دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آزاد کشمیر اسمبلی کی متنازعہ قرار داد کا سکینڈل اور درپیش چیلنجز
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کا خصوصی اجلاس 6اپریل کو ہنگامی طو رپر منعقد کیا گیا۔اس اسمبلی اجلاس سے صدر آزاد کشمیر ، وزیر اعظم اور اپوزیشن رہنمائوں نے خطاب کیا۔ اجلاس میں سب سے پہلے29مارچ کو آزاد کشمیر اسمبلی میں منظور کردہ قرار داد،جس میں متنازعہ ومنقسم ریاست جمو ں و کشمیر کی غیر فطری سیز فائر لائین، لائین آف کنٹرول پہ مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے درمیان کرتار پور کی طرز پہ کوریڈور قائم کرنے کی بات کی گئی تھی ، کو واپس لیتے ہوئے منسوخ کیا گیا اور اس کی جگہ ایک دو سری قرار داد پیش اور متفقہ طور پہ منظو ر کی گئی۔یہ نئی قرار داد وزیر اعظم آزاد کشمیر اوراپوزیشن ارکان اسمبلی کی طرف سے پیش کی گئی۔

میں29مارچ کی شام موصولہ ای میل چیک کر رہا تھا کہ اچانک میری نظر محکمہ اطلاعات آزاد کشمیر کی ایک پریس ریلیز پہ پڑی۔ اس طویل خبر کے آخر میں ایک حکومتی رکن اسمبلی، پاکستانی سیاستدان شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کے رکن اسمبلی، آزاد کشمیر حکومت کے پارلیمانی سیکرٹری جاید بٹ کی طر ف سے پیش کی جانے والی قرار داد کا احوال تحریر تھا۔میں قرارداد پڑھ کر حیران رہ گیا کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے ارکان کی طرف سے یہ کیا قرار داد منظور کی گئی ہے۔کشمیر کے امور پہ گہری نظر رکھنے و الا کو ئی بھی شخص اس قرار داد میں شامل کوریڈور قائم کرنے کے جملے کے مضمرات اور اس کے نتائج کا احساس کر سکتا ہے۔اس قرار داد سے پانچ ، چھ دن پہلے ہی بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ نے وادی نیلم میں ٹیٹوال کے مقبو ضہ کشمیر کے علاقے میں کنٹرول لائین کے بالکل ساتھ ایک نئے تعمیر کردہ مندر کا ورچوئل افتتاح کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ جلد ہی ہندو زائرین کے آزاد کشمیر میں و ادی نیلم کے شاردہ کے مقام پہ قدیم شاردہ یونیورسٹی میں قائم شاردہ پیٹھ جانے کے لئے کوریڈورقائم کیا جائے گا۔

آزاد کشمیر اسمبلی کی اس قرار داد کے بلنڈر کو محسوس کرتے ہوئے میں نے یہ خبر جاری کی کہ''آزاد کشمیراسمبلی میں 'آرپار'کے کشمیریوں کی ملاقات سے متعلق ایک حکومتی رکن کی شرمناک قرار داد متفقہ طورپر منظور''۔پاکستان کے سابق سینئر سفارت کار عبدالباسط ، جو بھارت میں پاکستان کے سفیر بھی متعین رہ چکے ہیں، نے میری طرف سے توجہ دلائے جانے پہ اپنے بیان میں کوریڈور کے قیام کی قرار داد پہ افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر اسمبلی ارکان کے لئے تنازع کشمیر پر تربیتی ورکشاپ کی ضرورت ہے۔ عبدالباسط صاحب نے آزاد کشمیر اسمبلی کی اس شرمناک قرار داد پہ ایک ' وی لاگ' بھی کیا۔

