دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عدلیہ کی آزادی کا تحفظ ——چیف جسٹس نے تجاویز طلب کیں -
منظور حسین گیلانی
منظور حسین گیلانی
جسٹس ( ر) منظور گیلانی

اسلام آباد ہائ کورٹ کے چھ ججز کی عدلیہ میں مداخلت کے خلاف خط پر چیف جسٹس پاکستان کی ججز سے تجاویز پر ، چیف جسٹس لاھور ہائ کورٹ نے ججز کا اجلاس طلب کر کے رائے طلب کی ہے کہ ، انتظامیہ کی عدلیہ میں مداخلت کو کیسے روکا جائے؟ عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کیسے کیا جائے؟ اور عدلیہ کی آزادی کو کمزور کرنے کے اسباب کا سد باب کیسے کیا جائے؟ عدل اور انصاف کو ہم معنی الفاظ میں الفاظ کیا جاتا ہے گوکہ دونوں الفاظ کی تفصیل میں فقہا نے مختلف تفاصیل کے ساتھ فرق بیان کیا ہے لیکن اختصار میں دونوں الفاظ افراط و تفریط سے بچتے ہوئے درمیانی راستہ اختیار کرنا، عدل یا انصاف کہلاتا ہے،یعنی حق کی طرف مائل ہونے کو عدل اور انصاف کہتے ہیں۔ عدل و انصاف کرنا بنیادی طور صرف اور صرف حکومت وقت اور اس کی انتظامیہ کی زمہ داری ہے اسی لئے ہم مذہب اور تاریخ کی کتابوں میں ہر جگہ عادل یا منصف مزاج حکمران اور اس کی جانب سے مقرر کئے ہوئے افراد کے قصے اور واقعات پڑھتے ہیں - جوں جوں سلطنتیں پھیلتی گئیں، آبادی بڑھتی گئ ، باریک اور پیچیدہ حقوق اور جرائم وجود میں آتے گئے حکمرانوں نے یہ زمہ داری لوگوں کی سہولت اور ریاست میں انصاف اور عدل کو رائج کرنے کے لئے زہین و فطین ، معاملہ فہم اور زیرک لوگوں کے سپرد کردی جو بادشاہ یا حکمران وقت کے انصآف کے اختیار استعمال کرتا ہے-

ماضی کے بر عکس فی زمانہ جدید طرز کے ریاستی ڈھانچے لکھے پڑھے آئین کے تحت وجود میں لائے جاتے ہیں جس میں اقتدار اعلیٰ لوگوں کی مرضی سے منتخب ہونے والے قانون ساز ادارے کے پاس ہوتا ہے جو قوانین کے تحت زیلی اداروں کو یہ اختیار تفویض کرتا ہے جس میں عدلیہ کو دئے گئے اختیار بھی حکومت کی توسیع کردہ صورت ہے - عدلیہ حکومتی مقاصد اور حکومت سے ماورا ادارہ نہیں ہوتا بلکہ حکومتی اقدامات ، احکامات اور عام لوگوں کے آپسی تنازعات کی شکایت اور اس کے ازالہ کے لئے حکومت کے ہی مقرر کردہ منصفوں کے پاس جاتے ہیں جن کو اس کا اختیار آئین اور قانون نے دیا ہوتا ہے جس نے حقوق دینے یا اس سے حاصل قانون کو ضابطہ کار کے تحت جانچنے کے بعد فیصلہ کرنا ہوتا ہے - ان قانونی ضابطوں پر عمل کرتے ہوئے عدالت نے وہ راستہ نکالنا ہوتا ہے جو انصاف اور عدل کے تقاضے پوراے کرتا ہو-

