جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
جسٹس (ر) سید منظور حسین گیلانی
کافی عرصہ سے قومی میڈیا میں اعلی عدلیہ میں ججوں کی تقرری اور ریٹائرمنٹ کے طریقہ کار میں اصلاحات سے متعلق بحث چل رہی ہے جس کی تصدیق پاکستان کے وزیر قانون نذیر تارڑ صاحب نے بھی ایک ٹی وی پروگرام میں کی - قانون سازی کے لئے مقننہ کے بعد اس کے بنائے ہوئے قانون کو معنی پہناننا اور تعبیر و تشریح کر کے اس پر ملکی قانون کے طور عمل کرنا ہر مہذب ریاست کے اداروں کی زمہ داری ہے اور یہ رائے قانون کا حصہ بن جاتی ہے ، عدالتی نظائر کو اسی لئے تقدم حاصل ہے -سوچ سمجھ کر ایک رائے قائم کر کے ، اس پر عمل کرنا عدالتوں کی بھی زمہ داری بن جاتی ہے- ہر بڑے بنچ کی رائے پر عمل کرنا اس سے چھوٹے بنچ کی زمہ داری ہوتی ہے - اگر حالات اور واقعات بدلنے کی وجہ سے کسی رائے کو تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو پہلی رائے کو صرف بڑا بنچ ہی واضع دلائل کے بعد بدل سکتا ہے تاکہ ماتحت عدالتیں اور انتظامیہ ایک واضع سمت پر چلیں- مضبوط اور مستحکم جمہوری اور عدالتی نظام میں آئینی عدالت غیر معمولی حالات اور واقعات کی صورت میں ہی رائے بدلتی ہے - امریکی سپریم کورٹ کی سینکڑوں سال کی تاریخ میں صرف چند ایک کیسز میں پہلی رائے کو بڑے رد و کد کے بعد بدلا گیا ہے -
عدلیہ سے متعلق اصلاحات آئین یا قانون کے تحت ہی کی جا سکتی ہیں ، چیف جسٹس/ عدلیہ آئین اور قانون کے تحت ان اصلاحات پر عمل در آمد کی پالیسی بنا سکتے ہیں ، اصلاحات نہیں کرسکتے - بد قسمتی سے لیڈر شپ کے بحران ، پارلیمان کی عدم فعالیت اور ملک میں گنجلک نظم و نسق کی وجہ سے قانون پر عمل در آمد کرنے کے پابند ادارے لیڈر شپ کا رول اور آئین و قانون پر بالادستی قائم کررہے ہیں جس وجہ سے ریاست ہر شعبہ میں کمزور اور قانون پر عملدرآمد کرنے والے ادارے زور زبردستی سے اپنی بات منوا رہے ہیں، حتی کہ ان کی مرضی کا جج دو گھنٹے میں مقرر نہ کرنے کی صورت میں یر عظم کے خاف توہین عدالت کی کاروائ کی دھمکی بھی دی جا تی رہی - اس سے بڑا آئینی یحران اور لاقانونیت اور کیا ہو سکتی ہے - ان غلط کاریوں کی سزا حکومت اور ریاست بھگت رہی ہے- اس کی تفصیل کسی اور مقام اور وقت پر ضبط تحریر میں لائ جائے گی -
عدلیہ کسی گھر کے اس سربراہ کی حیثیت رکھتی ہے جس کے پاس نہ تلوار ہوتی ہے نہ خزانہ لیکن اس کی اخلاقی حیثیت اور dignity اس کے احکامات کو طاقت بخشتی ہے ، جو زوال پذیر ہو ری ہے -
