دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دوسرا حصہ ماضی کے جھروکوں سے (شب وروز)
منظور حسین گیلانی
منظور حسین گیلانی
جسٹس ( ر) سید منظور گیلانی ۔ادراک

اس تحریر میں کچھ الفاظ مقامی زبان کے استعمال ہوئے ہیں جن کا متبادل اردو یا تو ہے نہیں یا مجھے نہیں آتا ، اس لئے معذرت خواہ ہوں - سیاق و سباق سے قارئین یقینآ سمجھ جائیں گے - آج سے ستر برس پہلے کی شب و روز کی زندگی اور اس کی مصروفیات ہر موسم سے جڑی رہتی تھیں جو زندگی کی ضرورتوں اور تقاضوں سے مربوط ہواکرتی تھیں - آپ بے شک کہہ سکتے ہیں سب سرگرمیاں محنت اور مشقت طلب لیکن پرو ڈکٹیو ل، روح فرسا اور فرحت انگیز بھی ہوا کرتی تھیں جو پچھلے اور اگلے موسم سے جڑی رہتی تھیں - جدید ٹیکنالجی بھی ان کی حیرت انگیز ترقی یافتہ قسم ہے -

سردیوں کے موسم سے شروع کریں تو اس کی سرگرمیاں خزاں سے شروع ہوجاتی تھیں جس کی تیاری کے لئے انسانی خوراک، ایندھن ، مال بچھے، کے چارہ ، برف ، بارش سے بچاؤ کے اسباب کا انتظام دسمبر کے مہینے سے پہلے مکمل کرنا پڑتا تھا - رسل و رسائل کے زرائع محدود بلکہ دور دراز کے پہاڑی علاقوں کے نہ صرف مسدود بلکہ برف باری اور سلائیڈنگ سے معدوم بھی ہوجاتے تھے - انسانی خوراک خشک راشن کے طور سٹور کی جاتی تھیں گرمیوں کے موسم کی سبزیاں ، شلجم ، کڑم ، مولوی ، کدو، آلو اھتمام کے ساتھ زمین کے اندر گہرا کھڈا بناکر لکڑی کی چھت کے اوپر مٹی ڈال کر ائیر ٹایئٹ کردی جاتی تھیں - ہفتے میں ایک بار حسب ضرورت نکال کر گھر کے بر آمدے ، جسے” بیڑا” کہتے تھے میں ٹانک یا پرانی ترٹی چار پائ یا بانگی پر رکھ دی جاتی تھیں - زمین دوز کھڈا پرانے زمانے کا ریفجریٹر ہوا کرتا تھا اور “بیڑا” آج کے زمانے کا بر آمدہ،ورنڈہ یا کوریڈور کی ابتدائ قسم تھی جو کھلی ہوا لیکن چھت کے نیچے ہوا کرتا تھا - ماں ، دادی یا نانی گھر میں جو بھی بڑی خاتون ہواکرتی تھی کھانے پلیٹوں یا بڑے تھال میں نکال کر ، سالن حسب توفیق اس پہ ڈال کے گھر کے مرد اور عورتوں کو الگ الگ دے دیتیں تھیں اور گھر کا سب سے چھوٹا فرد پہلے سب کے ہاتھ دھلا کر دستر خوان بچھا تا تھا اور جب سب فارغ ہوتے تھے اپنی تھالی یا تھالیاں چاٹ کر اس کو مادر زاد صاف کردیتے تھے - اگر تھالی الگ الگ ہوتی تو ہر کوئ وہیں بیٹھے اپنے ہاتھ اور تھالی بھی دھوکر پانی “ تشت” میں ڈال کر ہاتھ دستر خوان یا ماں بہین کی اوڑھنی سے صاف کردیتا تھا -

سردیوں کے موسم کے پسندیدہ اور حسب حال کھابے حسب توفیق دال چاول، مکئی یا گندم کا باٹ جس کو اس زمانے میں دلیہ یا کارن فلیک کہا جاتا ہے، حریسہ ، چائے کے ساتھ شہد روٹی ، شہد ملے اخروٹ - ڈرائ فروٹ میں اخروٹ اور املوک ، بادام - مشروب میں بادام، خشخاش اور نارئیل ملی نمکین چائے اور دودھ قہوہ ، کلچہ ، باقر خانی ، گردہ ، لواس ، شیر مال - دوپہر اور رات کے کھاٗنوں کے ساتھ کڑم، مولی یا شلجم کا ان انچار نا گزیر ہواکرتا تھا- گوشٹ کھانا ایک عیاشی تھی جو عید ، شادی بیاہ یا کسی جانور کے پہاڑ سے رڑنے ، بیماری یا بیکار ہونے پہ ہی نصیب ہو سکتا تھا - مرغ مہمان ، کسی اسلامی تہوار یا مرغوں کی بیماری پڑُنے پر ملتا تھا - یہ کھانے گرمیوں میں بھی ہوتے تھے لیکن سرما اور برف کے موسم میں ان جو خآص اہمیت حاصل تھی- رات کے کھانا عام طور بڑے سارے کچن میں ہی کھاتے تھے جس کے بعد رات دیر تک محفل جمی رہتی تھی - بزرگ خاتوں چرخا کاتتی، جوان خواتین یا بچیاں سلائ کڑھائ کا کام کر لیتیں اور مرد حضرات فرش پر بچھانے کے لئے دھان کے” پولوں “سے پتجیاں اور پھنڈیاں بناتے تھے - راتیں لمبی اور ٹھنڈی ہوا کرتی تھیںُ اس لئے چولہا جلتا رہتا تھا اور روشنی چوب چراغ ، یعنی چراغ والی لکڑی جسے “ دلی” اور کشمیری میں “ لشے” کہتے تھے حاصل کی جاتی تھی - تیل پر جلنے والے دئے ، موم بتیاں ، پھر لالٹین اور گیس بھی وجود میں آگئے تھے -
شام ڈھلتے اور صبح ہوتے ہی مال مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کو گھاس ڈال دیا جاتا ، مرغوں کو دانا، دودھ دینے والے جانوروں سے گھر کی بڑی خاتون دودھ دوہوتی اور کوئ چھوٹا بچی یا بچہ اس کا بچھڑا بڑے شوق سے پکڑے رکھا کرتے تھے -

