دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
سول ، ملٹری پیداواری تعاون کا نیا ادارہ ، سفک (SIFC)
منظور حسین گیلانی
منظور حسین گیلانی
ملک کے چھ پیداواری شعبوں میں سرمایہ کاری کے لئے فوجی اور بین الاقوامی ( بلخصوص خلیجی ملکوں ) کے لئے سول ، ملٹری پیداواری تعاون کا نیا ادارہ ، سفک (SIFC) قائم کیا گیا ہے۔حکومت پاکستان نے بیرونی ملکوں ( بلخصوص خلیجی ملکوں) کی پاکستان کے سوشل سیکٹر میں سرمایہ کارواء کے لئے Special Investment Facilitation Council (SIFC) جس کو آسان اردوالفاظ میں ترجمہ ( سرمایہ کاری کا خصوصی سہولتی مرکز، ہو سکتا ہے) کے نام سے ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا ہے جو دفاعی پرو ڈکشن، زراعت ، لائیو سٹاک، معدنیات ، آء ٹی ، اور انرجی کے شعبوں میں مقامی اور دوست ملکوں کی سرمایہ کاری کی سہولت کے لئے کام کرے گا - اس میں مرکزی اور صوباء حکومتوں کے نمائیندوں کے ساتھ فوج کا خصوصی کردار ہوگا - ادارے کی ایکزیکٹیو باڈی کا ڈائیریکٹر جنرل اور اس کے فیصلوں کے نفاذ (implementation) کمیٹی کا سربراہ بھی فوجی افسر ہوگا - اس سے مبینہ طور کام میں شفافیت ، سرعت ، کار کردگی اور اس کے تسلسل میں سرمائے کاروں میں اعتماد پیدا ہوگا جس کا ملک کے عام حالات میں بحران ہے -

پاکستان کی دگر گوں سیاسی صورت حال اور اقتصادی خستہ حالی کی وجہ سے اس کا بین الاقوامی سطح پر سفارتی امیج بری طرح سے متا ثر ہوا ہے - اندرون ملک افراط زر کی وجہ سے مہنگائی اور نجی سطح کی تعمیراتی سر گرمیاں رک گء ہیں جس سے بیروز گاری عروج پر پہنچ رہی ہے - سرمایہ کاری کے لئے پالیسیوں کا تسلسل ہی اس کی کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے ، جس کا اس ملک میں ہمہ وقت فقدان رہا ہے - پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان کا کوء ادارہ سوائے فوج کے ، اپنی پالیسیوں کے تسلسل کو بحال نہیں رکھ سکا - یہ ادارہ کما حق دیگر اداروں کی استعداد کار بڑھانے اور ان کی مدد کے لئے بھی موجود ہوتا ہے ، عام فوجداری مقدمات کے لئے بھی فوجی عدالتوں کا قیام اس کی کلا سیکل مثال ہے - ان انہونیوں کی وجہ سے ہی بیرونی سرمایہ کار ، ریاستوں کے سربراہ ، حکومتی نمائیندے ، یا سفارت کار پاکستان کے فوجی سربراہ سے ملنا سرکاری اور سفارتی لحاظ سے اپنی ترجیح اول سمجھتے ہیں اور فوج ہی کو ریاستی طاقت کا مرکز سمجھتے ہیں - جمہوری ملک میں ایسا ہونا المیہ ہے لیکن یہ ایک زمینی حقیقت ہے - اسی کے پیش نظر میں یہ ہمیشہ کہتا اور لکھتا چلا آرہاہوں کہ جن جن ملکی معاملات میں فوج عمل دخل رکھتی ہے ان میں ان کو قانونی اور آئینی رول دے کر ملکی اداروں کے پاس باقی اتھارٹیز کی طرح ان کو زمہ دار اور جواب دہ بھی ٹھہرایا جائے -