اس وقت ججز اور چیف جسٹس کی تقرری اور ریٹائر منٹ کے معاملات زیر بحث ہیں ، میں اپنے تجربے اور بر صغیر میں کامیابی سے چلنے والے نظام کی روشنی میں اس رائے کا قائل ہوں کہ عدلیہ ریاستی حکومت کی ہی ایکسٹنشن ہوتی ہے اس لئے اعلی عدلیہ میں تقرری کا حتمی اختیار اعلیٰ عدلیہ کے collegium کی مشاورت سے حکومت کے پاس ہی ہوتا ہے اور رہنا بھی چاھئے ، اس میں عدلیہ کی بالا دستی کا عنصر کسی طور نہیں ہونا چاھئے - یہ انتظامی فیصلہ ہے اس کا حتمی اختیار انتظامیہ کے سربراہ کے پاس ہی رہنا چاھئے جو پارلیمنٹ اور عوام کے پاس جواب دہ ، عدلیہ کہیں جواب دہ نہیں - عدلیہ توہین عدالت کے دباؤ میں کمزور پارلیمنٹ کی کمزور حکومت کو اپنی مرضی اور صوابدید کے ججز کی تقرری کرانے پر مجبور کرے تو اس کا نزلہ ریاست کی ناکامی کی طرف جاتا ہے - انتظامی معاملات میں بدوں جواب دہی عدلیہ میں تقرری کرنا دنیا کے کسی کونے میں نہیں ہوتا اور پاکستان کے علاوہ کوئ عدلیہ نہ ایسا کرتی ہے اور نہ ہی خواہش رکھتی ہے -
جہاں تک ججوں کی ریٹائیرمنٹ کی عمر کا تعلق ہے یہ کسی صورت میں 65 سال سے زیادہ نہیں ہونا چاھئے اور ججز کی تقرری ایسی عمر کے دورانیہ میں ہونا چاھئے جب وہ ہائ کورٹ میں کم از کم پانچ سال اور زیادہ سے زیادہ دس سال جج رہے - زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججز کی ریٹائیر منٹ کی عمر سپریم کورٹ کے جج کےبرابر کردی جائے کیونکہ دونوں کے کام کی آئینی نوعیت ایک جیسی ہوتی ہے - جہاں تک چیف جسٹس کے عہدے پر تقرری اور اس سے ریٹائیرمنٹ کا تعلق ہے ، یہ تقرری صرف اور صرف سینیارٹی کی بنیاد پر ہونا چاھئے، کیونکہ بوجہ سینیارٹی اس کو ادارے کی بہت ساری مشکلات اور کار کردگی کا زیادہ بہتر ادراک ہوتا ہے اور باقی ججز سے سینئیر ہونے کی وجہ اس کو انتظامی سربراہ بننے کے لئے سبقت حاصل رہنا چاھئے جس میں ادارے کی پالیسیوں کا تسلسل بہتر نتائج پیدا کرے گا - ہاں چیف جسٹس کے عہدے کی معیاد تین سال یا 65 سال کی عمر تک مقرر ہو ( جو بھی اس سے پہلے وقوع پذیر ہو ) مقرر کرنا مناسب عمل ہے تاکہ اس کے بعد آنے والے اسی کے ساتھی اپنی علمیت، اہلیت ، تجبربے اور دانست سے ادارے کو فائیدہ پہنچا سکے- ایسی صورت میں اگر اس کی ریٹائیرمنٹ کی عمر کی حد باقی ہو ، اس صورت میں اس کی صوابدید ہے کہ وہ بطور سینئیر جج کے طور سروس جاری رکھے یا ریٹائیرمنٹ لے لے -
