دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
عدالتوں کا غیر متوازن کردار
منظور حسین گیلانی
منظور حسین گیلانی
سوشل میڈیا پر ایک وڈیو وائیرل ہوء ہے جس میں فرانس کے غالبآ پیرس شہر میں زاتی ، نجی اور بے تکلف حالت میں جنرل قمر جاوید باجوہ سابق پاکستان آرمی چیف کی اپنی بیگم صاحبہ کے ہمراہ کسی فلیٹ کے باہر سڑک سے منسلک سیڑیوں پر بے تکلف ، فوج کی مجموعی طور چالیس اور آرمی چیف کی حیثیت سے چھ سال کی پر شکوہ اور اقتدار و اختیار سے مخمور زندگی گذارنے کے بعد ریلیکس موڈ میں دنیا اور ما فیہا سے بے نیاز بیٹھے تھے کہ کسی سر پھرے نے ان کی وڈیو بنانا شروع کی جس پر جنرل صاحب نے اس کو پولیس کو بلانے کی دھمکی دیتے ہوئے منع کیا لیکن اس نے پشتو میں ، غالبآ گالیاں دیتے ہوئے یہ سلسلہ جاری رکھا بلکہ جنرل صاحب کو بہت دور تک پیچھا کیا ا ور گالی گلوچ جاری رکھی -اس شخص کی یہ حرکت صریحآ غیر اخلاقی اور دنیا کے ہر قانون مکے تحت غیر قانونی تھی جس کی ہر مہذب انسان کو مذمت کرنا چاہئے۔

یہ عبرت کا مقام بھی ہے - یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ اس نے پاکستانی فوج کے سربراہ کی حیثیت سے ایسا کیا - اس نے سارے اداروں اور نظام کو عمران خان کے وزیر اعظم بنانے کے لئے دا پر لگا دیا - فوج کے ریٹائیرڈ بلکہ حاضر سروس فوجیوں کو بھی اس کام پہ لگا دیا - اس وقت کی آء ایس پی آر کے جنرل کو پی ٹی آء کا نمائیندہ مانا جاتا تھا - شو مئی قسمت عمران خان کے اقتدار کی غرور نے اس کو آپے سے باہر کردیا اور لانے والوں کو ہی اپنی طفلانا حر کتوں سے عام لوگوں کی نظروں میں گرا دیا جس وجہ سے فوج کو اعلان کرنا پڑا کہ وہ نیوٹرل ہوگء ہے - اس کے اس طرز عمل کے خلاف ادارے نے اس ایک آدمی کے خلاف کوء کارواء نہیں کی ، لہذا جو کچھ اس کے خلاف ہورہا ہے وہ بلواسط فوج کے ادارے کے خلا ف ہو رہا ہے جس نے اس کو اس عمل سے روکا نہیں -اس کا ایک غیر جاندار منصف کے طور ادراک کرنا لازمی ہے۔

عمران خان کے مطابق نیوٹرل ہونے کا مطلب حیوان ہے اور اگر وہ حیوان نہیں تو وہ حق باطل کی جنگ میں اس کا ساتھ دیں جو بزعم خویش حق پر ہے - فوج کے نیوٹرل ہونے کے ا علان میں اس حقیقت کا اعتراف تھا کہ وہ جانبدار نہیں رہی ہے جس کا اظہار بار بار کے مارشل لا اور تین چار سال کے بعد سیاسی حکومتوں کو چلتا کرنے سے واضع بھی ہے - اس منظر میں ساری سیاسی جماعتوں کو فوج کے خلاف تحفظات ہیں اور یہ جذبات سب کے اندر مسلسل موجود ہیں لیکن کسی نے ان کو تشدد میں نہیں بدلا نہ ہی یہ کچھ کیا جو 9 اگست کو خان صاحب کے فدائین نے کیا- گوکہ زبانی کلامی دوسروں نے بھی کوء کسر باقی نہیں چھوڑی تھی ۔

