرانسفر کیا جا سکے گا -
ان کے علاوہ ان اختیارات سے منسلک آئین کی بہت سی دیگر دفعات کی ترمیم بھی کی گئی ہیں - اخباری رپورٹ کے مطابق ابتدائ مسودہ میں شیڈول سمیت 56 ترامیم شامل تھیں لیکن مولانہ فضل الرحمان اور پی ٹی آئ نے بہت سی ترامیم کی مخالفت کی جن میں چند فوجی اداروں سے متعلق بھی تھیں - باآخر 27 پر سوائے پی ٹی آئ کے باقی جماعتوں نے اتفاق کیا جو بل کی صورت میں رات کے اندھیرے میں پا س کرکے آئین کا حصہ بنا دی گئیں -
دنیا بھر میں رائج آئینی پریکٹس کے مطابق ججوں کی تقرری حکومت ہی کرتی ہے اور ان کو ایک ہائ کورٹ سے دوسری ہائ کورٹ میں چیف جسٹس کی رضامندی سے ہی ٹرانسفر بھی کیا جاتا ہے - اسی طرح چیف جسٹس کی تقرری بھی عمومی طور سینئیر موسٹ جج کی ہی ہوتی ہے، سوائے پاکستان کے آئین کے کسی آئین میں سینئر موسٹ جج کا لکھا نہیں لیکن آئینی پریکٹس یہی ہے کہ سینئیر موسٹ ہی کو چیف جسٹس مقرر کیا جا تا ہے -ترمیم کے زریعہ اس سکوپ کو وسیع کیا گیا ہے کہ سینیارٹی لسٹ میں سے پہلے تین سینئیر ججوں میں سے کسی کو مقرر کیا جا سکے گا - اس میں بھی کوئ برائی نہیں- جو ڈیشل سروس بھی ایک سروس ہے اس لئے باقی سروسز کی مانند اس میں بھی اسی طریقہ کار کے مطابق کیا جائے تو بہتر چوائس سامنے آسکتی ہے - اس مرحلہ پر اتنی عجلت میں سب کچھ کرنا مشکوک ضرور ہے کیونکہ سید منصور شاہ صاحب دھڑے بندی کے حوالے سے حکومتی جماعتوں کے مخالف کیمپ کا حامی چلا آرہا ہے لیکن غیر آئینی نہیں کیونکہ رائج الوقت آئین کے تحت ہوا ہے -
تاہم JCP کا موجود ججز میں سے ہی آئینی بنچ بنانا آئینی روایات بلکہ آئین کے بنیادی ڈھانچہ کے خلاف عمل ہے - اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہی رہنا چاھئے جو مقدمات کی سماعت کے لئے اپنی دانست کے مطابق ان مقدمات کی نوعیت کے اعتبار سے اس قانون کے ماہر جج یا ججز کے پاس کیس بھیج سکتا ہے اور وقتآ فوقتآ بنچ کی تحلیل کی صورت میں نیا بنچ بنا سکتا - اس عمل کو سپریم کورٹ رولز اور زیادہ سے زیادہ “ سپریم کور ٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 “ میں ترمیم کے تحت منظبط کیا جا سکتا تھا - اسی طرح ہائ کورٹس میں بھی رولز کے تحت ہو سکتا ہے-
ہندوستان کی سپریم کورٹ میں “ آئینی بنچ “ کا تصور ضرور ہے لیکن اس کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے جس نے اپنے سمیت پہلے پانچ ججوں کو آئینی بنچ قرار دیا ہے - اس اختیار کو پارلیمنٹ کا جو ڈیشل کو نسل JCP کے سپرد کر کے جو ڈیشل کونسل میں پارلیمٹیرئینز کو بٹھا دینا , عدلیہ کے اندرونی معاملات میں مستقل مداخلت کا راستہ کھول دیا ہے - یہ قابل تحسین عمل نہیں ہے -
تاہم یہ کہنا کہ اس سے عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری متاثر ہوگی بے معنی بات ہے - عدلیہ بطور ادارہ اوپریٹ نہیں کرتی جیسے پولیس، فوج ، حکومت کی سول بیروکریسی ، بلکہ ہر جج کی قانون اور واقعات کی روشنی میں اپنی انفرادی رائے ہوتی ہے اگر یہ رائے قانون اور پروسیجر کے تحت کسی توثیق یا اتفاق کی محتاج نہ ہو ، وہی قانون کے تحت فیصلہ ہوتا ہے - اگر جج با ضمیر ، اہل ، قانون جاننے والا اور کسی لالچ یا خوف میں نہ ہو تو انصاف یقینی عمل ہے ان ترامیم سے فرق نہیں پڑے گا -