تجربہ یہ بتاتا ہے کہ جن عوامی اہمیت اور مفاد کے کاروباری اور غیر کاروباری اداروں کی سربراہی فوجی افسروں کے پاس رہی وہاں ڈسپلن ضرور رہا ، لیکن وہ ادارے عوامی طرز عمل کے بجائے فوجی ادارے کے طور کام کرتے ہیں جن سے شکایت کے ازالہ کے لئے ان ہی کے ہم پلہ لوگوں کا سہارا لینا پڑتا ہے ان کی جواب دہی عوامی سطح پر ممکن نہیں جس کو ملکی سلامتی کے خلاف سمجھا جاتا ہے - اس ملک میں قومی سلامتی اور قومی مفاد کی تشریح ہمیشہ غالب طاقت کی زبان سے نکلا ہوا لفظ ہوتا ہے -سرمایہ کار سرما یہ کاری کرنے سے پہلے متعلقہ ملک کے قانونی اور عدالتی نظام کی سٹڈی کرتے ہیں کہ ان کے سرمایہ کو خطرے کی صورت میں مقامی عدالتیں انصاف دے سکیں گی یا نہیں- میرے خیال میں پاکستان ان ملکوں میں سے سر فہرست ہے جن کے قانونی اور عدالتی نظام پر بشمول اپنے شہریوں کے ، کسی کو اعتماد نہیں ، جبکہ کامیابی سے کاروباری ادارے چلانے کی وجہ سے فوج پر اعتماد کیا جاتا ہے -صرف کاروبار ہی نہیں ، پاکستان کی قوم اور قومی نمائندوں کو بھی اپنی حکومت پر بھروسہ نہیں جس وجہ سے انتخابات کے لئے غیر جانبدار نگران حکومت آئینی ڈھانچے کا حصہ بنایا گیا ہے - صرف اتنا ہی نہیں ، اکثر سیاست دانوں کا مطالبہ ہوتا ہے کہ انتخاب فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں -اس وجہ سے سب ہمہ مقتدر فوج کے ادارے سے امیدیں لگائے بیٹھتے ہیں جس کی وجہ اس کی مستعدی اور تسلسل ہے گوکہ انسانی کمزوریوں کی حیثیت سے وہ بھی ہم جیسے ہیں کیونکہ ہمارے ہی بچے ہیں -

سوال یہ پیدا ہوتا ہے پاکستان کی چھہتر سالہ تاریخ میں لگ بھگ 35 سال فوج براہ راست اور بقیہ عرصہ میں بلواسطہ ( بشمول حال) حاوی رہی ، یہ نظام درست اور اس میں اعتماد پیدا کرنے میں ناکام کیوں رہی؟ اگر وہ اچھا کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے تو دوسروں کو سکھلاتی کیوں نہیں۔SIFC کے تحت سرمایہ کاری کے لئے جن شعبوں کی نشاندہی کی گء ہے ان کی نوعیت کو اعتبار سے میں دو حصوں میں تقسیم کروں گا؛- دفاعی پرو ڈکشن، (معدنیات ) ، آء ٹی اور انرجی- - زراعت ، لائیو سٹاک اور معدنیات- حصہ نمبر ایک میں بیرونی سرمایہ کاری بہت بڑا نادر موقعہ ہے - دنیا کی ترقی ، بلخصوص فی زمانہ ، ان ہی شعبوں میں پوشیدہ ہے - انرجی کے شعبے میں ایک حد تک معدنیات کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے اور اقتصادی مقاصد کے لئے ایٹمی انرجی بھی اس کا حصہ ہے - پانی ، کوئلہ اور ہوا ( Wind) سطح زمین پر موجود اور دکھاء دیکھنے والی انرجی ہے - اسی طرح آء ٹی اور اس کے اندر نئی نئی جہتیں جیسے آرٹیفشل انٹیلیجنس اس زمانے کا بہت بڑا انقلابی عمل ہے - اس پر توجہ دینے سے ہماری انڈسٹری بیس مضبوط ہوگی اور جو سنڈسٹریز موجود ہیں ان کو مہمیز ملے گی - ان شعبوں میں کافی اونچی سطح کی سائنسی علمیت ، ٹیکنالجی اور مشینری کے ماہرین ،ان کی سیکیورٹی اور کام کی سیکریسی چاھئے جس کے اخراجات بیرونی سرمایہ کار اور باقی کام فوجی تعاون سے ہی ممکن ہو سکتا ہے- اسی طرح آء ٹی اور اس کے اندر نئی نئی جہتیں جیسے آرٹیفشل انٹیلیجنس اس زمانے کا بہت بڑا انقلابی عمل ہے ، یہ بھی بیرونی سرمایہ کاری اور فوجی تعاون کا محتاج ہے - عام ان پڑھ یا اوسط درجہ کا خواندہ اور وہ بھی ٹیکنیکل علم سے بے بہرہ آدمی نہیں کر سکتا - اس موقعہ سے فائیدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں مقامی ٹیکنکل انسٹیٹیوٹس کے قیام اور جو ادارے موجود ہیں