اس کے بعد راقم نے فوری طورپر آزادکشمیر اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر چودھری لطیف اکبر، راجہ فاروق حیدر خان، شاہ غلام قادر اور احمد رضاقادری و دیگر سے رابطہ کرتے ہوئے استفسار کیا کہ ان کی موجودگی میں ایسی شرمناک قرار داد کس طرح اسمبلی اجلاس میں اتفاق رائے سے منظور ہو گئی۔ان کی طرف سے جو بتایا گیا اس کے مطابق 29مارچ کو اسمبلی کے طویل اجلاس کے بعد افطاری کے وقت سے پہلے پارلیمانی سیکرٹری جاوید بٹ نے اچانک کھڑے ہو کر قرار داد پڑھنی شروع کردی۔یہ قرار داد خلاف ضابطہ اسمبلی میں پیش کی گئی اور اس دن کی اسمبلی کاروائی کے ایجنڈے میں بھی یہ قرار داد شامل نہ تھی۔ پارلیمانی سیکرٹری کے پڑہنے کے انداز سے کسی کو سمجھ نہیں آئی کہ اس نے قرار داد میں کن مہلک الفاظ کا استعمال کیا ہے جبکہ قرار داد کے باقی جملے وہی تھے جو عمومی طور پر دہرائے جاتے ہیں۔ قرار داد کے بعد ممبر اسمبلی احمد رضا قادری نے کہا کہ اس قرار داد کے اغراض و مقاصد پر بات کی جائے۔ اس پر جاوید بٹ نے دوبارہ کھڑے ہو کر کہا کہ ہم کشمیر کے لئے اور کیا کر سکتے ہیں، اس لئے یہ قرار داد اتفاق رائے سے منظور کر لی جائے۔ افطار کا وقت بھی ہونے والا تھا، اس پہ اسمبلی کے اس ماحول میں اپوزیشن لیڈر چودھری لطیف اکبر نے کہا کہ اتفا ق رائے سے منظور کی جاتی ہے اور یوں یہ قرار داد منظور ہو گئی۔

اگلے دن کے آزاد کشمیر کے روزنامہ اخبارات میں سے صرف ایک اخبار نے اس قرار داد کو نمایاں طور پر شائع کیا تاہم کسی اخبار، کسی صحافی یا کسی میڈیا آرگن نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا کہ اس قرار داد میں استعمال کئے گئے چند الفاظ مسئلہ کشمیر اور کشمیر کاز کے لئے کتنے مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔راقم نے آزاد کشمیر اسمبلی کی اس قرار داد کے خطرناک مضمرات کو محسوس کرتے ہوئے اس معاملے سے متعلق رابطے شروع کر دیئے اور سوشل میڈیا کو بھی اس سلسلے میں بھر پور طور پر استعمال کیا۔اسی سلسلے میں ٹوئٹر پہ ایک اہم سپیس بھی ہوئی ۔اسی دوران بھارتی میڈیا میں یہ خبر چلنا شروع ہو گئی کہ آزاد کشمیر اسمبلی نے بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ کی طرف سے شاردہ کے لئے کو ریڈور قائم کرنے کی حمایت میں قرار داد منظور کی ہے اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ کرتار پور کی طرح آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان کوریڈور قائم کیا جائے۔اس کے ساتھ ہی بھارتی میڈیا میں آزاد کشمیر اسمبلی کی اس قرار داد کے حوالے سے متعدد خصوصی پروگرام بھی نشر کئے گئے۔ ایسے ہی ایک ٹی وی شو میں بھارتی فوج کے سابق میجر اور دفاعی تجزئیہ نگار گوروئیو آریا نے ہنستے ہوئے تبصرہ کیا کہ '' یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے آزاد کشمیر میں' بی جے پی ' کا علاقائی دفتر قائم کر لیا ہے، ہم ویسے ہی تو امت شاہ کو چانکیہ جی نہیں کہتے''۔بھارتی میڈیا نے اس قرار داد کے حوالے سے ہی جھوٹ پر مبنی ایسی منفی پروپیگنڈہ مہم بھی شروع کر دی جس کا مقصد آزاد کشمیر کے عوام کو پسماندہ، مصائب زدہ اور مظلوم ظاہر کرنا ہے۔

