جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
جسٹس( ر) منظور گیلانی
پاکستان اس وقت سیاسی انتشار کی جس سطح پر پہنچ گیا ہے اس نے ریاست اور قوم کو اندرون اور بیرون ملک انسانیت کے اس زمانے پر پہنچا دیا ہے جب غیر مہذب معاشرہ ہوا کرتا تھا ، لوگ زندہ رہنے کے لئے خانہ بہ خانہ دست بہ دست جدید ٹیکنالوجی کے ھتیاروں سے اپنی بات منواتے اور ہم جنس کو نیست و نابود کرنے کو ہی اپنا منتہائے نظر رکھتے ہیں - متعلقہ ادارے الیکشن کمیشن اور پارلیمنٹ الیکشن ٹالنے پر ہم خیال اور ہم رکاب ہیں، ان کے مخالف اپنے علاوہ اس ملک میں کسی کے روا دار نہیں ہیں - ملک دنیا بھر میں بے وقار ہوگیا ہے ، آئ ایم ایف ایک ارب ڈالر کا قرضہ دینے کے لئے سال سے ناک رگڑا رہا ہے - اندرون ملک ادارے جن میں عدلیہ اور فوج بھی شامل ہے اپنا اپنا رول قائم رکھنے کے لئے مستقل جگہ بنا رہے ہیں - پاکستان کی اس کیفیت سے ہندوستان فائدہ اٹھا کر پاکستان کے دوست ، بلخصوص مسلم ممالک کو اپنی گود میں لے بیٹھا ہے اور کشمیری تختہ مشق بن رہے ہیں - فوج نے عمران خان کو عدلیہ کے تعاون سے اقتدار میں لانے اور پھر بلا وجہ نکالنے میں انتہائ افسوس ناک کردار ادا کیا - عمران خان نے اسمبلیوں سے استفعی دیکر پی ڈی ایم کو یکطرفہ موقع فراہم کرکے ہر اوٹ پٹانگ کام کرنے کی کھلی چھٹی دے دی اور خود مظلوم بن کر لوگوں کی ہمدردیاں اور پی ڈی ایم ملامت سمیٹ رہی ئے - عام لوگ ایک روٹی کو ترس رہے ہیں اور آٹے کی بھیک میں جانیں گنوا رہے ہیں - پاکستان اور اس میں بسنے والے لوگ دنیا بھر میں مضحکہ خیز طور مسخرے بنے نظر آتے ہیں - سیاسی لیڈروں نے اپنی انا پرستی کی وجہ سے لوگوں کو تقسیم در تقسیم کر کے ایک دوسرے کا دشمن بنادیا ہے جبکہ خود برطانیہ ، بنی گالہ ، زمان پارک ، لاھور، لاڑکانہ کے محلوں میں قوم کی لوٹی ئوئ دولت سے لطف اٹھا رہے ہیں — قومی اہمیت کے سیاسی ادارے سیاسی جماعتیں ، فوجی ہائ کمان ، عدلیہ، الیکشن کمیشن ، بیروکریسی اور ان سے متعلقین وغیرہ لوگوں سے لئے گئے ٹیکسز اور بیرونی امداد کے زور پر عیش کوش زندگی گزار رہے ہیں - پاکستان کی طوائف الملوکی ان ہی اداروں کے منتظمین کی بد اعمالیوں کی وجہ سے پیدا ہوئ اور اس وقت تک جاری رہے گی جب تک یہ سب اپنے زہن سے یہ خبط نہیں نکالیں گے کہ وہ ناگزیر ہیں اور صرف ادارے جاںنگزیں ہیں جس کے وہ امین ہیں - میرے کالم کا موضوع ان ہی ادروں کی ناقص کارکردگی اور اصلاح پر مبنی ہے -
