قیام پاکستان،قائد اعظم کی قیادت میں عوامی جدوجہد کا سیاسی کارنامہ
اطہرمسعود وانی
اطہر مسعود وانی
14اگست2024کو مملکت پاکستان کا 77واں یوم آزادی جوش و جذبے اور عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔جو لوگ پاکستان کے وجود کے 77سال کے ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے تقریبا ایک سو سال کے حالات و واقعا ت سے آگا ہ ہیں، وہ تمام تر خرابیوں، کوتاہیوں کے باوجود پاکستان کے وجود کی اہمیت و افادیت کا ادراک رکھتے ہیں۔1857 کی فیصلہ کن لڑائیوں کے بعد جب غیر منقسم ہندوستان پہ برٹش حکومت کا اقتدار قائم ہوا تو ہندوستان میں رہنے والے مسلمان برٹش حکومت کا پہلا نشانہ بنے جبکہ اکثریتی آبادی پر مشتمل ہندوئوں نے بدلتے وقت کے مطابق خود کو نئی حکومت کی تابعداری میں ڈھال دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان برٹش حکومت کی نفرت میں تعلیم سے دور ہوتے گئے اور ہندوئوں نے انگریز حکومت کے نظام تعلیم کو اپنا لیا۔
اسی دور میں سرسید احمد خان نے یہ جان لیا کہ جدید تعلیم کے حصول کے بغیر مسلمان پسماندگی اور تباہی کا شکار رہیں گے ، اسی لئے انہوں نے مسلمانوں کو جدید تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی۔ سرسید نے پہلے علی گڑھ میں سکول اور پھر کالج قائم کیا جس نے آگے چل کر یونیورسٹی کا درجہ حاصل کر لیا۔ یہی علی گڑھ کالج تھا جہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے مسلمانوں میں بڑی تعداد نے مسلمانوں کی سیاسی لام بندی اور سیاسی پلیٹ فارم قائم کرنے کے لئے نمایاں کردار ادا کیا۔ صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ علی گڑھ سے تعلیم حاصل کرنے والے ریاست جموںو کشمیر کے مسلمان نوجوانوں نے ریاست جموں وکشمیر میں اکثریتی لیکن حقوق سے محروم مظلوم مسلمانوں کی رہنمائی کرتے ہوئے سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا اور ریاست جموں وکشمیر میں پہلی مسلم سیاسی جماعت کا قیام عمل میں لایا۔
انگریزوں نے اپنی حکمرانی میں اپنے مفادات کے حصول کے ساتھ ساتھ فقط ہندوئوں کو ہی رعایا تصور کرتے ہوئے ان کی ترقی، بہبود پر بھی توجہ دی اور اسی حوالے سے انہوں نے انڈین کانگریس قائم کراتے ہوئے مقامی آبادی کی سیاسی تربیت کے کام کا آغاز کیا۔ کہنے کو یہ عمل مقامی آبادی کے لئے تھا لیکن ہندوستان کی غالب اکثریت کے طور پر اس عمل سے ہندوئوں کو ہی فائدہ پہنچا۔ اس میں ہندوئوں کی مسلمانوں سے نفرت اور تعصب بھی کارفرما تھا جس سے ہندورہنما ظاہری طورپر انکار کرتے تھے لیکن عملا ان کی پالیسیاں اور حکمت عملی مسلمانوں کے خلاف ہی ثابت ہوتی رہیں۔ ابتدائی طور پر مسلمان بھی کانگریس میں شامل ہوئے لیکن چند ہی سال کے تجربے سے ان پہ یہ حقیقت ظاہر ہو گئی کہ انڈین کانگریس صرف ہندوئوں کے مفادات کے لئے ہی کام کر رہی ہے اور مسلمانوں کو صرف نظر انداز ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کونقصان پہنچانے والے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔اس صورتحال میں مسلمانوں کے لئے الگ سیاسی جماعت کے قیام کی ضرورت اور سوچ نمایاں ہوتی گئی اور بعد ازاں مسلم لیگ کا قیام عمل میں لایا گیا۔سالہا سال کی جدوجہد اور کوششوں سے مسلم لیگ میں نمایاں مسلم شخصیات شامل ہوتی گئیں اور مسلم لیگ مضبوط ہوتی گئی۔لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود مسلم لیگ انڈین کانگریس کے مقابلے میں کمزور اور ناکافی ثابت ہوئی کیونکہ مسلم لیگ میں مضبوط علاقائی رہنما تو کئی تھے لیکن ایسی کوئی مرکزی قیادت موجود نہ تھی جو مسلم لیگ کو انڈین کانگریس کے لئے چیلنج کے طور پر مضبوط اور نمایاں کر سکے۔