عمران خان اور اس کے ورکرز کا طرز تخاطب ، طرز عمل اور لچر پن مجھے کبھی پسند نہیں آیا - لیکن ملک کی پچاس فیصد سے زیادہ آبادی اس کو پسند کرتی ہے جس دھیمک کا شکار بد قسمتی سے میرے بچے بھی ہیں- اس پچاس فیصد لوگوں کے نظریات اور عمران خان سے یکسر اختلاف کے قطع نظر ، ان کے حقوق اور انسانی احترام لازمی ہے ، ان کے طرز عمل کے رد عمل میں اس حد تک جانا جو موجودہ حکومت کے مخالفین یا نقادوں کا حزیمت آمیز پکڑ دھکڑ سے ظاہر ہورہا ہے وہ بھی ہر گز مناسب نہیں - جس مشکوک زہنی کیفیت میں تحریک انصاف کے بڑے بڑے لیڈر اور قومی نمائیندے جیل سے نکلتے ہی پی ٹی آء کے عہدے بھی چھوڑتے ہیں اور پی ٹی آء بھی بلکہ سیاست بھی ، یہ کسی نیک نئیتی کا نہیں بلکہ فر سٹریشن اور خوف کا مظاہرہ ہے - خوف کی وجہ سے کسی کا ساتھ چھوڑنا یا کسی دوسرے کا احترام کرنا کسی بھی طرح سے حوصلہ افزاعمل نہیں ہے - اگر عمران خان اتنا ہی برا تھا تو وہ بھی اس میں برابر کے شریک تھے جو چپ سادھ بیٹھے رہے - اس کو بھی لوگ اسٹیبلشمنٹ کی کارستانی سمجھتے ہیں اور تحت الشعور میں اسی کے خلاف غصہ اور مخاصمت پیدا ہوتی اور بڑھتی جارہی ہے ۔

تاریخ پر نظر ڈالیں تو غداری اور کرپشن کے الزام پر اسی طر ح حکومتیں نکالی ، ان کے لیڈروں اور ورکرس کو رگڑا دیا جاتا رہا اور وہ اسی طرح متعون جماعتیں چھوڑتے اور شدھی ہونے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی پسندیدہ جماعتوں میں حب الوطنی کے نام پہ جاتے رہے - پاکستان میں یہ عمل نظام شمسی کی طرح چلتا رہتا ہے - آج کی حکومت والوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ انہوں نے بھی ان حرکتوں سے باز نہیں آنا جیسے یہ ماضی میں کرتے رہے اور بھگتتے رہے جس طرح عمران خان بھگتتا ہے اور عین ممکن ہے اس وقت یہ سب لوگ ایک صفحے پر ہوں ۔

کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس احتساب کا ایک منظم نظام موجود ہے اور مجھے یقین ہے کہ ایسا ہوگا کیونکہ اس میں ابھی تک ڈسپلن موجود ہے گوکہ عمران خان فیکٹر نے اس میں دراڑ ڈالی ہے - اس خدشے کو سامنے رکھتے ہوئے اسی احتساب کے نظام کے تحت اپنی مجموعی خود احتسابی کے زریعہ ان اعتراضات کا اپنے ادارے کا اندرونی اور بیرونی اعتراضات کی روشنی اور عالمی معیار پر جائزہ لیکر ان عوامل سے اسی طرح ہاتھ کھینچا جائے جیسے سیاست چھوڑ کے غیر جانبداری کا رویہ اپنا یا ہے - فی الحال ملک میں صرف یہ ادارہ منظم اور متحد ہے ، اس کی یہ حالت بحال ہی نہیں بلکہ confidence inspiring بنانے کی ضرورت ہے ، لیکن جائز اعترا ضات کا ازالہ بھی لازمی ہے ۔

نو اگست کے افسوس ناک واقعہ کے حوالے سے یہ عاجزانہ در خواست ہے کہ اس میں بلا شک و شبہہ جو لوگ تحقیقات میں ملزم ثابت پائے جائیں وہ جس جنس یا جس حیثیت کے مالک ہوں ان کو عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے-نیز ان کا ٹرائیل بجائے فوجی عدالتوں کے ( جن کو بھی یقینآ اختیار ہے ) سول کورٹس کے زریعہ کیا جائے اور سول کورٹس کے ججز ان مقدمات کی سماعت کے دوران کوء دیگر عدالتی کام نہ کریں تاکہ ان کا فیصلہ بعجلت ممکنہ ہو سکے - اس سے پہلے ملٹری کورٹس کا سویلینز کے خلاف ٹرائیل کا تجربہ کامیاب نہیں رہا ، اب بھی نہیں رہے گا - اس کا ادراک کریں ۔

