دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
حکومت کی تبدیلی کا مثبت اقدام ، وزیراعظم چودھری انوار سے توقعات
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
آزادکشمیر میں وزیر اعظم چودھری انوار الحق کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت کو ایک مثبت تبدیلی کے طو ر پر دیکھا جا رہا ہے۔آزاد کشمیر کی پارلیمانی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب آزاد کشمیر میں تمام بڑی پارلیمانی سیاسی جماعتوں پر مشتمل حکومت قائم ہوئی ہے۔اس مخلوط حکومت کے قیام سے آزاد کشمیر میں2021کے الیکشن میں آنے والی ' پی ٹی آئی' کی سیاسی تحلیل کا فطری عمل بھی شروع ہو گیا ہے جس کا قیام بڑی مقدار میں پیسے کے بل بوتے عمل میں لایا گیا تھا۔32ارکان اسمبلی رکھنے والی' پی ٹی آئی' سکڑ کر7ارکان اسمبلی تک محدود ہو گئی ہے۔تقریبا دوسال قبل آزاد کشمیر میں ' پی ٹی آئی ' حکومت کو لایاگیا توعمران خان کی طرف سے مسلط کئے جانے والے وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی نے وزیر اعظم بنتے ہی اپنے رشتہ داروں، اپنے مقامی علاقے کے افراد کی درجنوں کی تعداد میں سرکاری عہدوں پر تقرریوں کا سلسلہ شروع کر دیا اور وزیر اعظم کے طورپر سب سے پہلے ایسے احکامات صادر کئے جن سے ان کے خاندانی کاروبار کو فائدے حاصل ہو سکیں۔

آزاد کشمیر کے2021کے الیکشن میں تنویر الیاس نے ہر حلقے میں دولت کے بل بوتے سیاسی فتوحات کاسلسلہ شروع کر دیا۔اربوں روپے لگا کر آزاد کشمیر میں ' پی ٹی آئی ' کی حکومت تو قائم ہو گئی لیکن وزیر اعظم کا عہدہ نہ تو اربوں روپے خرچ کرنے والے تنویر الیاس کو ملا اور نہ ہی ' پی ٹی آئی ' کے صدر بیرسٹر سلطان محمود چودھری وزیر اعظم بن سکے۔تنویر الیاس نے بیرسٹر سلطان محمود چودھری سے ' پی ٹی آئی ' کی صدارت چھین لی اور آزاد کشمیر کا صدر بنوا کر انہیں پارلیمانی سیاست سے ہی آئوٹ کر دیا۔تنویر الیاس موسٹ سنیئر وزیر بنے تو انہیں معلوم ہوا کہ ا س عہدے میں تو انہیں کوئی اختیار ہی حاصل نہیں ،لہذا وہ خود وزیر اعظم بننے کے لئے اپنی ہی پارٹی کے وزیراعظم کے خلاف سرگرم ہو گئے۔ علی امین گنڈہ پور عمران خان کے قریبی ساتھی اور وزیر امور کشمیر کے طورپر آزاد کشمیر کے الیکشن کے دوران حلقوں میں پیسے تقسیم کرنے سمیت تمام معاملات میں تنویر الیاس کے ساتھ شامل رہے۔عبدالقیوم نیازی کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا کر تنویر الیاس کو وزیر اعظم بنانے میں بھی علی امین گنڈہ پور نے بھر پور کردار دا کیا۔ اس معاملے میں بھی کروڑوں روپے لینے اور دینے کی اطلاعات زبان زد عام ہیں۔

تنویر الیاس کی سربراہی میں ' پی ٹی آئی ' کی پارلیمانی پارٹی نے عبدالقیوم نیازی پر کرپشن، اقرباپروری سمیت کئی سنگین الزامات لگاتے ہوئے عمران خان کی معاونت سے انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹوا دیا اور تنویر الیاس وزیر اعظم کے اس عہدے پہ براجمان ہو گئے جس کے لئے انہوں نے اربوں روپے خرچ کئے تھے۔وزیر اعظم بنتے ہی تنویر الیاس نرگسیت کا شکار ہوئے اور خود کو ہر معاملے میں عقل کل سمجھنے لگے۔الیکشن سے لے کر وزارت عظمی کا عہدہ استعمال کرنے میں بے تہاشہ دولت استعمال کر کے کامیابی حاصل کرنے سے وزیراعظم تنویر الیاس کی خود اعتمادی بد تہذیبی اور مزاحیہ پن کی حدیں عبور کرنے لگی۔انفامیشن ٹیکنالوجی، ٹورازم اور بیرونی سرمایہ کاری کے نعرے لگانے والے وزیراعظم تنویر الیاس کی تان آزاد کشمیر سے سور برآمد کرنے کے اعلان پہ آ کر ٹوٹی۔وزیر اعظم کے طورپر تنویر الیاس کا دور حکومت بد انتظامی اور بد اخلاقی کے شاہکار کے طور پر نظر آتا ہے۔آئے روز سرکاری افسران کے تبادلے ہی نہیں بلکہ اپنے سٹاف کو بھی صبح ، دوپہراور شام کی قلیل مدت میں تبدیل کرنے کا چلن اپنایاگیا۔وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں نت نئے عہدوں کی تشکیل کرتے ہوئے درجنوں کی تعداد میں منظورنظر افراد کی تعیناتیاں پورے عہد اقتدار میں جاری رہیں۔ان کے اسی طرح کے روئیے سے آزاد کشمیر حکومت کا تمام ڈھانچہ ہی مفلوج ہو کر رہ گیا۔

