دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیری حریت رہنمایاسین ملک کو سزائے موت دینے کا بھارتی منصوبہ
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
بھارت کی نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسیNIAنے مقبوضہ کشمیر کے معروف آزادی پسند رہنما یاسین ملک کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے اس سلسلے میں دہلی ہائیکورٹ میں درخواست جمع کرا دی ہے۔ دہلی ہائیکورٹ کا جسٹس سدھارتھ مردول اور جسٹس تلونت سنگھ پر مشتمل ڈویژن بنچ ' این آئی اے ' کے اس درخواست پہ مقدمے کی سماعت کرے گا۔یاسین ملک کو گزشتہ سال ' این آئی اے' کی خصوصی عدالت نے ' یو اے پی اے ' کے تحت دہشت گرداقدام، دہشت گردانہ کارروائی کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے،دہشت گردانہ کارروائی کی سازش اور دہشت گرد تنظیم کا رکن ہونے ،مجرمانہ سازش،ریاست کے خلاف جنگ چھیڑنے،غداری کے الزامات میں عمر قید کی سزا سنائی تھی۔بھارتی عدالت نے گزشتہ سال مارچ میں کشمیر کے آزادی پسند رہنمائوں یاسین ملک،شبیر احمد شاہ،حزب المجاہدین کے سربراہ سید صلاح الدین، راشد انجینئر، ظہور احمدشاہ وتالی، شاہد الاسلام ، الطاف احمد فنتوش ، نعیم خان اور فاروق احمد ڈار کے خلاف مقدمے میں غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے ایکٹ ' یو اے پی اے' کے تحت الزامات عائید کئے تھے۔

29مئی کو دہلی ہائیکورٹ کے ڈویژن بنچ میں یاسین ملک کے خلاف مقدمے کی سماعت میں ' این آئی اے' کے وکیل تشار مہتا نے یاسین ملک کے لئے سزائے موت کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ 57سالہ یاسین ملک کو موت کی سزادینا ضروری ہے۔ ' این آئی اے' کی درخواست پہ مقدمے کی سماعت میں عدالت نے مقدمے میں یاسین ملک کے نام نوٹس جاری کرتے ہوئے مقدمے کی اگلی سماعت پہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ دہلی ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے مقدمے کی آئندہ سماعت کی تاریخ9اگست مقرر کی ہے اوریاسین ملک کو سزائے موت دینے سے متعلق لاء کمیشن کی رائے بھی طلب کی ہے۔بھارتی حکومت نے یاسین ملک سمیت کئی کشمیری حریت پسند رہنمائوں کو نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید رکھا ہوا ہے۔

کشمیری حلقے بھارت کی نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) کی طرف سے قید پارٹی چیئرمین یاسین ملک کو سزائے موت دینے کی مذموم کوشش کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ کشمیر کے مختلف سیاسی ، عوامی حلقوں کی طر ف سے گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ آزاد ی پسند رہنما یاسین ملک کو مطالبہ آزادی کی وجہ سے سنگین الزامات میں مقدمات چلانا کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی اوربھارتی حکومت کے اپنے خطرناک ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے عدالتی نظام کو ہائی جیک کرنے اور اس کا استحصال کرنے کے عزائم کوبے نقاب کرتی ہے۔کشمیری حلقوں کا کہنا ہے کہ یاسین ملک مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کی وکالت میں تحریک آزادی کشمیر کے رہنما ہیں اور بھارتی حکومت سیاسی محرک کی وجہ سے ان کے خلاف سنگین الزامات عائید کرتے ہوئے انہیں پھانسی دینے کی کوشش کر رہی ہے۔اس صورتحال میں دنیابھر میں کشمیریوں کے خلاف بھارت کی ریاستی دہشت گردی کے خلاف سرگرم آواز بلند کرتے ہوئے یہ معاملہ عالمی اداروں میں بھی اٹھایا جانا چاہئے۔کشمیریوں کے خلاف بھارتی حکومت کے اس طرح کے اقدامات سے مقبوضہ کشمیر میں صورتحال سنگین سے سنگین تر ہو سکتی ہے۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ بھارت کی بہت سی اپوزیشن جماعتوں کا بھی کہنا ہے کہ بھارتی حکومت نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی' این آئی اے ' کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ناجائز طور پر استعمال کر رہی ہے اور اس کے ذریعے سیاسی مخالفین کو دبایا جا رہا ہے۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی سربراہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندوتوا حکومت2024کے انتخابات جیتنے کے لئے جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو پھانسی دینے کی سازش کر رہی ہے اوربھارتی حکومت کے اس طرح کے اقدامات .کشمیر یوں کی آزادی پسند قیادت کو ختم کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ بلاشبہ بھارتی حکومت کی اس طرح کی کاروائی نسل پرست حکومت کی متعصبانہ ذہنیت کی عکاسی ہے۔بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں ہر قسم کے اختلاف رائے کو دبانے کے لئے ظلم و جبر کا ہر حربہ استعمال کر رہی ہے۔