کانگریس کے مسلم مخالف کردار اور مسلمانوں کے انتشار کی صورتحال میں غیر معمولی قابلیت اور صلاحیتوں کے مالک محمد علی جناح مایوسی کے عالم میں انگلستان جا بسے۔ انڈین کانگریس اپنی منافقانہ حکمت عملی سے خود کو ہندوستان کے تمام مذاہب کی نمائندہ سیاسی جماعت کے طور پر پیش کرتی رہی لیکن عملی طور پر کانگریس ہندو ئوں کی مفاد اور مسلمانوں کو ہر عنوان سے نظر انداز کرتے ہوئے نقصان پہنچانے پر مبنی اقدامات میں محدود رہی۔یہی وہ وقت تھا کہ جب درد دل ر کھنے والے مسلمان رہنمائوں نے محسوس کیا کہ مسلم لیگ کو ایک ایسے مرکزی رہنما کی ضرورت ہے جو ہندوئوں کی منافقانہ اور انگریزوں کی سازشی سیاست کا مقابلہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو امید کی ایک روشنی دکھا سکے۔ علامہ اقبال اور چند دوسری مسلم شخصیات نے محمد علی جناح پر زور دیا کہ وہ انگلستان سے واپس آ کر بے چارگی اور مظلومیت کے شکار مسلمانوں کی قیادت کریں۔ آخر محمد علی جناح قائل ہو گئے اور انہوں نے واپس ہندوستان آ کر مسلم لیگ کی قیادت سنبھال لی۔محمد علی جناح کی قیادت میں مسلم لیگ تیزی سے مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرتی گئی اور ان کی قیادت نے ہندورہنمائوں کی مکارانہ اور انگریزوں کی عیارانہ سیاست کا بھر پور مقابلہ کیا۔اسی صورتحال میں محمد علی جناح کو مسلم عوام کی طرف سے قائد اعظم کو خطاب دیا گیا جو محمد علی جناح کے نام کا حصہ بن گیا اور محمد علی جناح کو قائد اعظم کہا اور لکھا جانے لگا۔
قیام پاکستان کی ضرورت اس وقت نمایاں ہوئی کہ جب1935میں کانگریس کی حکومت میں مسلمانو ں کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں ہر شعبے میں شدید نقصان پہنچانے والی پالیسیاں لاگو کی گئیں۔اس کے چند ہی سال بعد لاہور میں22سے24مارچ کو آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ کنونشن میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ ریاست کے قیام کے لئے قرار داد منظور کی گئی جسے قرار داد لاہور کہا گیااور بعد ازاں اسے قرار داد پاکستان کا نام حاصل ہوا۔اس قرار داد میں کہا گیا کہ
'' آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ اجلاس ، آئینی مسائل پر 27 اگست ، 17 اور 18 ستمبر اور 22 اکتوبر 1939 اور 3 فروری 1940 کی قراردادوں کی روشنی میں یہ مطالبہ کرتا ہے کہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 میں شامل وفاق کی تجویز ، اس ملک کے مخصوص حالات میں مکمل طور پر نامناسب اور ناقابل عمل ہے۔کوئی بھی آئینی منصوبہ اس ملک میں قابل عمل یا مسلمانوں کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا کہ جب تک جغرافیائی طور پر متصل اکائیوں کی حد بندی نہ کی جائے۔ ان خطوں میں جہاں مسلمان عددی طور پر اکثریت میں ہیں ، جیسا کہ ہندوستان کے شمال مغربی اور مشرقی علاقوں میں، ان کو "آزاد ریاستوں" کی شکل دی جائے جن میں تمام اکائیاں آزاد اور خود مختار ہوں۔آئین میں مسلم اکائیوں اور خطوں میں غیرمسلم اقلیتوں اور دیگر علاقوں کے مسلم اقلیتوں کے مذہبی، ثقافتی، اقتصادی، سیاسی، انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے باہمی مشاورت سے مناسب اور موثر اقدامات کی ضمانت دی جائے۔آئین میں یہ گنجائش رکھی جائے کہ مسلم خطے ، دفاع، خارجی امور، رسل و رسائل پر عملدرآمد اور دوسرے ضروری امور کے اختیارات پر بھی قابض ہو سکیں''۔
قرار داد لاہور سے برٹش انڈیا کے مسلمانوں کے لئے ایک منزل کا تعین ہو گیا جس سے مسلمانوں میں جوش وجذبہ اور عزم نمایاں ہوا۔قائد اعظم محمد علی جناح کی ہر فخر قیادت میں مسلمان تیزی سے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر متحد ہونے لگے ۔ 19 ستمبر 1945کو ہندوستانی لیڈروں اور 1946 کے کیبنٹ مشن کے ممبران کے درمیان برطانیہ سے ہندوستان میں مذاکرات کے بعد وائسرائے لارڈ ویول نے اعلان کیا کہ صوبائی اور مرکزی مقننہ کے انتخابات دسمبر 1945 سے جنوری 1946 میں کرائے جائیں گے جس کے بعد ایک ایگزیکٹو کونسل کی تشکیل کی جائے گی اور ان انتخابات کے بعد ایک آئین ساز ادارہ بلایا جائے گا۔ یہ انتخابات اہم تھے کیونکہ اس طرح تشکیل پانے والی صوبائی اسمبلیوں نے ایک نئی آئین ساز اسمبلی کا انتخاب کرنا تھا جو ایک آزاد ہندوستان کے لیے ایک آئین کی تشکیل شروع کر دے گی۔
انڈین کانگریس مسلمانوں سمیت برٹش انڈیا کے تمام مذاہب کی نمائندہ سیاسی جماعت ہونے کی دعویدار تھی جبکہ قائد اعظم کی قیادت میں مسلم لیگ مسلمانوں کی نمائندگی کر رہی تھی۔ اس صورتحال میں یہ طے پایا کہ اگر مسلم لیگ انتخابات میں مسلم نشستوں کی اکثریت پہ کامیاب ہوتی ہے تو پاکستان کے قیام کا مطالبہ تسلیم کر لیا جائے گا ۔انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس نے کل 1585 نشستوں میں سے923 اور آل انڈیا مسلم لیگ نے 426 نشستوں پہ کامیابی حاصل کی ۔ مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کے تمام مسلم حلقوں کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں میں بھی زیادہ تر مسلم حلقوں پہ کامیابی حاصل کی اور ان نتائج سے پاکستان کا قیام یقینی ہو گیا۔مسلم لیگ کی سب سے بڑی کامیابی بنگال میں ہوئی جہاں مسلمانوں کی 119 نشستوں میں سے اس نے 113 پر کامیابی حاصل کی۔ مسلم لیگ نے مسلم اقلیتی صوبوں میں اپنے ووٹ کو مضبوط کیا۔ اس نے متحدہ صوبوں کی 64 مسلم نشستوں میں سے 54 اور بہار کی 40 مسلم نشستوں میں سے 34 نشستیں حاصل کیں۔ اس نے بمبئی اور مدراس کی تمام مسلم نشستوں پر قبضہ کر لیا۔ ان انتخابی نتائج سے مسلم لیگ نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ مسلم ہندوستان کی واحدنمائندہ ہے۔شمال مغربی سرحدی صوبے میں عبدالغفار خان کی وجہ سے کانگریس کی حکومت قائم ہوئی۔پنجاب میں، مسلم لیگ کل مسلم نشستوں میں سے 75 نشستیں جیت کر اسمبلی میں سب سے بڑی واحد جماعت بن گئی۔ یونینسٹ پارٹی کو مجموعی طور پر صرف 20 سیٹیں جیتنے میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ کانگریس نے 43 سیٹیں اور سکھ مرکزی اکالی دل 22 سیٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہی۔