سیاسی جماعتیں اور فوج - فی زمانہ سیاسی جماعتیں ان قبیلائ اداروں کی ترق یافتہ صورت ہیں جو اس کی نسل، برادری یا اس کے زیر اثر ہوا کرتے تھے اور ان کی دیکھ بھال، تحفظ ، نظم ونسق، روز گار، بود و باش ، دفاع اور انصاف کے تقاضے پورے کرتا تھا - ہم قدیم اور ابتدائ یونانی یا رومی تئذیب کو پڑھیں ، چینی ، زرتشتی ، بدھ اور ہندو تئذیب کو یہ سسٹم غالب نظر آتا ہے- معروف الہامی ادیان نے اس کی تکمیل کی جس کے زریعہ کتاب ، یا صحیفے سے ایک سیاسی لیڈر شپ وجود میں آئ - ہم ان کو پیغمبر کہیں، رسول، مبلغ ، پنڈت ، پادری یا امام سب نے اپنے کردار سے تہذیبوں کو پروان چڑھا نے میں کردار ادا کیا جو بلآخر ایک مدون ہدایت نامے اور ان کے کردار کی مثالوں پر مبنی فی زمانہ آئین کی صورت میں اس وقت تقریبآ دنیا کے ہر ملک میں رہنما اصولوں کے ساتھ نافذ ہے جو ہر قانون اور ادارے کے قیام کا منبع ہے -پاکستان کے سیاست دان اس سلسلے میں غفلت مجرمانہ کے مرتکب رہے - انگریزوں سے آزادی سب ہندوستانیوں کی کاوش سے ممکن ہوئ اور بر صغیر کے مسلمانوں کا طرہ امتیاز اس آزادی میں سے نئے ملک کی تخلیق ہے لیکن ناکامی بر وقت آئین کی تکمیل میں ناکامی ہے -گوکہ متحدہ ہندوستان میں کیبنٹ مشن پلان کے تحت ہندوستان بھر کے لئے آئین ساز اسمبلی کے انتخاب 1946, میں ہوئے جس نے کینٹ مشن پلان کے تحت ہی آئین بنا کے 16 مئ 1946 کو اس کا نفاظ کیا - لیکن کیبنٹ مشن کے مونٹ بیٹن پلان میں بدل جانے اور متحدہ ہندوستان کے بجائے پاکستان نام کے نئے ملک کے قیام کی منظوری کے بعد پاکستان مسلم لیگ متحدہ ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی سے الگ ہوکر 3 جون 1947 کو اس کی نئ آئین ساز اسمبلی بنائ گئ جس نے دسبمر 1949 کو ان ہی منتخب نمائیندوں پر مبنی جو کیبنٹ مشن پلان کے تحت منتخب ہوئے تھے نے آئین سازی کا کام شروع کیا ، لیکن اس کو اکتوبر 1945 میں توڑ کر نئی آئین ساز اسمبلی مئ 1955 میں عمل میں لائ گئ جس کی بنیاد پر 29 فروری 1956 کو پار لیما نی طرز پر آئین تیار کرکے اسی سال 23 مارچ کو نافذ ہوا لیکن اس آئین کو 7 اکتوبر 1958 کو توڑ کر مارشل لا لگا کر فروری 1960 میں فوجی حکومت نے آئینی کمیشن قائم کیا جس کی سفارش پر سال 1962 میں صدارتی طرز حکومت پر آئین سال 1962 میں نافذ کیا گیا جو بھی 25 مارچ 1969 میں توڑ دیا گیا -اس عرصہ کے دوران بلواسطہ گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 ہی کی روح کار فرمارہی -سیاست دانوں اور فوجی جرنیلوں کی نااہلی اور حوث اقتدار کی لت کی وجہ سے پاکستان کو حزیمت ناک شکست کے باعث مشرقی پاکستان میں بنگالیوں کے مددگار ہندوستان کے سامنے ھتیار ڈالنے پڑے جس کے بعد باقی ماندہ پاکستان کے لئے تمام پارلیمانی جماعتوں کے اتفاق سے نیا پارلیمانی طرز کا آئین کا مسودہ قومی اسمبلی میں فروری 2, 1973, کو پیش کیا گیا جو اپریل 12 کو پاس ہوا اور 14 اگست 1973 کو نافذ ہوا - یہ بھی حریص فوجی جرنیلوں اور سیاست دانوں کی ملی بھگت سے ٹوٹتا اور بحال ہوتا رہنے کے باوجود ابھی تک کئی ترامیم کے ساتھ اپنے الفاظ کی صورت میں تو بحال ہے لیکن روح کے لحاظ سے (شتوتیت )Hibernation کی حالت میں ہی رہتا ہے —
