جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
اکتوبر 1947 کا مہینہ ریاست جموں و کشمیر کی قطع برید ، اس کے اندر سے پاکستان کے زیر انتظام ایک نئی ریاست کی تشکیل، ریاست کے رقبہ کا غالب اور خصوصی حصہ دوسرے ملک کے زیر ا نتظام ، دونوں ملکوں کی ساری ریاست پر دعویداری ، دونوں حصوں کا ان ملکوں سے الحاق ، شورش، قتل و غارت کی خون آشام واقعات سے بھر ا پڑا ہے۔سال 1947 کے ماہ اگست میں ہندوستان کی تقسیم کے وقت بر طانوی ہند کے ہندوستانی شاہی ریاستوں کے ساتھ تمام معاہدے ختم کر کے مقامی راجوں مہاراجوں کو سوائے بر طانوی ہند کے ساتھ تعلق کے باقی زمہ دار یا ختم اور اختیارات ختم کردئے اور ریاستوں کو آزاد قرار دیا جو دو ملکوں میں سے کسی ایک کے ساتھ تقسیم کے اصولوں کے مطابق الحاق کرنے کے لئے آزاد ہوگئیں لیکن کوئ بھی الک ملک کے طور آزادی کا حق نہیں رکھ سکتی - قانون تقسیم ہند سال 1947 کےاصولوں کے مطابق تین ریاستوں کا ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی ایک ملک کے ساتھ قانونی ا لحاق کا فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے ، نو آزاد شدہ ممالک بھارت اور پاکستان میں جنگ کی کیفیت پیدا ہوگئ -تقسیم ہند کے قانون کے تحت مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے اصولوں کے مطابق ہندو اکثیریت ریاستوں نے ہندوستان اور مسلم اکثریتی ریاستیں پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کا حق اور ذمہ دار تھیں۔ یہ اختیاران ریاستوں کے حکمرانوں کو اس شرط کے ساتھ دیا گیا تھا کہ ان ملکوں کے ساتھ منسلک ہونے والی ریاستیں اپنی آبادی کی اکثریت کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے متعلقہ مذہب کے ملک سے الحاق کر سکتی تھیں۔
براہ راست بر طانوی ہند والی ریاستوں کی تقسیم تو اس قانون کے تحت ہی کی گئی لیکن نیم خود مختار اور خود مختار ریاستیں اور راجواڑے یہ الحاق کرنے کا خود ہی مجاز تھے۔ گو کہ اس سلسلہ میں کانگرس اور مسلم لیگ کا سیاسی موقف متضاد تھا - کانگرس کا موقف یہ تھا کہ الحاق کا فیصلہ اس ریاست کے عوام کریں گے جبکہ مسلم لیگ کا موقف یہ تھا کہ اس کا فیصلہ متعلقہ حکمران کریں گے۔ میرے خیال میں کانگرس کا موقف صیح تھا کیونکہ ریاستوں کے مالک عوام ہی تھے لیکن قانون میں مسلم لیگ کے موقف کے مطابق یہ اختیار رولر کو دیا گیا تھا۔ کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں کے زریعہ یہ حق عوام کو ہی دیا گیا -اس حق کا استعمال کرتے ہوئے جونا گڑھ جو ہندو اکثیریت کی ریاست تھی لیکن اس کا حکمران مسلمان تھا نے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا جو پاکستان نے قبول بھی کر لیا حالانکہ اس کی سرحد اور آبادی کی اکثریت کسی طور سے پاکستان سے نہیں ملتی تھی جبکہ دوسری ہندو اکثریت لیکن مسلم اکثریت کی ریاست حیدرآباد کے نواب پاکستان سے الحاق کے خواہشمند تھے لیکن اس نے مصلحتآ آزاد راور خودمختار رہنے کا فیصلہ کیا لیکن ہندوستان نے دونوں ریاستوں کے حکمرانوں کا فیصلہ نہ مانتے ہوئے ان پر فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا -
ریاست جموں و کشمیر جو ہندو حکمران کے زیر تسلط مسلم اکثریت ریاست تھی اس کے ہندو حکمران ہری سنگھ نے مسلمہ قانونی اصولوں کے مغائر ریاست کا الحاق نہ پاکستان کے ساتھ کیا اور نہ ہی اس طرف کوئ عندیہ دیا اور بالآخر الحاق بھی ہندوستان سے کر دیا حالانکہ ہندوستان کے ساتھ اس وقت ریاست کا کوئی حصہ منسلک نہیں تھا - ریاست کا ہر کوئی راستہ پاکستان کے علاقوں سے ہو کر جاتا تھا۔مہاراجہ کشمیر کے اس ادا کو بھانپتے ہوئے ریاست کی مسلم جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے 19 جولائ 1947 کو پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے قرار داد پاس کی - چونکہ قانون آزادئ ہند کے تحت ریاستیں آزاد قرار دی گئیں تھیں البتہ مہاراجہ کشمیر نے فوج کے زریعہ اس پر قبضہ جاری رکھا تھا ، اس لئے اکتوبر میں ریاست کی مسلم آبادی پر مشتعمل ریٹائیرڈ فوجیوں نے ڈوگرہ فوجوں کے خلاف ریاست کو آزاد کرانے کے لئے جہاد کرنے کا اعلان کر دیا- ان کے ساتھ مقامی لوگ اور صوبہ سرحد کے قبائل بھی شامل ہوئے جنہوں نے 22 اکتوبر کو براستہ مظفرآباد ، پونچھ اور میرپور مہاراجہ کی فوجوں کے خلاف علاقہ خالی کرانے کے لئے جنگ شروع کر دی۔ آزاد کشمیر کا موجودہ علاقہ اور گلگت بلتستان کا بیشتر علاقہ مہاراجہ کی فوجوں سے آزاد کرا لیا گیا اور اس پر سال 24 اکتوبر سال 1947 کو سردار محمد ابراہیم خان مرحوم کی قیادت میں ریاست بھر کی ایک آزاد اور خود مختار نمائندہ حکومت قائم کی گئی گوکہ 5 اکتوبر کو بھی ایک آزاد اور خود مختار ریاست کی بنیاد ڈالی گئ تھی لیکن زمین پر صرف 24 اکتوبر کی ہی حکومت جانی پہچانی جاتی ہے ، 5 اکتوبر کی آزاد حکومت کا تزکرہ صرف کتابوں میں ہے - آزاد کشمیر کے لوگ ہر سال یوم تاسیس سرکاری طور مناتے ہیں - چونکہ قانون کے تحت ریاست اس معاہدے کے ختم ہونے کی وجہ سے آزاد ہو چکی تھی جس کے تحت یہ مہاراجہ کو دی گئ تھی اس لئے یہ قانی طور آزاد تھی لیکن مہاراجہ کی فوج اس پر قابض تھی -
آزاد حکومت کے قیام اور جہاد روان رہنے کے رد عمل میں اس خوف سے کہ مجاہدین ساری ریاست پر قبضہ نہ کرلیں ، مہاراجہ کشمیر کرن سنگھ نے 26 اکتوبر کو ریاست کا الحاق ہندوستان کے ساتھ کر دیا اور 27 اکتوبر کو ہندوستان کی فوجیں باضابطہ طور پر سرینگر اور ریاست کے باقی حصوں میں داخل ہو گئیں جو مہاراجہ کی فوجوں کے قبضے میں تھے، گوکہ مہاراجہ کی مدد کیلئے اس سے پہلے ہی پنجاب کی ان سکھ ریاستوں کے دستے کشمیر میں داخل ہو گئےتھے جنہوں نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیا تھا، اس طرح ان کی فوجیں براہ راست ہندوستانی فوجوں کا حصہ تھیں۔ آزاد کشمیر کی کچھ قوم پرست تنظیموں کا یہ نظریہ کہ قبائلی حملہ کی وجہ سے مہاراجہ کشمیر نے ہندوستان سے الحاق کیا تاریخی اور آئینی حقائق کے خلاف ہے کیونکہ خود ہندوستان کی فوج کے جنرلز نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ جب وہ سرینگر ہوائی اڈہ پر اتریں تو وہ پٹیالہ کی فوج کو وہاں دیکھ کر حیران ہو گئے۔ اس کے علاوہ مہاراجہ کی مدد کے لئے پنجاب کی ہندو ریاستوں کے دستے ہندو مہاراجہ کشمیر کی مدد کیلئے جموں میں داخل ہو گئے تھے۔ آزاد کشمیر کی حدود کی طرف سے قبائل کا مقامی مسلم آبادی کی مدد کیلئے ریاست میں داخل ہونا در اصل اس کا رد عمل تھا جو ہندو اور سکھ ریاستوں کے لوگوں نے ہندو مہاراجہ کی مدد کے لئے کیا تھا -