آئین اور قانون نے عدالتی اختیارات کے حدود بھی مقرر کئے ہوتے ہیں اور وہ صرف وہ اختیار اسی طریقہ سے استعمال کر سکتی ہے جو اصل قانون اور پروسیجر نے مقرر کئے ہوتے ہیں - اسی لئے اپیل در اپیل کے فورم مقرر کئے گئے ہیں کہ انصاف کو مختلف سطحوں پر جانچا اور یقینی بنا یا جائے - عدلیہ کے رو برو تین طرح کے معاملات آتے ہیں جہاں عام شہریوں کے مابین تنازعات، شہریوں اور حکومت کے مابین اور شہریوں یا حکومت اور ریاست کے مابین -عام شہریوں کے مابین تنازعا میں واقعات، قانوں اور انصاف کی روشنی میں جس طرف ان عوامل کا جھکاؤ ہو عمومی طور فیصلہ اسی طرف ہوتا ہے اور ہونا بھی چاھئے - عام شہری اور حکومت کے مابین تنازعہ میں بالا دستی چونکہ حکومت کی ہوتی ہے اس لئے عام شہری کے حقوق کا دفاع ضرور ہونا چاھئے لیکن جہاں حکومت کا عمل مجموعی طور عوام الناس کے حق میں ہو لیکن ضمنی طور collaterally عام شہری بھی متاثر ہوتا ہو وہاں اگر مجموعی قومی مفاد کو متاثر کئے بغیر کسی عام شہری کو ریلیف مل سکتا ہے جس سے مفاد عامہ متاثر نہ ہوتا ہو اس کو ضرور ملنا چاھئے لیکن عمومی قومی مفاد کی قیمت پر نہیں ، مفاد عامہ کو عام شہری کے حقوق پر بر تری ملنی چاھئے-

جہاں ریاست اور عام شہریوں میں تنازعہ ہو وہاں ریاستی مفاد کو تقدیم حاصل ہے - تاہم ریاستی مفاد کے پس پردہ حکومتی ، شخصی یا گروہ ہی مفاد کو پروان چڑھنے سے روکنے کی ضرورت ہے - ریاست اور ریاستی اداروں کی مجموعی طور حکومت ہی نمائندگی کرتی ہے اس لئے اس فرق کو باریک بینی اور زیرکی سے جانچنے کی ضرورت ہے - لیکن ریاست کے مجموعی مفاد کو تحفظ دینا بھی عدالتوں کی زمہ داری ہے جن کا اپنا وجود ریاست کے مجموعی مفاد کا حصہ ہے - پاکستان میں عدالتیں اور فوج اس فرق کو پامال کرتی رہی ہیں جو آئین کی منسوخی ، پامالی اور فوجی ایکشن کو نظریہ ضرورت کی بناء پر ریاستی مفاد قرار دے کر تحفظ دیتی رہی ہیں - یہاں فوج اور عدلیہ کے مفاد converge یعنی مشترک ہوجاتے ہیں - فوج حکومت کرنے کی خواہش میں ملکی مفاد کا سہارا لیتی ہے اور عدالتوں میں بیٹھے جج ان کو اپنے مفادات سمیٹنے میں مدد دیتے چلے آرہے ہیں -یہاں دونوں سرخ فیتہ کراس کرتے ہیں جو آئین کی صورت میں عمرانی معائدہ کی تنسیخ ہے - اس میں پھر سیاست دان بھی شامل ہوجاتے ہیں جو ہم ایوب خان مرحوم سے جنرل مشرف مرحوم تک دیکھتے چلے آرہے ہیں - اس عمل سے ججوں ، حکومتی کارندوں (جو عمومی طور ایجنسیز کے لوگ ہوتے ہیں ) اور سیاست دانوں کا تال میل بڑھتا ہے اور وہ کسی نہ کسی طور ججوں پر اثر انداز ہوتے ہیں جس وجہ سے انصاف کا عمل متاثر ہوتا ہے خواہ وہ براہ راست یا بلواسط دباؤ کی وجہ سے ہو ، لالچ یا خوف کی وجہ سے - اس سے عوام اور ریاست کا وقار اور ساکھ مجروع ہوتی ہے ، جیسے پاکستان کی ہوئ ہے -