عدلیہ کی آزادی اور ججوں کی آزادی دو الگ الگ ایشوز ہیں - اس ترمیم کے زریعہ ججوں کی تقرری اور بینچز کی تشکیل میں بالا دستی حکومت کی ہی ہے لیکن اس کے لیے مائیکرو مینیجمنٹ اور ، اور ڈوئینگ کی گئ ہے جو اچھا عمل نہیں ہے - ججوں کی تقرری دنیا بھر میں حکومت ہی کرتی ہے اتنا تکلف کرنے کی ضرورت نہیں تھی یہ عمل عدلیہ کی کار کردگی پر حرف ضرور لا سکتی ہے لیکن ججوں کی آزادی میں حائل نہیں ہو سکتی کیونکہ فیصلہ ججوں نے کرنا ہے عدلیہ نے بطور ادارہ نہیں - جاب سیکیورٹی' لالچ اور حکومت یا کسی اور کا دباؤ قبول کرنے کے خوف سے بالا تر ہوکر رائے قائم کرنے والے ججوں کی آزادی پر کوئ فرق نہیں پڑ سکتا- جج اپنے آپ کو لالچ اور خوف سے بالا تر ہوکر کام کریں تو ملک میں انصاف کو کوئ خطرح نہیں - ججوں نے بھی انت مچائ تھی - ریاستی طاقت کا توازن ' قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کا اصول روند ڈالا تھا - یہ ترمیم اس کا رد عمل ہے - اس کی کوئ ضرورت نہیں تھی لیکن Justice in accordance with law and rule of law کی مسلسل خلاف ورزیوں کی وجہ سے ایسا ہی ہونا تھا اور اس کے بغیر اس عمل نے رکنا بھی نہیں تھا- اس کے لئے “بلا تمیز پر جنگ” کی ضرورت ہے -
جہاں تک اعلی عدلیہ میں ججوں کی تقرری کا معاملہ ہے یہ بھی جوڈیشل کونسل کا سبجیکٹ ہے لیکن اس کو وسیع کر کے اس میں پارلیمنٹیرئینز کی اکثریت کردی گئ ہے- دنیا بھر میں یہ اختیار حکومتوں کے پاس ہی ہوتا ہے کیونکہ عدلیہ حکومتی برانچ کی توسیع شدہ صورت ہے - انصاف کرنے کی بنیادی زمہ داری حکومت کی ہی ہوتی ہے اس کو یقینی بنانے کے لئے حکومت نے مقننہ کے زریعہ ایک آزاد اور خود مختار ادارہ بنایایا ہے جس میں تقرریوں کا اختیار حکومت کے پاس ہی رہتا ہے جو اس کو قانون / آئین کے زریعہ بدل بھی سکتی ہے - مجھے اس میں کوئ قباحت نظر نہیں آتی کیونکہ حکومت نے یہ اختیار مختلف مراحل میں تقسیم کر کے بہتر سے بہتر انتخاب کا راستہ ہموار کیا ہے - اصلاحات تو ہمیشہ سے ارتقائ عمل کا حصہ رہی ہیں اس کا راستہ ، عدلیہ یا بار کو نہیں روکنا چاھئے- بالخصوص جب سپریم کورٹ اور ہائ کورٹ کے ججز واضع طور سیاسی جماعتوں اورسیاست دانوں میں بٹے ہوئے ہیں - یہ ترمیم بھی ججوں کے طرز عمل کی وجہ سے ہوئ ہیں -
آزاد کشمیر کے کسی اخبار میں میری نظروں سے گذرا کہ پاکستانی آئین کی چھبسیسویں ترمیم کا اطلاق خو بخود آزاد کشمیر پہ ہوجاتا ہے ، ایسا نہیں ہے - آزاد کشمیر کا اپنا ایک آئین ہے اور یہ پاکستان کی فیڈریشن کا حصہ نہیں ہے تاہم یہاں کا نظام صوبوں اور چند ایک معاملہ کے بارے میں فیڈرل اداروں کے مماثل ہے جس میں بلخصوص اعلی عدلیہ شامل ہے - لیکن فیڈریشن میں نافذ ہونے والی آئینی ترمیم یا قانون خود بخود یہاں نافذ نہیں ہوجاتی جب تک کہ اس کو آزاد کشمیر کی اسمبلی یا انتظامی حکم کے زریعہ مشتہر نہ کیا جائے - تا ہم اگر آئین میں لکھا ہو کہ متعلقہ ادارے کے معاملات پاکستان میں اس کے ہم پلہ ادارے اور اس کے اہلکاران کے برابر ہونگے ، جو آزاد کشمیر کے آئین میں ہے ، وہ خود بخود نافذ ہوگا ، حکومت نے اس کو محض نو ٹیفائ کرنا ہے - اگر آزاد کشمیر کے آئین میں بھی اس کے بارے میں مغائر درج ہو تو اس کی ترمیم لازمی ہے - - بہر حال جو ادارے یا ادارہ اس طور استوار ہو اس کو جس طرح بھی آئینی ، قانونی یا انتظامی طور ممکن ہو کر دینا چاھئے کیونکہ ایک ملک کے اندر مماثل ترکیب والے ادارے یا اداروں کو ایک جیسا ہونا چاھئے - اس سلسلہ میں آزاد کشمیر کے آئین کی دسویں ترمیم تلخ تجربہ اور محنت شاقہ کی پیداوار ہے -