عدلیہ کے توہین عدالت کے اختیارات کو دنیا کے مہذ ب ممالک سے ہم آھنگ کیا جانا لازم ہے جس کا بہت غلط استعمال ہورہا ہے -اس اختیار کی جائز حد عدالت کی تحریری حکم کی خلاف ورزی اور عدالت کی کاروائ کے دوران رکاوٹ ڈالنے تک محدود کی جانا چاھئے - عدلیہ کے اندر سے تقرری کے لئے عدلیہ کی مجموعی سروس کم از کم پندرہ سال ہونا چاھئے جس میں سے کم از کم پانچ سال بطور ڈسٹرکٹ اینڈ سشن جج یا اس کے ہم پلہ عہدہ کی سروس کا ہونا لازمی ہونا چاھئے - اگر بار اور ما تحت عدلیہ میں تقرری کا تناسب 50% فیصد کر دیا جائے تو زیادہ مناسب ہوگا - وکلاء میں سے تقرری کے لئے وکیل کے لکھنے ، پڑھنے ، صاحب کتاب اور قلم ہونے کو ترجیح دیا جانا لازم قرار دیا جائے - اس وقت پاکستان کے آئین میں جو ڈیشل کمیشن / سلیکشن بورڈ کا طریقہ کار مناسب ہے - اگر ہائ کورٹ کے جج کے امیدوار کے ساتھ یہ بورڈ ایک نشست کر لے تو اور زیادہ مناسب ہوگا ، جس سے اس کی شخصیت ، اعتماد اور انصاف کے رجحان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے - کسی زمانے میں سربراہ حکومت اس منصب پر تقرری کے لئے متوقع امیدوار کو اپنے دستر خوان پر کھانے کے لئے بلا کر اس کی شخصیت اور عدل پروری کا اندازہ لگا تا تھا - عام لوگوں کے ساتھ بٹھانے اور طعام و کلام سے اس کی شخصیت کا اندازہ لگاتا تھا - کسی کو علم نہیں ہوا کرتا تھا کون اس ٹیسٹ سے گذر رہا ہے -
مجھے ایک دفعہ آزاد کشمیر کے ایک زیرک صدر نے ایک ساتھی جج کے بارے میں کہا “ اس کو کھانے پینے کے آداب سکھایا کرو ، جو کھانے پینے میں انصاف کا مظاہرہ نہ کرتا ہو اس سے انصاف کی توقع نہیں ہو سکتی-“
ہائ کورٹ کے ججز کا صوبوں کے مابین تبادلہ ہونا چاھئے اس طرح اعلی عدلیہ میں براہ راست مقرر ہونے والے مقامی وابستگیوں ، سماجی ، اور خاندانی دباؤ اور دلچسپیوں سے بالا تر ہونگے وگرنہ زہن کے کسی گوشے سے دلچسپی ، تعلق اثر اور اپنے ہی صوبے میں مقید رہ کر ملک بھر کی خدمت نہیں کر سکتے- ہندوستان میں ایک صوبے کے اندر دو تہائی ججز اور چیف جسٹس عمومآ دوسرے صوبے سے ہوتے ہیں اس لئے پاکستان کے مقابلے میں ہندوستانی لوگ عدلیہ پر زیادہ بھروسہ کرتے ہیں - ہائ کورٹ میں نئے تعینات ہونے والے ججز کی کم از کم ان کے دوسرے صوبوں میں ہم منصب ججوں ، آئئین اور قانون کے مختلف شعبوں ، ملکی الیکشن، بیروکریسی ، ٹیکس ، ٹیکنالجی ، بین الاقومی تعلقات ، سفارت کاروں اور قلمکاروں ، ڈاکٹرز، ماہر نفسیات کرمنالجی اور تعلیم کے ماہرین کے ساتھ سیمنارس ، راؤنڈ ٹیبل کانفرنسز کے ساتھ تامل ( interaction ) سے وسعت نظر کے علاوہ فیصلوں میں بالغ نظری پیدا ہوتی ہے - اس کا اھتمام لازمی ہے - صرف وکالت اور ماتحت عدالتوں کے جج رہنے سے انصاف کرنے کا آئینی رویہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں کے ماہرین ہی نہیں، محتاجوں اور مسکینوں کے تجربے سے اکتساب علم سے آئین کی ہم رنگ زمین تشریح کرنے کا ادراک حاصل ہوتا ہے -
واپس کریں