یہاں یہ بات بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظلم وجبر کی شدت کی صورتحال سے بے خبر پاکستان کے بعض حلقے اس بات پہ حیرانگی کا اظہار کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں حریت کانفرنس کے رہنمائوں کی طرف سے سیاسی سرگرمیاں کیوں نظر نہیں آ رہیں۔مقبوضہ کشمیر کے حریت رہنما یا تو جیلوں میں قید ہیں یا گھروں میں مقید ہیں۔ حریت کانفرنس کے سینئر کارکن بھی بھارتی جیلوںمیں قید رکھے گئے ہیں۔ بھارتی حکومت ایسے کشمیریوں کو بھی پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کر کے جیلوں میں قید کر دیتی ہیں جن کے متعلق انہیں خدشہ ہو کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف بات کر سکتے ہیں۔یہ کہنا درست ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کے مظالم اور جبر کی صورتحال ایسی ہے کہ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں سیاسی سرگرمیوں کی بھی اجازت نہیں ہے، سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں کو بھی فوج کی بندوق کی نوک پہ رکھا گیا ہے۔واضح رہے کہ چند ہی ہفتے قبل مقبوضہ کشمیر میں متعین بھارت کے سابق گورنر ستیا پال ملک نے ' دی وائر' کو ایک انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ بھارتی حکومت نے5اگست2019کے اقدام سے پہلے ہی ایسے سخت ترین اقدامات کر لئے تھے کہ مقبوضہ کشمیر میں یہ ممکن ہی نہیں رہا کہ'' کوئی کتا بھونک سکے یا کوئی چڑیا چہچہا سکے''۔

مقبوضہ کشمیر میں آزادی پسند سیاسی رہنمائوں ، کارکنوں کو تادیبی کاروائیوں کے نام پہ قتل کرنے کی بھارتی حکومت کی ان کاروائیوں کی صورتحال میں یہ ضروری ہے کہ دنیا بھر میں بھارت کے خلاف کشمیریوں کے احتجاجی مظاہرے کئے جائیں اور اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اورعالمی طاقتوں سے رابطے کرتے ہوئے نہتے کشمیریوں کے خلاف بھارت کے وحشیانہ انسانیت سوز اقدامات کی صورتحال ان کے سامنے رکھی جائے۔پاکستان کی وزارت خارجہ کو بھی کشمیر کی سنگین صورتحال کو اقوام عالم میں شدت سے اٹھانے کے لئے اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کرنا ہوں گی۔ یہاں آزاد کشمیر حکومت کو بھی اپنی ذمہ داریوں پہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے مقامی نوعیت کے امور و مسائل میں محدود رہنے کے بجائے ، کشمیر کاز کے حوالے سے محض بیانات دینے کے بجائے ایسے عملی اقدامات پر توجہ سے جس سے آزاد کشمیر حکومت اور آزاد کشمیر کا خطہ کشمیر کاز سے متعلق اپنی ذمہ داریوں کے مطابق اپنا کردار موثر طور پر ادا کر سکے۔













واپس کریں