دیکھنے میں آرہا ہے اور محسوس بھی ہورہا ہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے عہد کے دوران سابق جنرل قمر جاوید باجوہ نے عدلیہ کو جس کام پہ لگایا تھا وہ اسی لائن پر کام کر رہی ہے - اس کا سب سے زیادہ مظاہرہ سپریم کورٹ پاکستان، لاھور اور اسلام آباد ہاء کورٹس اور ان کی ماتحت عدالتوں میں بھی ہورہا ہے - بڑی عدالتیں آپس میں گروپ بندی کا شکار ہیں - چیف جسٹس چونکہ عدالت کے انتظامیہ معاملات کے سربراہ ہوتے ہیں اس لئے بات ان ہی کی چلتی ہے جبکہ اختلاف رکھنے والے عضوے معطل ہوگئے ہیں - سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ اور حکومت کے درمیان بلی چوہے کے کھیل نے تینوں اداروں کو کھلواڑ اور تضحیک کی علامت بنا دیا ہے - طاقت قانون کی ہوتی ہے لیکن تینوں ادارے قانون کی مخالف سمت میں کھیل رہے ہیں - ایسے حالات میں طاقت کا توازن حکومت کے پلڑے میں چلا جاتا ہے اور حکومت اپنی طاقت سیاست کے زور پہ چلا رہی جو عمران خان کے غلط کھیلنے ، پھر معتوب ہونے کے بعد پی ڈی ایم کے پاس ہے - اس لئے ا ب طاقت غیر متوازن ہوگء ہے - اس کو عدلیہ قانون کی کسوٹی پر پرکھ کر سمت دے سکتی تھی ، جو بظاہر جانبداری کی وجہ سے یہ رول ادا نہیں کر رہی -

ریاست کا فوجداری نظام عملی طور ججوں کی مرضی کے تابع ہو گیا ہے۔ عدالتیں نہ صرف سابق اور حال بلکہ مستقبل میں ہونے والے ہر قسم کے مقدمات کی ضمانتیں کررہی ہیں، بلکہ ریمانڈ کے لئے پیش ہونے والے مقدمات میں ریمانڈ دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرنے کے بجائے ملزماں کو بری کررہی ہیں - ممکن ہے کیس برئیت کے ہی ہوں ، لیکن وہ مرحلہ یا سٹیج یہ فیصلہ کرنے کا نہیں بلکہ صرف ریمانڈ دینے یا نہ دینے کا ہے - ہر دو صورتوں میں تفتیش مکمل ہونا لازمی ہے - چوبیس گھنٹے میں تفتیش مکمل نہ ہونے کی صورت میں چالان پندرہ دن کے اندر پیش کیا جانا لازم ہے اور اس عرصہ کے دوران ملز م پولیس یا جوڈیشل ریمانڈ پر دیا جا سکتا ہے - اس عرصہ کے دوران عدالت مجاز ضمانت پر تو چھوڑ سکتی ہے ، لیکن ریمانڈ کے سٹیج پر تھوک کے بھا ایسا کرنا عدالت اور نظام کی توہین ہے-

فوج کے بعد عدالتیں ہی منظم ادارہ ہیں ان کو اپنا بھرم قائم رکھنا چاھئے ، ورنہ لوگ خود گلی گلی عدالتیں لگائیں گی جن میں سب سے پہلے ٹرائیل ججوں کا ہی ہوگا جن کے خلاف اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ غصہ ہے - خدا نخواسطہ اگر کبھی ایسی نو بت آء ، گلی محلے والی عدالتیں ریمانڈ کے سٹیج پربری کرنے کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے حتمی سزا بھی دے سکتے ہیں- ایسا وقت آنے سے بچنے کے لئے قانون کا احترام سب پر واجب ہے ۔
واپس کریں