ان کو جدت پذیر بنانے کا نادر موقع ملے گا - ان کو امریکہ کے MIT اور ہندوستان کے IIT طرز پر استوار کیا جا سکتا ہے -اس سے ہمیں مقامی طور ماہرین میسر ہونگے اور ہمارے پاس افرادی قوت کا جو بہت بڑا سرمایہ موجود ہے اس کو تیار کر کے بیرون ملک بھیجا جا سکتا ہے جو زرمبادلہ کا بہت بڑا وسیلہ بنیں گے - اس کا فائیدہ خلیجی ملکوں کو پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے ، بلواسطہ ایٹمی تحفظ میں آجانا اور پاکستان کے لئے اس کی افرادی قوت کے ہنر مند ہونے میں مسابقت پیدا ہوکے کے ملکی اقتصادی ترقی کے لئے سونے کی کان کے مانند ہوگا - لیکن اس کے لئے خطے میں امن درکار ہے جس کے لئے بھارت ، افغانستان اور ایران سے تعلقات کو استوار کرنا نا گزیر ہے جو خلیجی ملکوں کے لئے آسانی سے ہو سکتا ہے کیونکہ ان کو سرمایہ کی حفاظت چاھئے جو پاکستان اور ہندوستان میں زیادہ منافع بخش ہے -

یہ حقیقت نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ پاکستان اپنے قیام سے ہی ہندوستان کے ساتھ حالت جنگ میں رہا جن میں 1965- 1971- 1999 بہت ہی تباہ کن تھیں - روس کے خلاف افغانی جہاد میں پھر افغانی جہادیوں کو دہشت گرد قراردینے اور مٹانے کے لئے امریکی جہاد میں پاکستان فرنٹ لائن سٹیٹ رہا - اس وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری ( سوائے سی پک) نہیں ہوء گوکہ ڈالروں کی برسات نے اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہونے دی ، لیکن وہ وقتی تھی - ایسے حالات میں بیرونی سرمایہ کاری ہونے کا تصور بھی کیا جا سکتا -اس طرح ہماری قومی زندگی کے تیس سال ضائع ہوگئے ہندوستان کی اسی لاکھ افرادی قوت خلیجی ملکوں میں اور پچیس ارب روپے کا زر مبادلہ وہاں سے آتا ہے - اس کاروباری موقعہ سے فائیدہ اٹھاتے ہوئے ان کی سہولت کاری کے زریعہ ہندوستان کے ساتھ کشمیر کے مسئلے کے منصفانہ حل اور ہندوستان پاکستان کے درمیان با وقار امن بحال و دوستی پیدا کرنے کا موقعہ پیدا ہو سکتا ہے جس سے خلیجی ملکوں سمیت سب کا سرمایہ محفوظ ہو جائیگا -گوکہ SIFC میں شامل سب پیداواری شعبے ہیں لیکن ان میں سے زراعت ، لائیو سٹاک، معدنیات کا کچھ حصہ صدیوں سے ہماری نجی زندگی کا حصہ چلے آرہا ہیں جن کو اب جدت سے گذارنے کی ضرورت ہے - ان شعبوں میں ملک کے ہر آدمی کی جان ، خوشحالی ، سیاسی ، اقتصادی اور دفاعی استحکام بھی مضمر ہے - ان کو سرکاری یا سرکار کی معاونت سے بیرونی سرمایہ کاروں کے حوالے کرنا اپنے لوگوں اور ان کی صلاحیتوں کو نظر انداز کرنے کے برابر ہے - ان میں لوگوں کی دلچسپی پیدا کرکے ان کو ان کی فعالیئت اور ملکیت کا احساس دلانے میں ہی ملک کا فائیدہ ہے - دنیا میں سو سائیٹی اور تہذیب کا ارتقا زراعت اور لائیو سٹاک سے ہی ہوا- اشتراکی اورکمیونسٹ نظام نے اپنی عوام کو سو سائیٹی اور کمیونٹی کے طور زراعت جیسے پیداواری ملکی ترقی کے لئے آگے لانے کا فلسفہ دیا جس سے ملکی ترقی کے علاوہ قومی یکجہتی کو پروان چڑ ھا یا ۔ سرمایہ داری نظام میں باقی عوامل کے علاوہ کواپریٹئیو سسٹم کو رائج کیا گیا جس سے اپنی قوم کے لوگوں کی سو سائیٹیز کے زریعہ ترقی کی راہ پر گامزن کیا - ہندوستان نے آزادی کے بعد اپنے پہلے پانچ سالہ پلان میں ساری توجہ زراعت کی ترقی، زرعی اصلاحات اور ان سے منسلک شعبوں پر مرکوز کر رکھی -