سرکاری افسران ہی نہیں بلکہ سیاسی رہنمائوں کے خلاف بھی بد کلامی کا کھلے عام مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔کئی سیاسی رہنمائوں کو گالیاں تک دیں اور پھر کئی سے معافی مانگنے ان کے گھروں کو پہنچ گئے۔وزیر اعظم تنویر الیاس کی بدکلامی سے ان کی اپنی پارٹی کے سابق وزیر اعظم عبدالقیوم نیازی بھی محفوظ نہ رہے اور اسمبلی اجلاس میں یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ میں وزیر اعظم تنویر الیاس کی معذرت کو جوتے کی نوک پہ رکھتا ہوں۔ وزیر اعظم تنویر الیاس نے خوشامدیوں کا ایک ٹولہ اپنے گرد جمع کر لیا جنہوں نے انہیں کشمیر کی تاریخ کا عظیم قومی رہنما قرار دے دیا اور ایک جعلی خبر بناتے ہوئے بتایا کہ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے انٹیلی جینس کے ایک اجلاس میں وزیر اعظم تنویر الیاس کو کشمیر کے حوالے سے بھارت کے لئے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ یوں وزیر اعظم تنویر الیاس نے شعبدہ بازی سے کشمیر کاز کے ساتھ بھی کھلواڑ شروع کر دیا۔' پی ٹی آئی' اپنے تقریبا دو سالہ عہد اقتدار میں کشمیر کاز سے متعلق کوئی ایک معمولی سے اقدام کرنے میں بھی ناکام نظر آئی کیونکہ اس جانب نہ تو ان کی کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی انہیں اس بات کا کوئی ادراک تھا کہ آزاد کشمیر کے لئے کشمیر کاز کی کتنی اہمیت ہے۔

اپنی ہی حماقتوں سے تنویرالیاس عدالت سے نااہلی کی سزا پاتے ہوئے وزارت عظمی اور آزاد کشمیراسمبلی کی نشست سے بے دخل و محروم ہوئے اور پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن اور فاروڈ بلاک کے ارکان اسمبلی کے اتحاد سے چودھری انوارالحق کی سربراہی میں مخلوط حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ آزاد کشمیرمیں حکومت کے تبدیلی کے اس عمل کاتمام عوامی حلقوں کی طرف سے خیرمقدم کیا گیا۔اپنی حکومت کے خاتمے کا ماحول دیکھتے ہوئے تنویرالیاس نے یہ دھمکی بھی دی کہ اگرانہیں وزیرو اعظم کے عہدے سے ہٹایا گیا تو آزاد کشمیرمیں حالات اتنے خراب ہو جائیں گے کہ لوگ مقبوضہ کشمیرکو بھول جائیں گے لیکن پھرسب نے دیکھا کہ تنویرالیاس کی برخاستگی پہ آزاد کشمیرمیں کہیں بھی کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔

وزیراعظم چودھری انوارالحق ایک منجھے ہوئے سنجیدہ سیاسی کارکن ہیں اور وزیراعظم بننے کے بعد تحمل اور بردباری سے معاملات کو چلا رہے ہیں۔ابھی کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ مکمل نہیں ہوا تاہم انہوں نے گڈ گورنینس کے اقدامات شروع کردیئے ہیں جن پہ عملدرآمد بھی ہوتا نظرآ رہا ہے۔یہ بھی ایک مثبت قدم ہے کہ وزیراعظم چودھروی انوارالحق نے ماضی کے وزیراعظموں کی طرح وزیراعظم بنتے ہیں اپنے حلقے، قریبی تعلق داروں کی تعیناتیوں کا سلسلہ شروع نہیں کیا حتی کہ ابھی تک ان کی طرف سے وزیراعظم کا سیاسی سٹاف بھی متعین نہیں کیا گیا ۔آزاد کشمیرکا وزیراعظم تمام خطے کے علاوہ کشمیرکاز کا بھی نمائندہ ہوتا ہے اور اگروہ سرکاری تعیناتیوں میں اپنے حلقے کے سیاسی مفادات میں محدود ہو جائے تو اس کا اچھا تاثر اور نتائج برآمد نہیں ہوسکتے۔

وزیراعظم چودھری انوارالحق سے عمومی توقعات ہیں کہ وہ آزاد کشمیرکی روایتی سیاسی مفاداتی سیاست سے خود کو محفوظ رکھتے ہوئے ایک مثالی کرداراپنا ئیں گے اور آزاد کشمیرمیں اچھے اخلاقی اصولوں کی پیروی کرتے ہوئے کشمیرکا ز سے متعلق بھی ، '' مقبوضہ کشمیرکی آزادی تک چین سے نہیں بیٹھیں گے'' کی طرح کے کھوکھلے بیانات میں محدود رہنے کے بجائے عملی طورپرایسے اقدامات پرتوجہ دیں گے کہ جس سے کشمیرکاز سے متعلق بھی آزاد کشمیرکا اخلاص نمایاں ہو سکے۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ آزاد کشمیرمیں اصلاح احوال اور کشمیرکاز سے متعلق موثراقدامات کے لئے وزیراعظم چودھری انوارالحق کو مقامی سیاسی مفادات میں محدود رہنے والی شخصیات کے بجائے صالح مشاورت کے حصول پہ بھی خاص توجہ دینا چاہئے۔


اطہرمسعود وانی
03335176429

واپس کریں