یونینسٹ پارٹی کے خضر حیات خان کانگریس اور اکالیوں کے ساتھ مخلوط حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔آسام میں مسلم لیگ نے تمام مسلم نشستیں جیت لیں۔مسلم اکثریتی صوبہ سندھ میں مسلم لیگ نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلم لیگ نے مسلم نشستوں پہ واضح کامیابی حاصل کرکے خود کو مسلمانوں کی نمائندہ جماعت ثابت کرتے ہوئے قیام پاکستان کی راہ ہموار کر دی۔قائد اعظم نے 1940میں قیام پاکستان کی منزل کے تعین کے بعد صرف سات سال کے عرصے میں ہندوئوں کی مکارانہ سازشوں اور انگریزوں کی چال بازیوں کا کامیابی سے مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان کے قیام کو ممکن کر دکھایا۔کانگریس کی حمایت سے انگریزوں سے پاکستان کے قیام کے عمل کو روکنے کے لئے قائد اعظم کو متحدہ ہندوستان کا پہلا گورنر جنرل بنانے کی پیشکش کی جسے قائد اعظم نے مسترد کر دیا۔پاکستان کے قیام کا فیصلہ ہو جانے کے بعد بھی سازشوں کا عمل رکا نہیں، انگریزوں نے کانگریس کی حمایت میں سرحدی تقسیم کے '' ریڈ کلف ایوارڈ '' میں کئی مسلم اکثریتی اضلاع کو ہندوستان میں شامل کر لیا اور اسی دوران ریاست جموں وکشمیر کو ہندوستان سے ملانے کے لئے بھی پنجاب کے کئی مسلم اکثریتی علاقے ہندوستان میں شامل کر لئے۔ کانگریس اور انگریزوں کو توقع تھی کہ قائد اعظم اور مسلم لیگ سرحدی تقسیم کے اس غیر منصفانہ عمل کو تسلیم نہیں کریں گے جس سے انہیں پاکستان کے قیام کا عمل روکنے کا بہانہ مل جائے گا لیکن قائد اعظم نے اس سازش کو بھانپتے ہوئے سرحدی تقسیم میں بڑی زیادتی کے باوجود قیام پاکستان کے بڑے مقصد کے حصول کے پیش نظر ریڈ کلف ایوارڈ کو تسلیم کر لیا۔
1857سے1947تک مسلمانوں کی بے چارگی، جدوجہد اور قربانیوں کا احاطہ کرنے کے لئے کئی کتابیں بھی کافی نہیں ہو سکتیں۔ تاریخ اس حقیقت کا اعتراف کرتی ہے کہ پاکستان کے قیام سے پہلے ہی پاکستان کے خلاف بدترین سازشیں شروع کی گئیں جس کا سامنا77سال گزر جانے کے بعد بھی پاکستان اور اس کے عوام کو کرنا پڑ رہا ہے۔اس مضمون میں ہمارا موضوع پاکستان کے یوم آزادی کے حوالے سے قیام پاکستان کی جدوجہد پہ ایک طائرانہ نظر ڈالنا ہے، آزادی کے بعد گزشتہ77سال میں پاکستان میں کیا کیا ہوا، یہ ایک الگ موضوع ہے۔ تاہم بنیادی حقیقت یہی ہے کہ تمام تر سازشوں، خرابیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود پاکستان کا وجود ایک بہت بڑی نعمت ہے جس کا ادراک اور تحفظ کرنا ناگزیر ہے۔ تاہم اس حقیقت کا اعتراف بھی از حد ضروری ہے کہ پاکستان کے قیام کا مقصد عوامی مفاد میں تھا اور عوامی مفاد کو مقدم رکھتے ہوئے ہی قیام پاکستان کے مقاصد میں پیش رفت اور پاکستان کی ترقی و استحکام کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ دعا کے ساتھ ہمیں پاکستان میں بہتری اور اصلاح کے لئے پورے عزم کے ساتھ اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان کا قیام قائداعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز، پر فخر قیادت میں عوامی جدوجہد اور قربانیوں کا ایک تاریخ ساز سیاسی کارنامہ ہے۔
واپس کریں