اس کے برعکس پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ہندوستان نے اپنے لئے مغربی پنجاب اور مشرقی بنگال کی صوبائ اسمبلیوں کے لئے نئے انتخاب کراکر نئی دستور ساز اسمبلی بنای کیونکہ یہ علاقے پاکستان کا حصہ بن گئے تھے - ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی نے 31 دسمبر 1947 کو کام شروع کیا، 26 نوئمبر 1949 کو دستور کا مسودہ تیار کر کے 26 دسمبر1950 کو اس کا نفاز کردیا اور زمانے اور حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ اس کو آج تک ایک سو سات ترامیم کے ساتھ بحال رکھا ہے - پاکستان کو آئین کی پٹری پر نہ چڑھنے دینے اور اس پر عمل پیرا نہ ہونے میں سیاست دانوں اور فوجی جر نیلوں کی ملی بھگت رہی اور دونوں اس کو سر زمین بے آئین رکھنے میں برابر کے شریک ہیں اور اسوقت تک بھی یہ آنکھ مچولی جاری ہے - اس کی آخری قبیح حرکت تمام اخلاقی، آئینی اور سیاسی قدریں بالاتر رکھ کر نواز شریف کو نکالنے اور انتہائ غیر آئینی ، غیر سیاسی روایات اور من مانی سے عمران خان کو حکومت دلانے اور چلانے اور پھر اس کی ایک چلتی ہوئ حکومت کو انتہائ بھونڈے طریقے سے نکال کر پی ڈی ایم کے نام پر اسی پرانے خاندانی قبضہ گروپ کو اسٹیبلشمنٹ کے وینٹیلیٹر کے زریعہ سوار کیا گیا ہے - جو انتئائ افسو ناک اور شرمناک ہے - ان حقائق کو سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور اسوقت کے جرنیلوں نے سر عام تسلیم کیا اور اس وقت بچے بچے کی زبان پر یہ بات ہے - اب عمران خان نے وہ سارے راز و نیاز اور کچے چٹھے کھول دئے اور فوج کو انتہائ دفاعی پوزیشن میں لے گیا ہے جواس سے پہلے کسی سیاست دان نے نہیں کیا - اس کو اس بات کا کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اس نے سارا سلسلہ طشت از بام کردیا جو اس سے پہلے کسی کو کرنے کی ہمت نہیں ہوئ جبکہ درون خانہ سب کی آنکھیں خون سے بھری تھیں - لیکن اس میں دیانتداری نہیں بلکہ اس کا ساتھ چھوڑنے اور حسب سابق اس کا ساتھ دینے کے لئے بلیک میلنگ تھی اور ہے جبکہ پی ڈی ایم اب ان کی ہمنوا ہے لیکن زیر لب ماضی میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر شکوہ زن اور آئیندہ کے لئے محسن بننے کے لئے ملتمس بھی ہے وگرنہ ان کا اور عمران خان کا موقف ایک ہی ہوگا-