غیر ملکی ایجنسیوں کے تعاون سے فوج کے زریعہ ملکی ترقی ، وہ بھی پاکستان جیسے ملک میں زراعت، لائیو سٹاک اور معدنیات میں ، عملی طور عام آدمی کو الگ کرناہے ، جو فی الواقع عام آدمی کا روز مرہ کاشغل نہیں ، بلکہ اسباب زیست سے تعلق رکھتا ہے - مجھے احساس ہے کہ ہمارے پاس سرمایہ تو بلکل نہیں ، تربیت یافتہ ہنر مندوں کی بھی کمی ہے جس کے لئے بیرونی تعاون کی ضرورت ہے - اس کے لئے اگر ہمارے برادر اسلامی ملک آمادہ ہیں تو یہ زیادہ خوش آئیند بات ہے - اس عمل کو خود مختار (Autonomous ) کاپوریٹ سیکٹر کی صورت دے کر ان میں عام کاشتکاروں ، محنت کشوں اور ہنر مندوں کو شامل کیا جائے ،جس کی انتظامی اور مالی سربراہی بے شک سرمایہ کاروں اور فوجیوں کے پاس ہو ، لیکن بورڈ آف گورنرس میں مقامی ہنر مند ، تربیت یافتہ افراد ، کاشتکار اور متعلقہ شعبے کے مقامی academics کو شامل کیا جائے جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس عمل کو اپنا لیں اور بیرونی سرمایہ کاری کا انحصار ملکی ہنر مندی کا محتاج ہو - اس نئے ادارے سے پیداوار کے اس مقامی زریعہ کو فوج کے تعان سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے سپرد کرنا اس شعبے سے متعلق 60 فیصد عوام کو بتدریج محروم کر کے پیداواری طاقت پر ایسٹ انڈیا کمپنی قسم کا احیا ہے - ہمارے پاس برطانوی ، ڈچ اور فرانسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے تاجروں کے حکمران بننے کے عمل کی تاریخ موجود ہے -

2000 کی زراعت شماری کے مطابق قابل کاشت رقبے کی 50فیصد سے زیادہ زمین 10فیصد سے بھی کم بڑے زمینداروں کے قبضے میں ہے ، جبکہ Society for Conservation and Protect of Environment (SCOPE) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 64% قابل کاشت رقبہ 5% اشرافیہ کے پاس ہے اور 50.8 سے زیادہ دیہاتی بے گھر ہیں جبکہ 60 فیصد دیہاتی کا پیشہ زمینداری ہے - یہ لوگ کل قابل کار زمینوں ، جس میں لائیو سٹاک بھی شامل ہے ، اپنی روزی روٹی کے لئے ان پانچ سے دس فیصد لوگوں کے رحم و کرم پر ہیں - اس کارپوریٹ venture کے ساتھ ہی درج بالا سروے کے مطابق 95% یا 90 فیصد زمین بے گھر اور بے زمین پاکستانیوں کو لیز پر دے کے ان کو آباد کیا جاتا ، ایک خاص سکیل تک سرکاری زمین ان کو زراعت کے لئے دے کر ان کو جدید ٹیکنالجی، زمینیں آباد کرنے کی صلاحیت کو بڑھانے کے لئے وسائل، ٹرینگ ، بیچ ، آبپاشی ، کھاد ، زرعی ماہرین کی خدمت ، فاضل پیداوار کو موقع پر ہی مناسب قیمت پر خریدنے کا بندوبست کیا جاتا جس میں سے درمیانہ داروں کو نکال دیا جاتا - یہ غریب لوگ ان زمینداروں کی زمینیں آباد کرتے ہیں ، مال مویشی پالتے ہیں ، اپنے خون پسینے کی محنت سے ملک کی اشرافیہ کی رونقیں دو بالا کرتے ہیں ، ان فالتو سرکاری زمینوں کو ان میں بانٹ کے نئے اریجمنٹ میں ان کو شامل کیا جانا ملک کے ساتھ انصاف ہوگا - ہم تو ہندوستان اور دوسرے ملکوں