دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیری نژاد انڈین شیکسپیئر آغا حشر ، رستم اور سہراب
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
آغا حشر کا اصل نام آغا محمد شاہ تھا۔ ان کے والد غنی شاہ بسلسلہ تجارت کشمیر سے بنارس آئے تھے اور وہیں آباد ہو گئے تھے۔ بنارس ہی کے محلہ گوبند کلاں، ناریل بازار میں یکم اپریل 1879کو آغاحشر کا جنم ہوا۔1935میں وفات ہوئی۔ آغا نے عربی اور فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور قرآن مجید کے سولہ پارے بھی حفظ کیے۔ اس کے بعد ایک مشنری سکول جے نارائن میں داخل کرائے گئے۔ مگر نصابی کتابوں میں دلچسپی نہیں تھی اس لیے تعلیم نا مکمل رہ گئی۔بچپن سے ہی ڈرامہ اور شاعری سے دل چسپی تھی۔ سترہ سال کی عمر سے ہی شاعری شروع کر دی اور 18 سال کی عمر میں آفتاب ِ محبت کے نام سے ڈرامہ لکھا جسے اس وقت کے مشہور ڈرامہ نگاروں میں مہدی احسن لکھنوی کو دکھایا تو انہوں نے طنز کرتے ہوئے کہا کہ ڈرامہ نگاری بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ منشی احسن لکھنوی کی اس بات کو آغا حشر کاشمیری نے بطور چیلنچ قبول کیا اور اپنی تخلیقی قوت، اور ریاضت سے اس طنز کا ایسا مثبت جواب دیا کہ آغا حشر کے بغیر اردو ڈرامہ کی تاریخ مکمل ہی نہیں ہو سکتی، انہیں جو شہرت، مقبولیت، عزت اور عظمت حاصل ہے، وہ ان کے بہت سے پیش روں اور معاصرین کو نصیب نہیں ہے۔
مختلف تھیٹر کمپنیوں سے آغا حشر کاشمیری کی وابستگی رہی، اور ہر کمپنی نے ان کی صلاحیت اور لیاقت کا لوہا مانا۔ الفریڈ تھیٹریکل کمپنی کیلئے آغا حشر کو ڈرامے لکھنے کا موقع ملا، اس کمپنی کے لیے آغا حشر نے جو ڈرامے لکھے، وہ بہت مقبول ہوئے۔ اخبارات نے بھی بڑی ستائش کی۔آغا حشر کاشمیری نے اردو، ہندی اور بنگلہ زبان میں ڈرامے لکھے جس میں کچھ طبع زاد ہیں اور کچھ وہی ہیں جن کے پلاٹ مغربی ڈراموں سے ماخوذ ہیں۔آغا حشر کاشمیری نے شکسپیر کے جن ڈراموں کو اردو کا قالب عطا کیا ہے ، ان میں شہیدناز، صید ہوس، سفید خون، خواب ہستی بہت اہم ہیں۔ آغا حشر کاشمیری نے رامائن اور مہابھارت کے دیومالائی قصوں پر مبنی ڈرامے بھی تحریر کیے ہیں ، جو اس وقت میں بہت مقبول ہوئے۔

رستم و سہراب
ڈرامے کا فن بہت قدیم ہے۔ برصغیر میں اس فن کی ابتدا سنسکرت ڈراموں سے ہوئی ۔اردو ڈرامے کی باقاعدہ ابتدا لکھنو کے نواب واجد علی شاہ کے عہد میں ہوئی لیکن ڈرامے کو اردو ادب کا حصہ بنانے کا اعزاز آغا حشر کاشمیری کو حاصل ہے جنھیں انڈین شیکسپیئر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ میں پیدا ہوئے اور میں وفات پائی۔ انھوں نے ادبی اور فنی لحاظ سے بہترین ڈرامے لکھے جن میں صید ہوس یہودی کی لڑکی اور رستم و سہراب مشہور ہیں۔ رستم و سہراب ان کا آخری ڈراما ہے جسے انھوں نے شاہنامہ فردوسی سے براہ راست اردومیں منتقل کیا۔