اگر پاکستان کو خوش اور خوشحال آئینی جمہوری پاکستان بنانے کی خواہش ہے تو سیاست دانوں کو ایک دوسرے کو تسلیم کر کے بیٹھنا پڑے گا ، ضد ، ھٹ درمی ، میں نہ مانوں والی بات چھوڑ کر آئیند ہ الیکشن کے لئے ضابطہ اخلاق تیار کر کے جلد از جلد نئے الیکشن کی تیاری کرنا پڑے گی -ایک دوسرے کے خلاف غیر اخلاقی ، غیر جمئوری زبان بند کرنا پڑے گی - ایک مقررہ تاریخ سے بد دیانتیُ، کرپشنُ اور جانبداری سے پہنچائے گئے فوائد و نقصان کا حساب غیر جانبداری سے ، بدوں انتقامی نیت کے حساب دینے پر اتفاق کرنا پڑے گا جس کا الیکشن کے بعد واشگاف اور ہمہ گیر طور پر تحقیقات کا آغاز ہو - حکومت اور حکومت سے باہر سب کے ساتھ برابری کی صورت میں کئے جانے پر اتفاق کرنا پڑے گا یا اس الیکشن کے بعد بننے والی حکومت کو سب کے لئے ا یک عمومی معافی کا اعلان کرنا پڑے گا اور آئیندہ کے لئے کرپشن اور نااہلی پر سخت گیر گرفت کے لئے سب کو اتفاق اور تعاون کرنا پڑے گا - ملک کے حالات کے پیش نظر تمام ملک میں ایک ساتھ جوں تک الیکشن کرانے پر اتفاق کرنا نا گزیر ہے اس سے فرار جمہوری اور سیاسی روایات کی نفعی اور ملک کی اقتتصادی اور قومی سلامتی کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہوگا - اس وقت جنرل قمر جاوید باجوہ اور اس سے پہلے والے جر نیلوں کی طرح فوج سر عام سیاست میں مخل نظر نہیں آتی ، یہ روش کتاب کے الفاظ ، روح اور دنیا بھر کی جمہوری ملکوں کی فوجوں کی طرح حفظ جاں بنانے پڑیں گے کیونکہ فوج کا متنازعہ ہونا قومی سلامتی کے لئے بہت بڑا چیلینج ہے - فوج کا کام ملک کا بیرونی اور اندرونی دفاع اور اس مقصد کے حصول کے لئے قومی دفاعی پالیسی کے مطابق عمل کرنا اور کسی ایمرجنسی کی صورت میں حکومتی احکامات رو بہ عمل لانے ہیں - حکومتی معاملات میں عمل دخل کے کیک کے حصے سے دستبردار ہونا پڑے گا -
عدلیہ ۔ پاکستان میں سیاسی سطح پر فیصلہ سازی کے فقدان کی وجہ سے خلاء فوج اور عدلیہ نے باہمی تعاون یا ایک دوسرے کا معاون بن کے لے لیا ہے جو ان دونوں اداروں اور مجموعی طور ملک کے لئے زہر قاتل ہے - پاکستان کی عدلیہ کا سوائے چند ناموں کے گھناؤنا کردار رہا ہے - عدلیہ ایک ادارہ ہے لیکن اس میں بیٹھے اکثر لوگوں نے اس کے نام کو گدلا کردیا ہے جس کی وجہ سے اس وقت دنیا کی عدلیہ میں پاکستان 139 ویں نمبر پر ہے- اپنے زاتی ، خاندانی اور اقربا پروری کی حرص یا کسی کے بغض میں ہمارے ججوں کی اکثریت ہمیشہ غاصب کے غصب پر مختلف حیلوں بہانوں پر مبنی دلیلوں سے اس کےغضب کو جواز بخشتی رہی ہے - آئینی اختیارات سے ماوراء حکومتی شخصیات کو اپنے چیمبر س میں بلا کر دھونس دھاندلی کے زریع جائز ناجائز یا اپنی خواہش کے مطابق کام کرانے کا ایک نیا وطیرہ بھی اپنایا جاتا ہے -آئین ساز اسمبلی کو توڑنے کے کیس سے ایوب خان سے لیکر مشرف کے مارشل لا تک سب کو تحفظ بھی دیا ، جواز بھی فراہم کیا اور مار شلائ ضابطوں کے تحت آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا - یہ اس کا انتہائ افسوس ناک اور شرمسار کردار رہا ہے - اگر