دن کو اگر دھوپ ہوتی تو “ ڈب “ پہ بیٹھ کے دھوپ سینکتے ، سلائ کڑھائ، بنائ یا کپڑے دھونے اور باقی صفائیوں کا کام کرتے تھے - برفوں کے موسم مییں چھتوں سے برف اتارنا اور کبھی کبار زیادہ برف باری کی صورت میں اڑوس پڑوس کے لوگ مل کے چھتوں سے برف اتارے میں ہلہ شیری کرتے - کبھی کبار برف پانچ چھ فٹ سے زیادہ ہوتی تو برف کو پگلا پاُی بنایا جاتا - کانگڑی، بخاری/ انگیٹھی، چولہے کی آگ اس موسم کی خاص سوغات ہواکرتی تھیںُ - ان کے لئے بالن کا بندوبست سردیوں سے پہلے ہی کیا جاتا تھا - شدید برف باری میں شالی / دھان سے چاول گھر کی عورتیں ہی ہی چھڑتی تھیںُ جن کے لئے لکڑی کی بہت بڑی اوکھلی جس کو کنز کہا جاتا تھا میں ایک بھاری بھرکم لکڑی کے مولا استعمال ہوتا تھا - یہ اس زمانے کی چٹنی اور مصالحہ کوٹنے والی لنگری کی بہت بڑی قسم ہوا کرتی ہے - سردیوں کی شدت سے مقابلے کے لئے گرم مشروب اور پکوان زیادہ استعمال ہوتے تھے جو انفلونزا ، زکام ، نمونیہ ، کھانسی کے خلاف قوت مدافعت بڑھاتے تھے - کچھ لوگ چھوٹے بچوں کو برانڈی کی ایک چمچ پانی میں ڈال کے پلاتے تھے -گرم مشروب میں نمکین چائے کا بغیر دودھ کےقہوہ، جنگلی بوٹیوں میں سے گاؤ زبان ، مانسلونڑ، کینتھی کے پتوں کی چائے ، باگلوں ( موٹھی ) چنے اور مونگ کی دال جس کو فی زمانہ سوپ سے تشبیہ دی جا سکتی ہے پیتے تھے - پکوانوں میں “گرلہ” جو مکہئی کے آٹے سے پانی میں تیار کر کے گھی یا مکھن ملا کے کھاتے تھے ، گھی میں پکے چاول میتھی اور کٹھ ملا کے کھائے جاتے تھے - اسی طرح حسب تو فیق دیگر مشروب اور کھانے سردیوں کے موسم میں قوت مدافعت بڑھانے کے لئے استعمال ہوتے تھے -

ہمارے کرناہ کے علاقے وادی کے بڑے شہروں بارہمولہ، سوپور، سرینگر سے چار سے چھ ماہ تک مسدود ہوجاتے تھے جہاں جانا جان کو ہتھیلی پر رکھنا تھا -نستہ چھن گلی / جو شمس بڑی پہاڑوں کے درمیان ایک درہ تھا کے لگ بھگ گیارہ ہزار فٹ بلندی سے پیدل گذر کے جانا پڑتا تھا جہاں بلا مبالغہ پندرہ بیس فٹ برف پڑی اور جمی رہتی تھی جو یخ بستہ ہونے کی وجہ سے اس قدر سلپری ہوتی تھی کہ انسان ٹاپ پر پہنچ کے اگر پھسل جائے اور زندہ ہموار جگہ تک پہنچ جائے تو ہمت ہار جاتا تھا وگرنہ دوبارہ ایک میل سے بھی کم تین چار گھنٹے “سکھڑ “ steep چڑھائ ، دوبارہ چڑھنا پڑتی تھی - تاہم مقامی فوج اس سلسلے میں مختلف طریقوں سے مدد کرتی تھی - گلیشر کے خوف سے سفر کی اجازت صرف رات کو اور سورج چڑھنے سے پہلے ہوا کرتی تھی جو گلیشر سے محفوظ وقت سمجھا جاتا تھا وگرنہ سورج کی حدت سے برف کے تودے کھسک گلیشر بن جاتے تھے- چھوٹے تودے کو چھرا اور بڑے کو لانڑیں کہا جاتا تھا - میں بھی اس کا شکار ہوا لیکن اللہ کی مدد سے قافلے کے باقی لوگوں نے نکال لیا ۔ ہمارے ساتھ کے دو طالب علم اس آفت کے نظر ہوئے جن کی میت تین ماہ بعد ملی -
واپس کریں