میرے نکتہ نظر اور تجربہ سے اس کی زمہ داری ججوں پر عائید ہوتی ہے جو سہولت کاری سے یہ رجحان پروان چڑھاتے ہیں - وگرنہ آئین، قانون و قواعد کی کوئ دفعہ قانون کے مطابق فیصلہ کرنے میں عدالتوں کے راستے میں حائل نہیں نہ دباؤ قبول کرنے کی گنجائش ہے - پاکستانی عدالتوں کی طرف سے مقننہ کی بے توقیری اور پاکستان سول انتظامیہ کے سربراہ ، وزیر اعظم کی توہین عدالت کے اختیار کے غلط استعمال سے بے جا وجوہات پر علامتی سزا ، ملکی نظام ، اعلی بیورو کریسی اور اس کے نمائندوں کی بے توقیری، بے عزتی اور بے جا کمنٹس آئینی حدود کی جا رہ ہانہ خلاف ورزی ہوتی رہی ہے - توہین عدالت کے اختیار کے عدوانہ استعمال کی دھمکی دے کر بے جا مراعات، من مرضی کی اعلیٰ تقرریوں اور تبادلوں کی خواہشات نے ملکی جمہوری نظام کو بحران سے دوچار کیا ہے - اس وجہ سے جج اور عدلیہ کے خلاف ہر گلی محلے میں نا مناسب الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جس وجہ سے عدالتی نظام بھی زوال پذیر ہے ، عدلیہ جیسے ادارے کا بھرم اور توقیر نہیں رہی ، صرف خوف ہے ، جو بد گمانی کی علامت ہے ، یہی عدلیہ کی کمزوری اور آزادی کو عدم تحفظ کا شکار کر رہا ہے -

آئینی ادارے ایک دوسرے کے معاون ہوکر ملک میں استحکام پیدا کر سکتے ہیں ، حریف بن کے نہیں - ملک میں منتخب حکومت ہی سب اداروں کی نمائندہ ترجمان ہوتی ہے جس کو Majesty of the Government کہتے ہیں ۔ یہی سب اداروں کے حدود کو مستحکم کرنے کی زمہ دار بھی ہے ، اس کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے - وزیر اعظم اور ریاست کے بڑے انتظامی عہدے داروں کو تحمکانہ انداز میں عدالتوں میں بلاکر ڈانٹ ڈپٹ کرنے سے ملک کا نظام بے توقیر ہوجاتا ہے اور عدلیہ بھی اس نظام کا حصہ ہے جبکہ پرو سیجرل لاء میں واضع طور لکھا ہے حکومت کی نمائندگی اور جواب دہی کون کرے گا - اس کے لئے اڑوس پڑوس اور سمندر پار جمہوری ملکوں سے سیکھنے کی ضرورت ہے - اسی سے ملکی عدلیہ ہی نہیں سب ادارے مضبوط ہو سکتے ہیں - ان ریڈ لائنز کو بحال رکھنے کی ضرورت ہے جس سے نظام مستحکم ہوگا اور عدلیہ بھی اس نظام کا حصہ ہے -
جج اگر ان قانونی حدود میں رہ کر اختیار استعمال کریں تو کسی تنازعہ ، کسی دباؤ کی گنجائش پیدا نہیں ہوتی - عدلیہ کے ارکان کی ہر سطح ، خواہ وہ ماتحت ہو ، ساتھ والے ہوں یا بالا ، کی توقیر ہر جج کی زمہ داری ہے بلخصوص رئیسان عدلیہ کی - عدلیہ کے اندر اور اس سے متعلقہ لوگوں میں گروپنگ ، تعلقداری ، عزیز داری ، چیمبر فیلو ز کی نے نوازی کی طرف انگلیاں اٹھتی ہیں اس نے اس کو بے توقیر اور کمزور بنا دیا ہے -