شاہنامہ ساٹھ ہزار اشعار پر مشتمل رزمیہ مثنوی ہے جس کے ایک حصہ رستم و سہراب کو حشر نے ڈرامائی شکل دی۔ ڈرامے کا انجام دردناک اور مرکزی خیال یہ ہے کہ تقدیر کا لکھا ہر حال میں پورا ہوتا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایران کا مشہور سپہ سالار رستم شکار سے واپسی پر راستہ بھول کر شاہ سمنگان کے محل پہنچ جاتا ہے۔ وہاں اس کی ملاقات شاہ کی بیٹی تہمینہ سے ہوتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو چاہنے لگتے ہیں اور ان کی شادی ہو جاتی ہے۔
رستم کچھ عرصہ قیام کے بعد وہاں سے رخصت ہوتا ہے۔ جاتے ہوئے وہ تہمینہ کو ایک مہرہ (خاص قسم کا تعویذ) دیتا اور کہتا ہے کہ اگر بیٹا پیدا ہو تو یہ مہرہ اس کے بازو پر باندھ کر اسے اس کے پاس بھیج دیا جائے۔ رستم کے جانے کے بعد تہمینہ کے ہاں سہراب کی ولادت ہوتی ہے لیکن وہ بیٹے کی جدائی سے بچنے کے لیے رستم کو بیٹی پیدا ہونے کی خبر بھجوا دیتی ہے۔ رستم واپس نہیں لوٹتا اور ایک عرصہ بیت جاتا ہے۔ سہراب جوان ہو کرباپ سے ملنے کے لیے بے تاب رہتا ہے لیکن اس زمانے کی ملکی سیاست اور بادشاہوں کی سازش باپ بیٹوں کو ملنے نہیں دیتی۔
اس سازش کی بنا پر باپ ایرانی اور بیٹا تورانی فوج کی طرف سے ایک دوسرے کے مقابل آکھڑے ہوتے ہیں۔ سہراب آخر وقت تک رستم کا متلاشی رہتا ہے لیکن حقیقت سے پردہ اس وقت اٹھتا ہے جب وہ باپ کے ہاتھوں شکست کھا کر شدید زخمی ہوتا اور چند ثانیوں بعد مر جاتا ہے۔آئیے ڈرامے کا آخری منظر پڑہئیے۔

میدان جنگ
(رستم اداس چہرے اور غمگین دل کے ساتھ مایوس نگاہوں سے آسمان کی طرف دیکھ رہا ہے)
رستم: پروردگار میں نے کبھی تیرے قہر و غضب کو حقیر نہیں سمجھا کبھی تیری طاقت کے سامنے اپنی فانی طاقت کا غرور نہیں کیا۔ میں نے کل ساری رات تیرے حضور سجدہ ہائے نیاز کے ساتھ آنسو بہا کر مدد کے لیے التجا کی۔ اپنے عاجز بندے کی التجا قبول کر اس بڑھاپے میں دنیا کے سامنے میری شرم رکھ اور ایک بار میری جوانی کا زور مجھے دوبارہ واپس دے دے
عطا کر دے وہی طاقت جو قائم تھی میرے دل میں
جوانی کا لہو پھر جوش مارے میری نس نس میں
(سہراب میدان میں داخل ہوتا ہے)
سہراب: صبح ہو گئی ممکن ہے آج کی صبح اس کی زندگی کی شام ثابت ہو۔ نہ جانے کیا سبب ہے کہ اس کی موت کا خیال آتے ہی میری روح کانپ اٹھتی ہے۔ (رستم کو دیکھ کر) تو آ گیا؟ جنگ کے نقارہ کی پہلی چوٹ سے تیری نیند ٹوٹ گئی؟
رستم: بہادر اپنا وعدہ نہیں بھولتا۔ میں آدھی رات سے صبح ہونے کا انتظار کر رہا تھا۔
سہراب: آج لڑائی کا دوسرا دن ہے۔ جانتا ہے اس جنگ کا نتیجہ کیا ہو گا؟
رستم: ہم دونوں میں سے ایک کی موت!