اسی دوران پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر شاہ غلام قادر نے ٹیلی فون کرتے ہوئے اس قرار داد پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ وہ آزاد کشمیر اسمبلی کے29مارچ کے اس اجلاس میں شریک نہیں تھے جس میں یہ قرار داد پیش اور منظور کی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ اسمبلی اجلاس میں موجود ہوتے تو وہ اس قرار داد کی سختی سے مخالفت کرتے اور اس قرار داد کو منظور نہ ہونے دیتے۔سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان نے بھی راقم سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آزاد کشمیر اسمبلی کے29مارچ کے طویل اجلاس کے آخر میں افطاری سے پہلے رکن اسمبلی جاوید بٹ نے قرار داد پیش کی، اجلاس سے پہلے ارکان اسمبلی کو مہیا کردہ اسمبلی اجلاس کے ایجنڈے میں بھی وہ قرار داد شامل نہ تھی اور اسی ماحول میں غیر محسوس انداز میں وہ قرار داد منظور ہو گئی تاہم آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے اگلے اجلاس میں اس غیر مناسب قرار داد کا مداوا کیا جائے گا ۔امریکہ میں مقیم معروف کشمیری رہنما ڈاکٹر غلام نبی فائی نے اس قرار داد پہ سوال کیا کہ کیا یہ تھکن اور غیر ملکی دبائو کے سامنے سر تسلیم خم ہے؟ پاکستان پارلیمنٹ کے ایوان بالا کے سینٹر مشتاق احمد خان نے اپنے بیان میں آزاد کشمیر اسمبلی میں مقبوضہ کشمیر کے ساتھ کوریڈور قائم کرنے کی قرار داد پہ حیرت اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے سوالات اٹھائے کہ کیا آزادکشمیرحکومت اوراسمبلی کو بھارت کے 5 اگست2019کے غیرقانونی اقدام کے بعداس قراردادکے نتائج وعواقب کااحساس ہے؟کیایہ کشمیرکے حواالے سے باجوہ ڈاکٹرائن کی عملی شروعات ہیں؟کیا اس قرار داد کے ذریعے مودی کی سہولت کاری کی جار ہی ہے؟

ان تمام سرگرمیوں سے آزاد کشمیر اسمبلی کی اس شرمناک قرار داد کا معاملہ ایک سکینڈل بن گیا اور اعلی حکام، قومی سلامتی کے ذمہ داران نے بھی اس کا معاملے کا نوٹس لے لیا اور اعلی سطحی رابطے شروع ہو گئے۔اس کے بعد اس قرارداد اوراوراس سے پیدا ہونے والی صورتحال کی تصہیح کاعمل شروع ہو گیا۔اس کے بعدوزیراعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس نے آزاد کشمیر اسمبلی میں حکومتی رکن اسمبلی کی پیش کردہ متنازعہ قرار داد واپس لینے اور اس کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا۔اس کے فوری بعد اسی دن وزیر اعظم آزادکشمیر نے حریت کانفرنس کی آزاد کشمیر و پاکستان شاخ کے نمائندگان کو کشمیر ہائوس اسلام وآباد میں افطار ڈنرکی تقریب میں مدعو کر لیا جہاں حریت کانفرنس کے کنوینئر محمود احمد ساغر نے کہا کہ آزادکشمیر تحریک آزادی جموں کشمیر کا بیس کیمپ ہے اور یہاں کی حکومت کشمیریوں کی نمائندہ حکومت ہے،آزادکشمیر اسمبلی سے کرتارپور طرز کے کوریڈور کھولنے کی قرارداد پر تشویش ہوئی ہے۔ دیگر حریت رہنمائوں نے بھی قرار داد پہ تشویش کا اظہار کیا۔اس کے بعد مسلم کانفرنس کے سربراہ سردار عتیق احمد خان کی طرف سے بھی اس قرار داد کی مذمت میں بیان آیا اور متعدد دیگر سیاسی اور سول سوسائٹی کی شخصیات کی طرف سے بھی اس قرار داد کی مخالفت میں بیانات جاری ہوئے۔