جسٹس منیر نے اس کی ابتداء نہ کی ہوتی ، جسٹس ارشاد اس کی انتہا نہیں کرسکتے تھے اور نہ ہی ثاقب نثار ایک کھلنڈرے سیاسی ورکر کی طرح وہ کچھ کرتا جس سے قوم کو یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں - عدلیہ کو یہ بات زہن میں رکھنا چاھئے کہ وہ پارلیمنٹ کی پیداوار ہے اور پارلیمنٹ نے اس کو جو اختیار دئے ہیں وہ ان کی محافظ اور ضامن ہے - گوکہ یہ بھی بنیادی طور حکومت کا کاکام ہے جو جدید جمہوری نظام کی برکتوں سے ایک نیوٹرل ادارے کی ثالثی کے سپرد کر دیا ہے لیکن جس ادارے نے اس کا وجود عمل میں لایا ہے وہ قانون سازی سے اس کے کسی بھی حکم کو بے اثر بھی کر سکتی ہے - اس سلسلے میں اعلی عدلیہ کا آئینی ادارہ اور آئینی اختیار ہونے کی وجہ سے کلیدی رول ہے جو اس نے آئین اور قانون کے تابع رہ کر اپنے قواعد کار کے مطابق اس طرح کرنا ہے کہ اس کے کام کرنے کا طریقہ بھی منصفانہ ، عادلانہ ، قبل فہم اور قابل قبول ہو - آئین کے تحت چیف جسٹس بھی جج کی تعریف میں شامل ہے، اور مقدمہ کی اس کی رائے بھی باقی ججوں کی سی حیثیت رکھتی ہے - ججوں میں رائے کا اختلاف ان کی علمیت ، بصیر ت اورُتفہیم قانون کی بنیاد پر ہوتا ہے اور اسی طرح قانون اور حقوق کا سکوپ وسیع ہوتا ہے - جو جج لنگڑی بطخ کی طرح اپنے آپ کو حالات کے حوالے کردے ، اپنے مفاد کی خاطر چیف جسٹس کی ہاں میں ہاں ملا دے یا کسی مفاد کی خاطر دیانتدارانہ رائے کا اظہار نہ کرے اس کو جج کے بجائے حکومت کے ماتحت کسی شعبے میں چلا جانا چاھئے وہ جج رہنے کے قابل نہیں ئے - - تاہم اختلاف اور حجت ، تضاد ،تصادم ، نفاق ، کسی خاص مقصد یا شخص کو سامنے رکھ کر رائے قائم کرنے میں فرق ہوتا ہے - اس وقت سپریم کورٹ کے جج اپنی آرا میں اپنی پسند کے لوگوں کو سامنے رکھتے ہوئے آرا کا اظہار کر کے تصادم کا شکار ہیں - جج کو کسی مصلحت یا مصالحت کی بناء پر ادارے کو داؤ پہ نہیں لگانا چاھئے نہ سیاسی گھتھیاں سلجھانے میں دیہاتی کھڑ پینچ جیسا رول ادا کرنا چاھئے -چیف جسٹس کی امتیازی پوزیشن صرف سربراہ ادارہ کی ہے ، اس کے ماتحت صرف دفتری انتظامیہ ہوتی ہے جج نہیں - مقدمات کے حوالے سے اس کے خصوصی اختیارات ان کی سماعت کے لئے بنچز کا تئعین کرکے مقدمات تفویض کرنا ہوتا ہے - چیف جسٹس کا یہ اختیار افتخار چوہدری صاحب کے چیف جسٹس ہونے کے بعد سے آج تک متنازعہ رہا - سوائے تصدق جیلانی اور ناصر المک کے سب چیف جسٹس حاحبان نے اپنی پسند کے ججوں کی ٹولی بناکے سپریم کورٹ کے از خود اختیارات کا من مانا اختیار استعمال کر کے عدالتی احترام کا جنازہ نکال دیا جس کے خلاف وکلاء تنظیمیں ، پارلیمنٹ اور دیگر اں اس اختیار کو کسی ضابطہ کلیہ کے تحت لانے کے لئے ہمیشہ سرا پا احتجاج رہے - اس کے لئے قواعد کے تحت