اس کے بعد ریاست کے دونوں حصوں میں ہندومسلم فساد پھیل گئے جن میں آزاد کشمیر کے حدود میں ہندو اور سکھ جب کہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی بے دریغ قتل و غارت ہوا- اس کی انتہا نومبر 1947ء میں اس وقت ہوئی جب مہاراجہ کشمیر نے سرکاری سطح پر ایک منظم سکیم کے تحت قتل و غارت شروع کرائی جس میں جموں کے لاکھوں بے گناہ مسلمان شہید ہوئے۔ تاہم وادئی کشمیر میں مقامی قیادت وہاں موجود ہونے کی وجہ سے ایسا نہیں کر سکے جبکہ جموں کی مسلم قیادت پاکستان ہجرت کرنے کی وجہ سے عام لوگ کسی بھی طرح کی سیاسی قیادت سے محروم تھے جس وجہ سے بلوائیوں کو جموں میں فسادات قتل و غارت کیلئے کھلا میدان مل گیا۔ 1948 سے ہندوستان کی درخواست پر ہی کشمیر کی ریاست کے ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کے باوجود ابھی تک ریاست کے لوگ اپنے سیاسی مستقبل کے حوالہ سے معلق ہیں - مہاراجہ کشمیر نے ہندوستان کے ساتھ 26 اکتوبر کو جن امور پر الحاق کیا تھا ان میں صرف دفاع، خارجہ ، مواصلات اور کرنسی تھے جن کے تحفظ کیلئے ہندوستانی آئین نے ا پنے آئین کی دفعہ 370 کے تحت ضمانت بھی دی تھی لیکن 5 اگست 2019 کو ہندوستان نے اسی آئینی ضمانت کو منسوخ کر کے پورا ہندوستانی آئین نافذ کر کے ریاستی آئین منسوخ کر دیا، ریاست کا ریاستی درجہ کم کر کے اس کو مرکز کے زیر انتظام (Union territories)دو حصوں ( جموں و کشمیر اور لداخ) میں تقسیم کر کے اس کی اسمبلی کو تحلیل کر دیا جس کے اندر پانچ سال کے بعد اکتو بر 2024 میں جموں کشمیر کی یونین ٹریٹری میں الیکشن کروائے جن میں اندر ونی خود مختاری کی دعویدار نیشنل کانفرنس نے اکثریت حاصل کر کے مرکزی کانگرس پارٹی کے اتحاد سے اپنی حکومت بنائی۔ یہ عمل دراصل ہندوستانی بی جے پی کی حکومت کے خلا ف ریاست کو تحلیل کرنے کا رد عمل ہے کہ ریاست کے لوگ ہندوستانی آئین کو تسلیم نہیں کرتے۔نہ ہی ہندوستان کے ساتھ رہنے کو -
ادھر ریاست کے آزاد حصو ں کی صورت حال آئینی طور یکسر مختلف لیکن عملی طور باقی پاکستانی صوبوں جیسی ہے جنہوں نے بھی پاکستان کے ساتھ کراچی معاہدے کے تحت ان ہی خطوط پر الحاق کیا ہے جن پر مہاراجہ کشمیر نے ہندوستان کے ساتھ کیا ہے - لیکن اس الحاق نامہ پر عمل نہیں ہوا ہے - یہاں کا نظام ان ہی خطوط پر چلایا جا رہا ہے جو باقی صوبوں یں رائج ہے تا ہم یہ حکومت پاکستان کی جانب سے ہی دیےگئے آئین سال1974 کے تحت چلایا جا رہا ہے جہاں فیڈرل لسٹ کے جملہ امور پر قانون سازی 1950 سے بتدریج آج تک اور ان پر عملدرآمد کا اختیار بھی حکومت پاکستان کے پاس ہے لیکن ان پر پالیسی سازی ، فیصلہ سازی قانون سازی اور نفاذ کا اآزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ یہاں بھی گلگت بلتستان کے علاقے کے لوگ عملی طور مرکز کے زیر انتظام ایک لیگل فریم ورک کے تحٹ 1947 سے ہی جڑے آ رہے ہیں۔ تا ہم وہاں ہندوستانی زیر انتطام علاقوں کے بر عکس ان علاقوں پر اس الحاق نامہ پر آج تک حکومت پاکستان کی جانب سے عمل درآمد نہیں ہوا۔