اسی طرح جب انتظامیہ سیاسی مقاصد کے لئے قانون سے ماوراء اقدامات کرتی ہے اس وقت تنازعہ پیدا ہوتا ہے جس کے حل کے لئے عدلیہ منصف کے طور میدان میں آتی ہے - یہاں جج کی ایمانداری، وقار ، شعور اور قانون کی روح کو بروئے کار لانے کا امتحان ہے - یہاں عدلیہ نے حدود کی لائنز کھینچنی ہیں - اگر جج کا اپنا رجحان اور جکاؤ کسی بھی وجہ سے کسی فریق کے حق میں یا کسی کے خلاف نہ ہو پھر فیصلہ کرنے میں کسی دباؤ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا - یہاں جج کی integrity یعنی اس کی اخلاقی اقدار ، کردار ، راست بازی اور وقار اس کو قانون اور انصاف کے مطابق فیصلہ کرنے میں رہنمائ کرتی ہے - ریاست ، حکومت اور عوام کو متاثر کرنے والے فیصلے عمومآ بڑی عدالتیں کرتی ہیں - اکثر وکیلوں کی رائے ہے کہ بڑی عدالتوں میں بیٹھنے والے اکثر لوگ فائل کو نہیں بلکہ سائل یا مسئول کو دیکھ کر قانون کی تشریح کرتے ہیں اور یہ تشریح ہر کیس میں بدل جاتی ہے حالانکہ ایک قائم شدہ رائے قانونی نظیر ہوتی ہے اس کی تقدیم اس کو بحال رکھنے میں ہے یا بوجوع اس کو منسوخ کر کے نئی رائے قائم کرنے میں ہے - وکلاء کی اکثریت ماتحت عدالتوں سے کم شاکی ہے بڑی عدالتوں سے زیادہ کیونکہ غلط یا غیر معقول فیصلہ کرنے پر ان کی کوئ باز پرس نہیں جبکہ چھوٹی عدالتوں کی ہوتی ہے - خود احتسابی ہی عدلیہ کی اخلاقی اور قانونی حیثیت کو مضبوط کر سکتی ہے جو اس کی آزادی کی ضامن ہے ، توہین عدالت کا خوف نہیں -

انتظامیہ سیاسی یا انتظامی نوعیت کے فیصلوں کے نفاظ کے لئے ہر ممکن اقدامات اٹھاتی ہے جس کے لئے عدلیہ پر اثر انداز ہونے کا ایک ماحول پیدا ہوجاتاہے - ضروری نہیں کہ انتظامیہ کا کوئ اہلکار جج یا عدلیہ پر عملی طور اثر انداز ہو ، مجبور کرے یا رکاوٹ پیدا کرے - وہ اپنے مقاصد حاحل کرنے کے لئے کوئ بھی حربہ استعمال کرسکتی ہے جس سے جج کے مفاد کو نقصان پہنچے جس میں جج کے ایسے مفادات بھی شامل ہیں جو ایک جج یا شہری ہونے کی صورت میں اس کو حاصل ہوتے ہیں ، اس کے عزیز و اقارب کو پریشان کیا جاتا ہے - میں یہ زاتی تجربہ کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں جس کی تفصیل میں نے اپنی خود نوشت میں لکھی ہے - جج اس کا مقابلہ بھی integrity اور ادارے کی توقیر کی طاقت سے کر سکتا ہے - جس کے پاس اتنا بڑا مرتبہ ہو اس کو اتنے بڑے حو صلے کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے - یہاں انصاف کے راستے میں دباؤ کے خلاف عوام الناس ، جس میں وکلاء ہراول دستہ کا کردار کرتے ہیں سد راہ ہوجاتے ہیں بشرطیکہ ان کی نظر میں جج کی integrity اس کے دفاع کا تقاضا کرتی ہو-پاکستان میں تھیوری اور پریکٹیکل الگ الگ ایشو ہیں - قانون کے تحت اختیارکس کا ہے ، استعمال کون کرتا ہے ، اور اس کو جوازییت کون بخشتا ہے ، یہ ہمیشہ سے ایک معمہ رہا ہے - اگر اختیار استعمال کرنے والی اتھارٹی عوام ، ایوان اور عدالتوں میں جواب دہ نہ ہو تو وہ دباؤ کے مختلف حربے استعمال کرتی ہے جس کے لئے جواب دہ کوئ اور ہوتا ہے ، دباؤ استعمال کرنے والے نہیں - اس کے لئے عدلیہ کے سربراہ کا باخبر ہونا یا رکھنا ضروری ہے تاکہ اس سے ادارے کا ردعمل ظاہر آئے جس سے آزادی مستحکم رہتی ہے -

