دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقبوضہ کشمیرمیں جی20 اجلاس ، مسئلہ کشمیرایک بارپھرعالمی سطح پہ موضوع بن گیا
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی فوج کے ہاتھوں ایک لاکھ شہید ، دس لاکھ بھارتی فوج حالت جنگ کی طرح مسلط ، ہر کشمیری کے سر پہ بھارتی بندوق ، کشمیریوں کے خلاف متعدد انسانیت سوز کالے قوانین نافذ ، ہزاروں کشمیری قید،ہزاروں معذور ، اجتماعی قبریں ، کشمیرمیں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پہ پامالیوں کا سلسلہ اور اس متعلق عالمی اداروں کی رپورٹس ، اورانڈیا کا کشمیرمیں ٹورازم کا ڈھونگ ، کشمیریوں کی لاشوں پہ ٹورازم؟

دنیا کی 20بڑی معیشتوں کے اتحادجی20کی صدارت گزشتہ سال کے آخر میں بھارت کے حصے میں آئی اور جی20کی 2023کانفرنس اس سال 9اور10ستمبر کو بھارت میں منعقد ہو گی۔جی20میں یورپی یونین،ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جنوبی کوریا، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ ، ترکی، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔جی20کی صدارت ہر سال خود کار طور پر تبدیل ہوتی ہے اور 2023کے لئے اس کی صدارت بھارت کے حصے میں آئی ہے۔جی20دنیا کے اقتصادی طور پر طاقتور ممالک کی تنظیم ہے جن کی عالمی پیداوار دنیا بھر کی عالمی پیداوار کا تقریبا80 فیصد ، بین الاقوامی تجارت75 فیصد،آبادی دنیا بھر کی آبادی کا60فیصد ہے اور ان ممالک میں عالمی ماحولیات کو نقصان پہنچانے والے ایندھن کا اخراج84 فیصد ہے۔2023 کی جی 20 کانفرنس کی مرکزی تقریب نئی دہلی میں منعقد ہونی ہے جبکہ جی20 کے مختلف اجلاس بھارت کے دیگر28شہروں میں منعقد ہوں گے۔بھارت نے جی20 کی صدارت سنبھالنے سے پہلے سے اعلان کیا کہ جی20کا ایک اجلاس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی طرف سے متنازعہ قرار دی گئی ریاست جموں وکشمیر میں بھی منعقد کیا جائے گا۔

2 اور3مارچ کو نئی دہلی میں جی20کے رکن ممالک کی وزرائے خارجہ کانفرنس منعقد ہوئی۔اس وزرائے خارجہ کانفرنس کا موضوع لائف اسٹائل فار انوائرمنٹ تھا لیکن مغربی ممالک نے کوشش کی کہ اس اجلاس میں یوکرین کے مسئلے پر روس کی مخالفت کو کانفرنس کا مرکزی موضوع بنایا جائے۔مغربی ممالک کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس میں کی گئی تقاریر بھی اسی حوالے سے رہیں۔مغربی ملکوں نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ جی20کے صدر کی حیثیت سے روس سے مطالبہ کیا جائے کہ وہ یوکرین کے خلاف جنگ ختم کرے۔خاص طور پر امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے اس بات پہ زور دیا کہ جی20وزرائے خارجہ کانفرنس میں روس سے جنگ بند کرنے اور یوکرین سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا جائے۔روس نے اس پر سخت ردعمل ظاہر کیا جس سے جی20وزرائے خارجہ کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہ کیا جا سکا۔ روسی وزیر خارجہ سرجی لاوروف نے یوکرین کے معاملے کو کانفرنس کا مرکزی موضوع بنانے کی کوشش کی سختی سے مذمت کی اور اس معاملے پہ جی20ممالک اور خاص طور پر جی20کے صدر بھارت سے اس معاملے پر احتجاج کیا۔روسی وزیر خارجہ نے کہا کہ کیا جی20نے عراق، لیبیا، افغانستان یا یوگوسلامیہ کے مسائل پر بات کی ہے جو یوکرین کے مسئلے پہ ایک فریق بننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔اس طرح جی20وزرائے خارجہ اجلاس میں یوکرین کے مسئلے پر جی20ممالک کے درمیان اختلاف رائے سے میزبان ملک اور جی20کے صدر بھارت کی پوزیشن نازک صورتحال سے دوچار ہو گئی۔