آزادکشمیر اسمبلی کی اس قرار داد کے سیکنڈل سے یہ بھی واضح ہواہے کہ اسمبلی کو اپنے طریقہ کار اور معمولات میں بہتری لانے پہ توجہ دینے کی بھی ضرورت ہے۔اراکین اسمبلی کے لئے مسئلہ کشمیر اور کشمیر کاز کی اہمیت ، حساسیت ، محرکات اور عوامل کے حوالے سے وزارت خارجہ اور دیگر متعلقہ اداروں سے خصوصی بریفنگز کا اہتمام بھی ہونا چاہئے تا کہ اراکین اسمبلی کشمیر کاز کے حوالے سے اپنا کردار بہتر اور موثر طور پر ادا کر سکیں۔حکومت و اسمبلی کو مقامی نوعیت کے امور میں محدود رہنے کے بجائے کشمیر کاز سے متعلق آزاد کشمیر حکومت کے کردار کو بہتر اور موثر بنانے کے لئے بھی کشمیر کاز سے متعلق کام کرنے والی اہم شخصیات کی مشاورت سے اقدامات تجویز کرنے چاہئیں اور حکومت کی سطح پہ کشمیر کاز سے متعلق قائم اداروں کی کارکردگی کو بہتر اور موثر بنانے کے لئے کشمیر کاز کے مختلف شعبوں میں نمایاں کام کرنے والی شخصیات کی خدمات سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ بھارت نے آزاد کشمیر و گلگت بلتستان پر حملے کے اعلان کے بعد آزاد کشمیر میں بدامنی پیدا کرنے کے لئے بھرپور پروپیگنڈہ مہم تیز کر دی ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ آزاد کشمیر پہ انڈیا کا حملہ شروع ہو گیا ہے۔ اسی پروپیگنڈہ مہم میں آزاد کشمیر کے عوام کو پسماندہ ، مصائب زدہ اور مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔انڈیا تو دشمن ہے ، وہ ہر سازش کرے گا تاہم دیکھنا یہ بھی ہے کہ یہاں کون سے عناصر ہیں جو انڈیا کے ان عزائم میں دانستہ یا نادانستہ سہولت کاری کا کردار ادا کر ہے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں قائم شاردہ پیٹھ کمیٹی کے سربراہ رویندرپنڈتیا نے مجھ سے ٹوئٹر پہ رابطہ کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ ایل او سی پرمٹ کے قوانین میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ محدود حجاج کی طرح ہندو یاتریوں کو شامل کیا جا سکے، دنیا کے کسی بھی تنازعہ والے علاقے میں ایک دن کے لیے بھی نماز نہیں روکی گئی، چاہے وہ مسجد اقصی ہو یا ترکی کا چرچ وغیرہ، ہم ایل او سی کراس کرتے ہوئے مذہبی سیاحت کیوں نہیں کر سکتے؟ اس پہ راقم نے رویندرپنڈتیا کو جواب میں لکھا کہ انسانی حق ہمیشہ مذہبی حق کی نسبت مقدم ہوتا ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان بس سروس کی طرح کے اقدامات کے امن عمل سے توقع پید ا ہوئی تھی کہ مسئلہ کشمیر کو پرامن اور منصفانہ طورپر حل کرنے کی راہ اختیار کی جائے گی،بس سروس کے امن عمل کا اگلا مرحلہ یہی تھا کہ کشمیر کے دونوں حصوں کے درمیان ریاست جموں وکشمیر کے باشندوں کا مذہبی مقامات پر آنا جانا بھی شروع ہوتا لیکن اس کے برعکس سابقہ تمام امن عمل کی پیش رفت سے مکمل انکار اور کشمیریوں کو غیر انسانی جبر کا نشانہ بناتے ہوئے 5اگست2019کی طرح کے ہٹ دھرمی اور ظلم پر مبنی اقدامات سے مسئلے کے پرامن حل کی راہ مسدود کر دی گئی۔


اطہر مسعود وانی
03335176429

واپس کریں