سہراب: شیردل بوڑھے! میرا دل تیری موت دیکھنے کے لیے راضی نہیں ہوتا۔ ایک غیبی آواز بار بار مجھے اس جنگ سے روک رہی ہے۔ تو جا۔ واپس جا اور اپنے عوض کسی اور ایرانی دلیر کو بھیج دے۔ میں تجھے زندگی اور سلامتی کے ساتھ لوٹ جانے کی اجازت دیتا ہوں۔
رستم: کل کی اتفاقی فتح پر غرور نہ کر۔ ہر نیا دن انسان کے لیے نئے انقلاب لے کر آتا ہے۔
(جنگ شروع ہوتی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد سہراب اپنا ہاتھ روک لیتا ہے)
سہراب: آج میں تجھ میں نیا جوش اور نئی قوت دیکھ رہا ہوں۔ جواں ہمت بوڑھے مجھے پھر شک ہوتا ہے کہ تو رستم ہے۔ تیری عزت کا واسطہ اور تیری بہادری کی دہائی دے کر ایک بار پھر تیرا نام پوچھتا ہوں منت سے عاجزی سے۔
رستم: تو میرا نام جاننا چاہتا ہے تو سن میر انام ہے
سہراب: (خوشی کی گھبراہٹ سے) رستم!
رستم: نہیں سہراب کی موت!
سہراب: افسوس تو نے میرے رحم کی قدر نہ کی۔
(دوبارہ جنگ ہوتی ہے۔ رستم سہراب کو گرا کر اس کے سینے پر چڑھ بیٹھتا ہے)
رستم: بس اسی ہمت اسی طاقت پہ تھا اتنا غرور
تو کوئی شیشہ نہ تھا کیوں ہو گیا پھر چور چور
کیا ہوا زور جوانی اٹھ اجل ہے گھات میں
دیکھ لے اب کس قدر قوت ہے بوڑھے ہاتھ میں
(سہراب کے سینے میں خنجر بھونک دیتا ہے)
سہراب: آہ اے آنکھو! تمہارے نصیب میں باپ کا دیدار نہ تھا۔ پیارے باپ کہاں ہو؟ آئو! آئو کہ مرنے سے پہلے تمہارا سہراب تمہیں ایک بار دیکھ لے۔
رستم: کیا اپنی جوانی کی موت پر ماتم کرنے کے لیے باپ کو یاد کر رہا ہے؟
سہراب: بھاگ جا بھاگ جا! اس دنیا سے کسی دوسری دنیا میں بھاگ جا۔ تو نے سام و نریمان کے خاندان کا چراغ بجھا دیا۔ تاریک جنگلوں میں پہاڑوں کے غاروں میں سمندر کی تہ میں تو کہیں بھی جا کر چھپے لیکن میرے باپ رستم کے انتقام سے نہ بچ سکے گا۔
رستم: (چونک کر کھڑا ہو جاتا ہے) کیا کہا؟ تو رستم کا بیٹا ہے؟
سہراب : ہاں!
رستم: تیری ماں کا نام؟
سہراب: تہمینہ !