بھارتی حکومت ٹورازم کے نام سے جی20 کا ایک اجلاس سرینگرمیں22 سے 24 مئی تک منعقد کر رہا ہے تاہم چین، ترکی ، سعودی عرب اور مصر مقبوضہ کشمیر کے متنازعہ خطے کی وجہ سے اس میں شرکت نہیں کر رہے جبکہ جی20 کے باقی رکن ممالک نے بھی سرینگر اجلاس میں نچلی ترین سطح کی شرکت کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت ان ملکوں کے نئی دہلی میں قائم سفارت خانوں کے افسران شرکت کریں گے۔مقبوضہ کشمیرمیں جی 20 ٹورازم اجلاس کے حوالے سے نہایت سخت ترین حفاظتی انتظامات کرتے ہوئے سرینگر کو بھارتی کمانڈوز کے سپرد کیاگیا ہے اور کشمیریوں کی نقل و حرکت پہ پابندیاں لگائی گئی ہیں۔سرینگرمیں22 سے 24 مئی تک غیراعلانیہ کرفیو کی صورتحال رہے گی بلکہ پہلے سے ہی شہریوں کی نقل و حرکت پرپابندیاں عائید ہیں۔سری نگر بے مثال حفاظتی چادر میں ہے۔ میرین کمانڈوز اور نیشنل سیکیورٹی گارڈز (این ایس جی) کو زمین سے فضائی حفاظت کے حصے کے طور پر خطے میں تعینات کیا گیا ہے۔میرینز، جسے مارکوس کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نے جی 20 اجلاس کے مقام، شیرِ کشمیر انٹرنیشنل کنونشن سینٹر کے آس پاس ڈل جھیل کی سیکیورٹی سنبھال رکھی ہے۔ این ایس جی کمانڈوز پولیس اور نیم فوجی دستوں کے ساتھ مل کر علاقے پر تسلط کی مشقیں کر رہے ہیں، زمین سے فضا تک فول پروف حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔

یہ سمجھنا بالکل بھی مشکل نہیں کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جی20اجلاس رکھنے سے کیا مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔بھارت کی کی کوشش ہے کہ سرینگر میں دنیا کی 20بڑی معیشتوں کا اجلاس منعقد کرتے ہوئے بالواسطہ طور پر مقبوضہ جموں وکشمیر سے متعلق بھارتی حکومت کے5اگست 2019کے اقدامات کی تائید حاصل کی جائے۔ بھارت کے پالیسی سازوں کا خیال ہے کہ سرینگر میں جی20اجلاس منعقد کرنے سے بھارت کو مسئلہ کشمیر پر جی20 کے رکن ممالک کی حمایت حاصل ہو جائے گی۔

بھارت کی طرف سے سرینگر میں جی20اجلاس کے انعقاد کے اقدام سے مسئلہ کشمیراور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پہ خلاف ورزیوں کی مسلسل صورتحال ایک بار پھر عالمی موضوع بن گئی ہے۔ دنیا بھر کے عالمی میڈیا ادارے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین صورتحال اور مسئلہ کشمیر کے بارے میں مختلف رپورٹس اور خبریں شائع کر رہے ہیں۔اس طرح سرینگر میں جی20اجلاس سے بھارتی حکومت کی مقبوضہ کشمیرمیں انسانیت سوز کاروائیاںعالمی موضوع بن گئی ہیں۔

بھارت کے ارباب اختیار کا خیال ہے کہ دنیا کے معاشی طور پر طاقتور ملکوں کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں اجلاس میں شرکت سے بھارت کے کشمیر سے متعلق موقف کو تقویت حاصل ہو گی اور اس سے بھارت کو لداخ کے معاملے پہ چین کے خلاف بھی حمایت حاصل ہو سکتی ہے۔مسئلہ کشمیر سے متعلق اس وقت تک عالمی صورتحال یہی ہے کہ عالمی برادری اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کے مطابق ریاست جموں وکشمیر کو ایسا متنازعہ خطہ تصور کرتی ہے جس کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ اقوام متحدہ کی زیر نگرانی رائے شماری کے ذریعے طے کیاجانا ہے جس میں کشمیری عوام آزادانہ طورپر اپنی رائے کا اظہار کریں۔جبکہ بھارتی حکومت جی20کا سربراہی اجلاس سرینگر میں منعقد کرتے ہوئے کشمیر کے دیرینہ عالمی مسئلے کو دہشت گردی کے طورپر پیش کرنا چاہتی ہے لیکن مسئلہ کشمیر کے حوالے سے زیادہ چالاکی دکھانے کی کوشش الٹا بھارت کے گلے پڑ رہی ہے۔

واپس کریں