آزاد کشمیر کے آئین 1974 کی دفعات 42 اور 43 کی زیلی کلازز 9 میں بالترتیب سپریم کورٹ اور ہائ کورٹ کے ججز کے بارے میں درج ہے کہ “ ان کا معاوضہ اور ملازمت کی دیگر شرائط، تُخواہ، الاؤنسز ، مراعات اور پنشن وہی ہو نگی جو پاکستان سپریم کورٹ اور ہائ کورٹس کے چیف جسٹس اور ججز کو حاصل ہیں “-
جن شرائط کا آزاد کشمیر کے آئین میں بلصراحت اندراج ہے وہ تو وہی رہیں گی ، جو آزاد کشمیر آئین میں درج ہیں ، جیسے چیف جسٹس کی مدت ملازمت 65 سال مقرر ہے وہ آزاد کشمیر کے آئین کی ترمیم کے بغیر “ ، تین سال کا عہدہ “ نہیں ہوسکتی 65 سال ہی رہے گی تاوقتیکہ ایسی ترمیم نہ ہو اور یہ ترمیم کی جانی اس لئے نا گزیر ہے کہ دفعہ 42 ، 43 کے کلاز 9 اور شیڈول 4 اور 5 میں ایسا درج ہے وگرنہ یہ بے اثر ہوجائینگی ، علاوہ ازیں ایک ملک میں ایک ہی قسم کے عہدوں کے لئے دو متضاد نظام نہیں ہو سکتے ان کو مماثل بنانا آئینی تقاضا ہے - اس کا اخلاقی اور تجربہ پر مبنی وجہ یہ ہے کہ تین سال میں جس حد تک کوئ چیف جسٹس کام کر سکتا ہے اس سے زیادہ مدت میں اس کے پاس کوئ جدت نہیں رہتی ، دوسرے کو جدت پیدا کرنے کے لئے آگے آنا چاھئے - سب سے بڑی وجہ یہ ہے تین سال سے زیادہ مدت کھمنڈ پیدا کرتی ہے -
اعلی عدلیہ کے حاضر سروس یا ریٹائیر ڈ ججوں سے متعلق وہ ساری شرائط ، استحقاق ، مراعات اور رعائیت جن کا تزکرہ پاکستان کے آئین کی دفعات 207 - 260 میں موجود ہے یا وہاں رائج ہیں، لیکن آزاد کشمیر کے آئین میں نہیں یا رائج نہیں ، ان سب کا آزاد کشمیر میں درج بالا دفعات ، شیڈول اور پریکٹس کی روشنی میں اطلاق ہوتا ہے جیسے دوران سروس کوئ ایسا عہدہ قبول کرنا جس سے اضافی معاوضہ کا استحقاق پیدا ہوتا ہو، ریٹائر منٹ کے بعد آئین کے تحت درج عہدوں کے علاوہ کوئ عہدہ لینے سے ممانعت یا اس عدالت میں وکالت کرنا جس میں مستقل جج رہا ہو وغیرہ - دفعہ 260 کے تحت ایکٹنگ چیف جسٹس بھی چیف جسٹس کی تعریف میں شامل ہے اس سے جڑی کچھ مراعات میں یہاں کی “ ہم چوں من دیگرے نیست “ والے کم ظرف مانع ہوجاتے ہیں اور ہونی کو انہونی کرا دیتے ہیں -
اس کے ساتھ ہی جو ڈیشل سلیکشن کمیشن بھی بنا دینا چاھئے تاکہ آئین پاکستان کے جوڈیشل کمیشن کے مماثل اعلی عدلیہ میں تقرری کی سفارشات کرے جس میں اعلی عدلیہ کے ججز ، وکلاء اور حکومتی نمائندے بھی شامل ہوں تاکہ صدر آزاد کشمیر اور کشمیر کو نسل کے چئیر مین کی ملی بھگت سے چور دروازہ رک جائے- کچھ حلقوں کی جانب سے یہ شوشا بھی چھوڑا جارہا ہے کہ جج کی کاردگی جا نچنے کے لئے جو ڈیشل کمیشن پاکستان کے مماثل اسمبلی کی ایک جو ڈیشل کمیٹی بنائ جا رہی ہے جس کی سفارشات اسمبلی میں پیش کی جائینگی - و اللہ عالم ، لوگ اپنی خواہشات کو بھی خبر کا رنگ دے دیتے ہیں - اب ستائیسویں ترمیم کی بات بھی چل رہی ہے ، یا زندہ صحبت باقی -
واپس کریں