رستم: تیرے اس دعوی کا ثبوت؟
سہراب: ثبوت اس بازو پر بندھی ہوئی میرے باپ رستم کی نشانی۔
رستم: جھوٹ ہے غلط ہے! تو دھوکا دے رہا ہے۔ (گبھراہٹ کے ساتھ سہراب کے بازو کا کپڑا پھاڑ کر اپنا دیا ہوا مہرہ دیکھتا ہے) وہی مہرہ وہی نشانی! (سر پٹک کر) کیا کیا اندھے پاگل جلاد یہ کیا کیا
خون میں ڈوبا ہے وہ جس سے مزہ جینے میں تھا
دل کے بدلے کیا کوئی پتھر تیرے سینے میں تھا
توڑ ڈالا اپنے ہی ہاتھوں سے او ظالم اسے
تیرا نقشہ تیرا ہی چہرہ جس آئینے میں تھا
سہراب : فتح مند بوڑھے تو رستم نہیں ہے۔ پھر میری موت پر خوش ہونے کے بدلے اس طرح کیوں رنج کر رہا ہے؟
رستم: (رو کر) اس دنیا میں رونے اور چھاتی پیٹنے کے سوا میرے لیے اب اور کیا باقی رہ گیا ہے۔ مجھ سے نفرت کر۔ مجھ پر ہزاروں زبانوں سے لعنت بھیج
فغاں ہوں حسرت و ماتم ہوں سر سے پاں تک غم ہوں
میں ہی بیٹے کاقاتل ہوں میں ہی بدبخت رستم ہوں
(وہ سہراب کے پاس زمین پر گر پڑتا ہے سہراب اس کے گلے میں ہاتھ ڈال کر چھاتی سے لپٹ جاتا ہے)
سہراب : بابا میرے بابا!
رستم: ہائے میرے لال تو نے الفت سے نرمی سے منت سے کتنی مرتبہ میرا نام پوچھا۔ اس محبت و عاجزی کے ساتھ پوچھنے پر پتھر بھی جواب دینے پر مجبور ہو جاتا لیکن اس دو روزہ دنیا کی جھوٹی شہرت نے میرے ہونٹوں کو ہلنے کی اجازت نہ دی۔ میرے بچے میری تہمینہ کی نشانی ۔
بس نہیں انسان کا چلتا فنا و فوت سے
کیا کرو کس طرح تجھ کو چھین لوں میں موت سے
سہراب: ہو مان بارمان ہجیرسب نے مجھے دھوکا دیا۔ بابا نہ رو! میری موت کو خدا کی مرضی سمجھ کر صبر کرو
مل گئی مجھ کو جو قسمت میں سزا لکھی تھی
باپ کے ہاتھ سے بیٹے کی قضا لکھی تھی
رستم: جب تیری ناشاد ماں ماتم اور فریاد کی تصویر بنی پوچھے گی کہ میرا لاڈلا سہراب میرا بہادر بچہ کہاں ہے تو اپنا ذلیل منہ چھپا لینے کے سوا اور کیا جواب دوں گا
سنوں گا ہائے کیسے مامتا کی اس دہائی کو
کہاں سے لائوں گا مانگے گی جب اپنی کمائی کو
سہراب : پیارے باپ! میری بدنصیب ماں سے کہنا کہ انسان سب سے لڑ سکتا ہے قسمت سے جنگ نہیں کر سکتا۔ آہ! (رستم کی گود سے زمین پر گر کر آنکھیں بند کر لیتا ہے)
رستم: یہ کیا! یہ کیا! میرے بچے آنکھیں کیوں بند کر لیں۔ کیا خفا ہو گئے؟ کیا ظالم کی صورت دیکھنا نہیں چاہتے؟
سہراب: خدا تمہیں تسلی دے۔
رستم: بیٹا بولو۔ چپ کیوں ہو گئے۔ آہ! اس کا خون سرد ہو رہا ہے۔ اس کی سانسیں ختم ہو رہی ہیں۔ اے خدا اے کریم و رحیم خدا۔ اولاد باپ کی زندگانی کا سرمایہ اور ماں کی روح کی دولت ہے۔ یہ دولت محتاجوں سے نہ چھین اپنی دنیا کا قانون بدل ڈال۔ اس کی موت مجھے اور میری باقی زندگی اسے بخش دے
پھینک دے جھولی میں تو میرے گلِ شاداب کو
ہاتھ پھیلائے ہوں میں دیدے میرے سہراب کو
سہراب: (آنکھیں بند کیے ہوئے) دنیا رخصت خدا !
(مر جاتا ہے)

واپس کریں