طریقہ کار مقرر کرنا سپریم کورٹ کا اختیار بھی ہے جو آئین اور قانون کے تابع ہے - اس کے لئے ججز کا اجلاس بلا کر رولز بنوانا چیف جسٹس کی زمہ داری ہے جس کی طرف آج تک کسی چیف جسٹس نے توجہ نہیں دی - اب پارلیمنٹ نے اس پر قانون بنایا ہے جس پر چیف جسٹس کے من مانے اختیارات سے مستفید ہونے والے معترض ہیں کہ یہ بد نیتی پر مبنی اور بے وقت ہے - عدالتوں نے متعدد بار یہ قرار دیا ہے کہ پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے قانون کو بد نیتی پر قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم آئین سے متصادم ہونے کی بناء پر عدالت کالعدم قرار دے سکتی ہے-جہاں تک مناسب وقت کا تعلق ہے قانون سازی کے لئے ہر وقت مناسب ہوتا ہے اور جب ایسے حالات پیدا ہو جائین جہاں سپریم کورٹ کے سب جج اور وکلاء کی تنظیمیں اس کا تقاضا کررہی ہوں اس وقت مقننہ کی زمہ داری اور بڑھ جاتی ہے بلکہ حکومت ایسے حالات میں آرڈی ننس بھی جاری کر سکتی ہے - اس وقت سپریم کورٹ میں جو بحران پیدا ہوا ہے وہ قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک کو ڈپٹی سپیکر کے غیر آئینی طریقے سے مسترد کرنے کے بعد سپریم کورٹ کے روئیے سے ہوا ہے جو بکتر بند گاڑیاں لگا کر آدھی رات کو عدالت کھول کر احکامات جاری ، سیاست دانوں کو عدالت میں طلبی اور آئین اور قانون کے بجائے سیاسی ثالث کے طور کردار ادا کیا اور اس وقت تک سارے اقدامات اس کے تسلسل میں ہیں - دوسرا بحران از خود اختیار کے استعمال میں سینئر ججز کو بنچ کا حصہ نہ بنانے بلکہ ایک خاص گروپ کو ہر کیس میں بنچ کا حصہ بنانے ، ان اختیارات کو منظبط نہ کرنے ، عدالت میں سیاسی ریمارکس دینے اور قانون و آئین کی تشریح سیاسی ماحول کے مطابق دینے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے - بھری عدالت میں ججوں کے ایک دوسرے کے خلاف ریمارکس ، نو ممبر کا بنچ چیف جسٹس کے رویہ کی وجہ سے ٹو ٹتے ٹو ٹتے تین پہ رہ جانا سب چیف جسٹس کی ھٹ دھرمی کی وجہ سے ہے - اب یہ اس کی زمہ داری بنتی ہے کہ اس بد نظمی کو سمیٹ کر باقی ساتھیوں کو اعتماد میں لیکر ان معاملات کو یکسو کرے - پارلیمنٹ نے قانون بناکے ان کے لئے ایک موقع فراہم کردیا ہے کہ اس کو اور بہتر بنانے کے لئے پارلیمنٹ کو بہتر تجاویز دے یا اپنا مسودہ بنا کے دے -
الیکشن کمشن۔الیکشن کمیشن آزادانہ ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ الیکشن کرانے کے لئے ایک ہمہ وقت آئینی ادارہ ہے اور آئین کے تحت تمام حکومتی ادارے اور افراد اس مقصد کے حصول کے لئے اس کی مدد کرنے کے پابند ہیں - تمام سیاسی جماعتیں اس کے پاس رجسٹر ہوتی ہیں اور ان کے ساتھ الیکشن کمیشن میں ووٹ کے اندراج سے الیکشن کے اختتام تک یہ رابطہ جاری رہتا ہے - الیکشن کے صاف ، شفاف۔ ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ کرانے کے لئے الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں اور دیگر سٹیک ہولڈرس سے مل کر ضابطہ اخلاق مرتب کرتا ہے ، اس لحاظ سے اس کا اور سیاسی جماعتوں کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے، اس بحران کو الیکشن کمیشن تمام جماعتوں کا اجلاس بلا کے خود حل کر سکتا تھا کیونکہ اس کا آئینی کردار semi political nature کا ہے -الیکشن کمیشن نے اس میں پہلو تہی کی - اس میں شک نہیں ہر ہارنے والے کو الیکشن کمشن سے شکایت اور جیتنے والا اس کی غیر جانبداری کا معترف ہوتا ہے لیکن جماعتوں کو اعتماد میں لیکر آگے بڑھنا کامیابی کی علامت ہوتا ہے -- کیونکہ الیکشن کے ہر مرحلے کو اس نے صاف ، شفاف اور منصافانہ بنانا ہوتا ہے - تحریک انصاف کے دور میں ہی چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تقرری ہوئ اور سب سے زیادہ شکایات اسی کو کمیشن سے رہیں - اس کے باوجود کمیشن اتفاق رائے سے سارے فیصلے کرتا چلا آیا ہے - اس نے سپریم کورٹ سے بہتر طرز عمل کا مظاہرہ کیا ہے - قانونی طور فیصلے غلط یا صیح ہونے کی صورتوں میں عدالتیں صیح رائے قائم کر سکتی ہیں لیکن الیکشن کمیشن کو کوئ ایسا عمل کرنے کے لئے مجبور نہیں کر سکتیں جو اس کے اختیار میں ہے- حال ہی میں پنجاب اور سرحد کی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد نوے دن کے اندر الیکشن کرانا کمیشن کی آئینی زمئداری تھی جو اس نے یہ کہہ کر نوے دن سے بئت آگے اکتوبر تک موخر کردئے کہ حکومت کی طرف سے اخراجات اور سیکیورٹی دینے سے معذرت کی گئ ہے - یہ کمیشن کا اپنی زمہ داری سے پہلو تہی ، آئین اور عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے- کمیشن کا عدالتی حکم کے بعد حکومت کا عدم تعاون بھی آئین اور اور عدالتی حکم کی خلاف ورزی ہے - کمیشن کو الیکشن موخر کرنے کے بجائے سپریم کورٹ سے مدد کے کئے رجوع کرنا چاھئے تھا کیونکہ سارے ادارے بشمول الیکشن کمشن سپریم کورٹ کی مدد کے پابند ہیں - الیکشن کمیشن کو اپنی آئینی زمہ داری پوری کرنے کے لئے سپریم کورٹ سے ہی رجوع کرنا چاھئے تھا جو نہ کر کے اس نے اپنی آئینی زمہ داری سے پہلو تہی کی ہے- چند ماہ پہلے آزاد کشمیر میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے لئے آزاد کشمیر سپریم کورٹ نے ایک تاریخ مقرر کی لیکن آزاد کشمیر حکومت نے ویسے ہی عذرا ت پیش کئے جیسے حکومت پاکستان نے الیکشن کمیشن پاکستان میں پیش کئے - آزاد کشمیر الیکشن کمیشن نے سارا معاملہ سپریم کورٹ کی نوٹس میں لایا جس نے اپنے حکم کو بحال رکھتے ہوئے حکومت کو حکم دیا کہ الیکشن کرانے کے لئے الیکشن کمیشن کی مدد کرنا حکومت