پاکستان اور ہندوستان کے درمیان یکم جنوری 1949 کو جنگ بندی معاہدے کے بعد حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومت اور سیاسی قیادت کے درمیان بھی معروف معائدہ کراچی اپریل سال 1949 میں عمل میں آیا جس کے تحت ریاست کی علامتی آزا د ی کے برعکس چار نکات پر بغیر “ الحاق نامہ “ لکھے “الحاق “ کر لیا جس کے تحت آزاد کشمیر کی حکومت نےشمالی علاقہ جات (گلگت بلتستان) کا نظم و نسق حکومت پاکستان کے سپرد کر د یا ، جس طرح اب ہندوستان نے بھی لداخ کو اپنے زیر انتظام لے لیا ہے - جبکہ آزاد کشمیر کی حد تک صرف دفاع۔ خارجہ۔ مواصلات اور سلامتی کونسل کے امور حکومت پاکستان کے سپردکر دئے گئے جو اب بڑھتے بڑھتے صوبوں کی طرز پر پاکستانی آئین کی فیڈرل لسٹ کے تقریباً سارے معاملات حکومت پاکستان کے پاس ہیں جس طرح مقبوضہ کشمیر پہ ہندوستان کی یو نئین لسٹ نا فذ ہے - اس کے باوجود ان علاقوں کو آزاد اور خود مختار کے طور پیش اور بیان کی جاتا ہےہے- گلگت بلتستان کے راجوں اور حکمرانوں نے بھی الگ الگ الحاق ناموں کے ذریعہ اپنے زیر حکمرانی علاقوں کا پاکستان کے ساتھ تحریری طور الحاق کیا ہے جن میں سے گلگت و بلتستان کے لوگوں نے یکم نومبر1947' گورنر یاسین راجہ میر محبوب علی خان 23 ذوالح 1366 ہجری کو، گورنر یونیال راجہ محمد انور کان نے 4 نومبر1947 کو، جبکہ ہنزہ نے بھی 3 نومبر 1947 کو اور والیے نگر نے بھی نومبر1947 کو کیا۔
حکومت پاکستان کو ریاست کے ان آزاد حصوں کو ایک ساتھ یا الگ الگ ریاست جموں و کشمیر کے سلامتی کونسل کی قراردادوں اور الحاق ناموں کی روح کی روشنی میں کم از کم ان امور کی حد تک پاکستان کے آئین میں شامل کرنا چاہیئے جن پر حکومت پاکستان بالواسطہ اور بلا واسطہ اختیارات استعمال کر رہی ہے تا کہ ان اختیارات کے استعمال کے حوالہ سے پالیسی سازی فیصلہ سازی، قانون سازی اور ان امور پر عملدرآمد میں ان علاقوں کے نمائندے بھی اسی طرح شامل ہوں جس طرح پاکستان کے باقی انتظامی یونٹ کے نمائندے شامل ہیں۔ آزاد کشمیر کے لیڈروں کی کا سمیٹک یکجہتی اور “ کشمیر بنے گا پاکستان” دھوکہ دہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے - آزاد کشمیر میں گذشتہ ہمہ گیر عوامی تحریک کی جڑیں بھی اس آئینی تعلق کے فقدان میں ہیں جس کی عدم موجودگی میں اس کو آزاد اور خود مختار کہا جاتا ہے اور اس مفروضے کی بنیاد پر لوگ زمین پر بھی آزادی اور خود مختاری کے ثمرات وصول کرنے کے لئے اکٹھے کئے گئے جس کی وجہ سے سوائے بجلی کے ساری رعایتیں حاصل کیں جو بنیادی طور کسی شہری کا حق نہیں لیکن رعایت ضرور ہے- بجلی کے معاملات پاکستان کے آئین کے تحت منظبط ہیں لیکن باقی صوبوں کی طرح ان کو ریگولیٹ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ پاکستان کے آئین کے تحت پاکستان کا صوبہ نہیں ہیں- یہ بہت بڑا جمہوری اور آئینی خلاء ہے ( Democratic and constitutional Deficit) پاکستان اور اس کے زیر انتظام ریاست کے علاقوں کا آئینی اور تاریخی ارتقاء ایک آئینی عمل ہے اس کی تکمیل پاکستان کے وسیع تر انتظامی اور سیکورٹی معاملات کے لیئے ناگزیرہے ۔ ستہتر سال میں اس عمل کو اس مفروضے پر ٹالا جارہا ہے کہ جب سارا کشمیر آزاد ہوگا پھر الحاق ہوگا ، اگر بکآخر الحاق ہی ہونا ہے تو “ یکے را بگیر دیگر را دعویٰ کن “ والا اصولاپنائیں - ان خطوں کو اس حالت میں چھوڑنے سے ان کوGrey کے طور area
مہم جوئی کی آماج گاہ بنا رہے ہیں اس حقیقت کا خطے اور دنیا کے زمینی حقائق کی روشنی میں ا دراک کیا جائے -
واپس کریں