کی طرح زرعی اصلاحات کرنے کی سیاسی طور ہمت نہیں رکھتے کیونکہ بڑے جاگیرداروں نے سیاست کے علاوہ سول اور ملٹری بیرو کریسی میں اپنی جڑیں گھاڑ رکھی ہیں جو ملک میں کوء ایسا کام نہیں ہونے دیتے جس سے تمام پاکستانیواں کو ترقی کے یکساں موقعہ میسر آئیں - اس کامتبادل یہ ہو سکتا ہے کہ زمینوں کی پیداوار ری صلاحیت کے مطابق ان کی متوقع آمدن پر ٹیکس لگایا جائے اور جو قابل کاشت زمین تین سال تک غیر آباد رہے اس کو حکومت اپنی تحویل میں لیکر بے زمین کا کاشت کاروں کو آباد کرنے کو دے تاکہ نہ زمیں بنجر ہو نہ افرادی قوت/ کاشتکار روز گار سے محروم رہے - سول اور فوجی بیرو کریسی کے زیر استعمال سینکڑوں کنال پرمشتعمل گھروں کی زمین کو فارمنگ کے لئے استعمال کیا جائے جو یہ اشرافیہ اپنے کنٹرول میں ملازمین کے زریعہ ان ہی اصولوں کے تحت استعمال کرے جن کا اطلاق باقیوں پر ہو -

اسی طرح جو سینکڑوں ایکڑ زمین ریٹائیر منٹ پر اعلی فوجی جرنیلوں کو دی جاتی ہے، اگر یہ عنایات بند نہیں ہو سکتیں ، اس پر بھی ان ہی اصولوں کا اطلاق کیاجائے - اگر ان زمینوں کو کو ء آباد نہ کر سکے یا فروخت کرنا چاھئے ، یہ ان سے لیکر متعلقہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے کا شتکار فوجی سپاہیوں کو ان ہی شرائط پر دی جائیں جن کا اطلاق عام لوگوں پر ہوتا ہے - ہندوستان نے سارے کنٹونمنٹ کی فالتو زمینیں فوج سے واپس لیکر مقامی ادروں کے سپرد کرنے کا قانون بنا لیاہے - اصلاحات کے لئے موثر تریں آئینی اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے جیسا ہندوستان نے کیا ہے کہ جائیداد ( زمینی جائیداد) کو آئین میں بنیادی حق سے نکال کر قانونی حق کے زمرہ میں لایا گیا ہے - ہمارا اصل سرمایہ ہمارے لوگ ہیں جو دس گز کے گھر اور دو گز کی قبر کے محتاج ہیں ، ان کو کام پر لگانے ، نان شبینہ کمانے ، چھت دینے کے بجائے ان کے ملک کی زمین بین الاقوامی کارپوریٹ سیکٹر کے لئے مقامی سہولت کار مہیا کرکے ان کے حوالہ کرنا انصاف اور شہری حقوق سے ہم آہنگ نظر نہیں آتا - ان کو اس میں حصہ دار بنانے کی کوء سکیم بنائیں ، کمیں کمین نہیں -

سفک نام کے اس ادارے کے سپرد یا اس کے زیر اھتمام جن شعبوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں وقتآ فوقتآ اضافہ بھی ہو سکتا ہے اور کمی بھی - ان میں مقامی پرائیوٹ شعبہ کی سطح پر ٹور ازم کو شامل کیا جانا بھی مناسب ہوگا کیونکہ فی زمانہ یہ بذات خود بہت بڑی انڈسٹری ہے - ٹور ازم کے لحاظ سے ہمارے ملک میں بہترین destinations ہیں جس کے لئے سیاحوں کے تحفظ اور سلامتی کو یقینی بنانا نا گزیر ہوگا جس کے لئے سیاسی ہم آہنگی اور برداشت کی فضا پیدا کرنا ہوگی، جو ان ملکوں میں ہے لیکن اس سلسلے میں پاکستان کا ریکارڈ افغان - روس جنگ کے بعد اچھا نہیں اسی طرح آثار قدیمہ ، قدیمی تہذیبیں ، تہذیبوں کی شکست و ریخت ، سندھ کی قدیمی تہذیب ، گندھارا تہذیب ، ہندو، بدھ، جین ، زرتشتی جیسی قدیم تہذیبیں جو دفن تو زیر زمین ہیں، لیکن تاریخ کی کتابوں میں زندہ ہیں اس ادارے کے سکوپ کو مہمیز اور پاکستان کو دنیا کے لئے کھول دیں گی -
واپس کریں