کی زمہ داری ہے جو اس نے پوری کرنی ہے - اس کے بعد الیکشن بھی ہوئے، کوئ مالی یا سیکیورٹی کا بہانہ بھی کام نہیں آیا - Where there is will there is way - چھوٹے انتظامی یونٹس کا یہ بھی ایک حسن ہے گوکہ اس کی عوامی سطح پر بہت سی قباحتیں بھی دیکھنے میں آتی ہیں - اس وقت اس پس منظر میں ملک میں جو بحران پیدا ہوا ہے اس نے اب نئی صورت اختیار کر لی ہے - پی ڈی ایم نے ایک نیا محا ظ کھول دیا ہے جس کو سیاست دان ہی کسی میثاق کے زریعہ حل کر سکتے ہیں یہ اب عدلیہ اور الیکشن کمیشن سے باہر ہوگیا ہے -
بیورو کریسی ۔ بیرو کریسی کو بد قسمتی سے ہر حکومت ، جس میں اب عدلیہ بھی شامل ہے نے ، عضو معطل بنا کر قانون کا نہیں بلکہ اپنے احکامات کا غلام بنادیا ہے - پاکستان میں ہندوستان کے برعکس سول بیروکریسی کو آئینی تحفظ حاصل نہیں اس لئے یہ اپنی نوکری ، پوسٹنگ اور مراعات کو تحفظ دینے کی خاطر حکومت وقت کی ہی ہاں میں ہاں ملانے میں عافیت سمجھتی ہے - اچھے سے اچھا بیروکریٹ حکومتی جبر کی وجہ سے غلط فیصلہ کرنے سے بچنے کے لئے معاملہ کو التواء میں ڈال دیتا ہے ، یا نفع نقصان پہنچانے والی قوت کی بات مانتا ہے جو بئت بڑا المیہ ہے - عوام ، حکومت ، عدلیہ ، اور مقننہ کے درمیان ھم آہنگی پیدا کرنا بیوروکر یسی کا ہی فن ہے کیونکہ ان کی ٹریننگ ، تربیت اور کام کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے ، جس سے ان کو محروم کیا گیا ہے - حکومتوں کے تسلسل کو بحال رکھنے ، عوام اور حکومت کے درمیان رشتہ قائم رکھ کر ریاست میں ھم آہنگی پیدا کرنے کی بنیادی زمہ داری بیرو کریسی کی ہے - اس کو یہ زمہ داری واپس سونپنی چاھئے اس کے لئے اس کو تیار کر نا چاھئے ، اس کو بر لب بام بیٹھ کر تماشہ بین نہ بنائیں اور ان کی صلاحیتوں کو زنگ آلود نہ کریں - سیاست دانوں کو میثاق جمہوریت کے ساتھ ساتھ ، میثاق سیاسی اقدار، میثاق اقتصادی ترقی، میثاق انتظامی و عدالتی اصلاحات ، زرعی اصلاحات اور خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کا میثاق ہمسائیوں سے شروع کر کے سمندر پار دیکھنا پڑے گا- اس کے بغیر اس ملک کا کوئ بحران ختم نہیں ہوسکتا اور موجودہ بحران تو اب اپنی وہ حدیں چھو رہا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں ہوا ، جب اس سے ملتا جلتا ہوا وہ بھی میرے “ عزیز ہم وطنوں “ کی تقریر سے شروع ہوا اور “ اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے “ پر ختم ہوا -
اب وہ وقت نہیں رہا لیکن اگر خدا نخواستہ وہ دن دیکھنا پڑا ، “ میرے عزیز ہموطنو” کو اپنی اصلاحات سے ابتداء کر کے درج بالا اور دیکر دور رس اصلاحات کرنا پڑیں گی جو موضوعی نہیں بلکہ مقصد یت پر مبنی اور عمومی مزاج سے مطابقت رکھتی ہوں -
واپس کریں