جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
بھارتی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی آئینی بنچ کے سامنے بحث یدوسرے دن درخواست گذاروں کے وکیلوں میں سے سینئیر ترین وکیل کپل سبل کی ٹیم نے انتہائی سنجیدہ ماحول میں حکومتی احکامات کے غیر آئینی ہونے کو آئین کی کسوٹی پر رکھ کر عدالت کے رو برو پیش کیا - جج صاحبان بھی ہمہ تن گوش تھے اور دفعہ 370 کی مختلف جہتوں کے بارے میں وکلا سے رہنماء لیتے رہے - بظاہر اس نکتے پر مطمئن نظر آرہے ہیں کہ یہ آئین کی ایک مستقل اہمیت کی حامل دفعہ ہے - اس نکتے پر سپریم کورٹ 1959 سے مسلسل یہی موقف رکھے ہوئے ہے - وکلا حضرات نے حکومتی فیصلہ کو آئینی نہیں بلکہ سیاسی فیصلہ ہونے پر اپنے دلائل کو مرکوز رکھا - آئین ساز اسمبلی کے تحلیل اور قانون ساز اسمبلی بھی نہ ہونے کی وجہ سے اس دفعہ کی تنسیخ آئین سے ما روا ہونے پر مدلل دلائل دئے - ترمیم کا طریقہ کار پر بھی ماورا آئین ہونے کی وجوہات پیش کیں - جج صاحبان نے انتہاء شائستگی سے معاملہ کو شفاف بنا نے کی کوشش کی - جج صاحبان میں سے کشمیری نژاد پنڈت جج سنجے کول دفعہ 370 کی پرتوں پر زیادہ واضع نظر آتے تھے - کپل سبل کو سپریم کورٹ سے دس گھنٹے کا وقت دیا گیا ہے جو غالبآ کل اگلی سماعت پر مکمل ہو جائیگا -
آٹھ اگست کو بھارتی سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کی منسوخی و دیگر اقدامات کے خلاف بحث سابقہ پس منظر میں ہی شروع ہوء جس میں اس دفعہ کے مستقل یا عارضی ہونے اور اس کی منسوخی کی جوازیت ، مرکزی حکومت اور پارلیمنٹ کے اختیارات کے دائیرے میں گھوم کر ریاست کو دو حصوں میں یونئین ٹیریٹری کے طور تقسیم کیا گیا- جج صاحبان اور کپل سبل ایڈوکیٹ کے درمیان دفعہ 370 کے مستقل یا عارضی ہونے کی نوعیت اور آئین ساز اسمبلی کی عدم وجود کے باعث اس کی ترمیم یا منسوخی پر سوال جواب ہوتے رہے - اس بات پر سب کا اتفاق رہا کہ یہ قابل ترمیم ہے لیکن اختلاف اس بات پر تھا جب تک آئین ساز اسمبلی کی منظوری نہ ہو اس کی ترمیم یا منسوخی نہیں ہو سکتی - عدالت کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ اگر آئین ساز اسمبلی نہ رہی ہو تو کیا ہندوستانی آئین کی دفعہ 368 کے تحت ترمیم کے اختیارات استعمال نہیں ہو سکتے جس کے تحت پارلیمنٹ کو آئین ترمیم کرنے کا اختیار حاصل جس میں دفعہ 370 بھی شامل ہے جو آئین ہی کا حصہ ہے ؟ یہ بھی پوچھا گیا کہ اگر اس بات پر سب کا اتفاق ہے ترمیم ہو سکتی ہے اور ہونی چاھئے تو پارلیمنٹ ہمہ گیر اختیارات اور مقتدر ہونے کی وجہ سے ترمیم کیوں نہیں کر سکتی ؟
وکلا کی طرف سے اس دفعہ کے مستقل ہونے پر سپریم کورٹ کے ہی سابقہ فیصلوں پر انحصار کیا گیا جبکہ پارلیمنٹ کے اختیار پر وکلا کی دلیل تھی کہ جب آئین ساز اسمبلی کا وجود ہی ختم ہوگیا تھا، قانون ساز اسمبلی معطل تھی، ریاستی اسمبلی کے اختیارات ریاست میں صدارتی نظام ہونے کی وجہ سے پارلیمنٹ کے پاس تھے ، وہان نمائندہ حکومت نہیں تھی تو صدر انتظامی حکم کے تحت کس کی مشاورت سے اس دفعہ کی ترمیم یا منسوخ کرتے ، پارلیمنٹ ریاستی اسمبلی کی اجازت کے بغیر ریاست کو کیسے تقسم کر سکتی تھی ؟ ایک ہی اتھارٹی باقی سب اتھارٹیز کے اختیارات استعمال کرنے کی مجاز نہیں تھی اس طرح ریا ستی اسمبلی اور حکومت بے حیثیت ہوجائیگی جو آئینی ڈھانچے کے خلاف ہے- عدالت کا بین الا لفاظ یہ ماننا تھا کہ جب آئین میں ایسا ہونے کا امکان ہے تو پارلیمنٹ اپنے plenary ( جملہ، ہمہ گیر یا کلہم) اختیارات کے تحت ایسا نہیں کر سکتی تھی ؟ اس کے ساتھ کپل سبل کے بعد دوسرے سینئیر وکیل نے دلائل شروع کئے جس نے ریاست کی تحلیل اور اس کی دو یو نئین ٹیریٹری میں تقسیم کا سوال اٹھایا جس کے ساتھ ہی آج کی سماعت کا وقت ختم ہوگیا -
سپریم کورٹ 1958 سے 2018 تک دفعہ کو مستقل قرار دیتی آئی لیکن اگست 2019 کے احکامات کا آئینی پس منظر اس لحاظ سے مختلف ہے کہ یہ احکامات ہندوستانی آئین کی دفعہ 367 میں ترمیم کرکے آئین ساز اسمبلی کوقانون ساز اسمبلی اور گورنر کو ریاستی حکومت کی تشریحات میں شامل کیا گیا اور ریاست میں صدارتی نظام ہونے کی وجہ سے ریاستی اسمبلی کے اختیارات پارلیمنٹ کے پاس اور یو نئین ٹیریٹری ہونے کی وجہ سے حکو متی اختیار مرکزی حکومت کے پاس ہیں ، اس ترمیمی ہیرا پھیری کی روشنی میں زیر تنازعہ احکامات جاری کر کے ان کو دفعہ 370 کی منسوخی کے تقاضے پورے کرنے پر منطبق کیا جارہا ہے - میں نے دفعہ 368 کے تحت باقی ہندوستانی آئین کی ترمیم کا زکر بھی کیا ہے لیکن دفعہ 370 کی ترمیم یا تنسیخ کا زکر چونکہ اسی دفعہ کے اندر موجود ہے اس لئے 368 کا اطلاق ناممکن سمجھا ، لیکن آج عدالت کے ریمارکس میں اس دفعہ کے تحت بھی دفعہ 370 کی منسوخی پر سوال پوچھا گیا کہ 370 آئین کا حصہ ہے تو ایسی صورت مییں 368 کے تحت بھی ترمیم ہو سکتی ہے -جس سے لگتا ہے کہ پارلیمنٹ کے plenary اختیارات کا تذکرہ اسی پس منظر میں ہوا ہے - حالانکہ دفعہ 370 کو باقی سارے آئین پر ان الفاظ سے فوقیت دی گء ہے Notwithstanding anything in this constitution- ابھی تک یہ دلیل کسی وکیل کی طرف سے نہیں آء ، ممکن ہے اب آجائے -
واپس کریں