پاکستان میں کئ ایسی روشن مثالیں موجود ہیں جہاں ضمیر اور شخصی وقار کی بنیاد پر غیر آئینی اور غیر جمہوری حکومت کے وجود میں آنے پر یا تو ایسے ججوں نے آئین سے ماوراء لیگل آرڈر کے تحت حلف لینے سے انکار کیا، یا ان کے کردار کے پس منظر میں ان کو حلف کے لئے بلایا نہیں گیا ، افتخار محمد چوہدری صاحب کے ایک معقول موقف پر ڈٹ جانے سے وکیلوں نے پاکستان کی تاریخ ہی بدل دی ، جسٹس شوکت صدیقی نے بہ بانگ دہل ایک ایجنسی کے اس وقت کے سربراہ پر الزام لگایا ، قاضی فائز عیسی چیف جسٹس پاکستان نے ایک اعصاب شکن جنگ لڑی اور کئ سال کے بعد کچھ اور ججوں کا ضمیر جاگا ، خیر جاگا تو ہے - اس سے نظام کو تقویت ملی - اس کے بر عکس پاکستان میں جسٹس منیر جیسے ببھی گزرے ہیں جنہوں نے بدعت کی ابتداء کی - ماضی قریب میں جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس عمر عطا بندیال جیسے لوگ بھی رہے ہیں جو ایجنسیز کے ڈنڈا بردار رہے ہیں - اس کے لئے قصور وار جج ہیں جو اپنے اختیار کا بے جا استعمال کرتے ہیں ، انتظامیہ یا ایجنسیز نہیں جو اپنے عمل کی تکمیل کراتے ہیں - گوکہ دونوں حد یا سرخ فیتہ کراس کرتے ہیں ، لیکن اصل زمہ داری جج پر عائد ہوتی ہے -

دنیا بھر میں عدلیہ کی آزادی کا جو معیار ہے وہ عدلیہ کے قیام کا مربوط قانونی نظام، عدلیہ میں تقرری کا معیار اور طریقہ کار، مالی آزادی اور خود مختاری ، جوڈیشل ٹرینگ کا نظام جو ہر سطح پر اس کے مرتبے اور زمہ داریوں کے مطابق ہو ، جج کے اخلاقی معیار اور integrity ، ججز کی ٹرینگ اور انصاف کے معیار کو عالمی سطح پر لے آنے کا شعور ، عدلیہ سے متعلق عوامی شعور کی بیداری اور عدلیہ کے اندر ججوں کے باہمی روابط ، عدالتی عملے اور انتظامی نظم و نسق میں ربط و ضبط، عدلیہ کی آزادی کے ضامن ہیں - ان عوامل کو تدبیر سے رو بہ عمل لانے کی ضرورت ہے - یہ سب کچھ کسی کی تقرری کے حکمنامے میں ساتھ نہیں آتے ، بلکہ مطالعہ ، سیمنارس ، دنیا کے عدالتی نظام ، اخلاقی اقدار ، شخصی وقار کے شعور و ا قدار کے ادراک اور اس پرعمل سے ہی ممکن ہے - عدلیہ کے ہر فرد کا وقار اور بھرم پوری عدلیہ کے آزادی کا ضامن اور اسی میں عدلیہ کی آزادی پنہاں ہے - یہ انتظامیہ یا کسی دوسرے عنصر کے عدلیہ یا انفرادی طور کسی جج پر غالب آنے یا مداخلت کے راستے روکنے میں حائل ہو سکتے ہیں ، ججوں کے اختیارات یا کر فر سے نہیں - برطانیہ کے ایک مشہور جسٹس ، لارڈ ڈینگ سے جج کی خوبی کے بارے میں ایک تاریخی جملہ یوں منسوب ہے ،A judge has to be First a gentleman and last a gentleman with a Little bit knowledge of law . میرے نزدیک جنٹلمین کا مقصد اعلیٰ اوصاف کا حامل ، با وقار شخص جس کو انگریزی میں Integrity کہتے ہیں ، بھلے وہ جج ہو یا نہ ہو ، لیکن جج ہونے کی صورت میں وہ صرف ایسا ہو ، وہی انصاف بھی کر سکتا ہے اور انصاف کے نظام کو زوال سے بچا بھی سکتا ہے - اس کے لئے خود احتسابی کی ضرورت ہے -

واپس کریں