دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان آزاد کشمیر کا “باہم مبادلہ علاقہ ” سمجھا جائیگا - وزارت قانون کا موقف
منظور حسین گیلانی
منظور حسین گیلانی
حکومت آزاد کشمیر کے قانون کے سیکریٹریٹ نے مورخہ 22 مارچ 2023 کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس کے تحت ضابطہ دیوانی سال 1908 کی دفعہ 44-A کے مقاصد کی خاطر حکومت پاکستان کو Reciprocating Territory، جس کا اردو میں قریب ترین ترجمہ “ باہم متبادل یا باہم مبادلہ علاقہ ہو سکتا ہے “ قرار دے کر پاکستان کی ساری سول کورٹس کی ڈگریز کو آزاد کشمیر میں قابل اجراء قرار دیا ہے - جس کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے کسی بھی صوبہ سے جاری ہونے والی کسی بھی سطح کے سول کورٹ کی ڈگری آزاد کشمیر کے ڈسٹرکٹ جج اسی طرح اجراء کریں گے جیسے کہ یہ اسی کی ڈگری ہے - مجھ سے سوشل میڈیا پر کسی دوست نے اس کی قانونی حیثیت کے بارے میں سوال کیا تو میں نے متعلقہ قانون کا جائزہ لیکر محکمہ قانون کے ایک زمہ دار افسر سے پوچھا کہ کیا حکومت پاکستان نے ایسا کوئ حکم جاری کیا ہے ان کا جواب تھا وہ ایسا کردیں گے-

آزاد کشمیر کے لاکھوں لوگ پاکستان کے صوبوں میں آباد ہیں اور اسی طرح پاکستان کے لوگوں کی بھی آزاد کشمیر میں یہی صورت حال ہے - ان کی ایک دوسرے کے ساتھ بیاہ شادیاں ، کاروبار اور تعلقات گہرے ہونے کے باوجود اپنے آبائ علاقوں کے ساتھ ان کا ربط و ضبط ویسا ہی ہے جیسے کہ یہ وہاں ہی رہتے ہیں - ان کے درمیان اگر کوئ تنازعہ پیدا ہوجائے تو تو اس پیچیدہ قانونی صورت حال سے نپٹنے کے لئے کسی نظم کی ضرورت ہے ، اس نو ٹیفکیشن کا مقصد غالبآ وہی خلاء پر کرنا تھا جو الٹے ہاتھ یا قانوں کے مقصد کی تفہیم اور ادراک نہ کئے جانے کی وجہ سے خواہ مخواہ مختلف نظریات رکھنے والے لوگوں نے اس کو نہ صرف متنازعہ بلکہ کشیدگی کا باعث بنا دیا ہے -

ضابطہ دیوانی کی دفعہ 44A جس کے تحت یہ نو ٹیفکیشن جاری کیا گیا ہے کی زیلی دفعات اور کلازز “ بلخصوص Explanation 1 +2 کے تحت یہ اختیار صرف فیڈرل گورنمنٹ کو حاصل ہے کہ وہ ایسے ملکوں یا علاقوں اور ان اعلی عدالتوں کو نو ٹی فائ کریں جو اس دفعہ کی ذیل میں آتے ہوں - Explanation 1 میں ا ن ملکوں کو بلصراحت لکھا بھی گیا ہے جبکہ 2 کے تحت مزید بھی شامل کئے جا سکتے ہیں اور Explanation 3 کے تحت اس کا اطلاق صرف Money ڈگری کی حد تک ہو سکتا ہے جس میں بھی ، ٹیکس، جرمانہ اور ثالثی کی ڈگری شامل نہیں ہوگی - اس ساری مشق کے باوجود کوئ بھی ایسی ڈگری اسی دفعہ میں شامل دیگر دفعات کے تابع ہوگی -“ دیکھنا یہ ہے کہ کیا آزاد کشمیر “فیڈرل گورنمنٹ “ اور پاکستان کوئ “ بیرونی علاقہ “ ہے کہ آزاد کشمیر کو ایسا نو ٹیفکیشن جاری کرنے کا اختیار حاصل ہو اور وہ بھی پاکستان کی ساری سول کورٹس کی Decrees جبکہ دفعہ کے تحت صرف superior courts کا زکر ہے ؟

اس دفعہ کے تحت نو ٹیفکیشن کا مملکت پاکستان یا حکومت پاکستان کے ساتھ آزاد کشمیر کے لکھے ، پڑھے اور عملی اختیارات میں زمین و آسمان کا فرق ہے - جو کچھ ہورہا ہے وہ قانون میں لکھا نہیں ہے اور جو لکھا ہے وہ ہو نہیں رہا - اس گنجلک صورت حال میں “ نیچے والا ہاتھ اوپر والے ہاتھ کا محتاج ہے “- یہی صورت حال اس نو ٹیفکیشن کی بھی ہے - جو تکڑا ہے اس کا اختیار ہو یا نہ ہو وہ دھونس دھاندلی سے کمزور سے ہر بات منوا لیتا ہے اور کمزور اپنی نوکری بچانے کے لئے ایسا کر دیتا ہے - اس کی متعدد مثالیں ہیں جو اعلی تریں سے ادنی تریں تقرریوں اور دیگر معاملات میں ہوتا ہے جن کا احاطہ اس تحریر میں نہیں ہو سکتا ، وقت آنے پہ سب کھلیں گی جس کا خمیازہ مبہمُ اور گنجلک آئینی پوزیشن کے پیش نظر مملکت پاکستان کو بھگتنا پڑتا بھی ہے اور بھگتتی بھی ہے -

آزاد کشمیر کے پاکستان کے آئینی اور سیاسی تاریخ کے ساتھ تانے بانے دو کراچی معائدوں سے ملتے ہیں - پہلا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سلامتی کونسل کے زیر انتظام معائدہ جس کا اطلاق یکم جنوری 1949 کو اور اس کے بعد آزاد کشمیر اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان 27 اپریل 1949 کو ہوا - دونوں معاہدوں کے تحت آزاد حکومت پاکستان کے زیر انتظام علاقہ ہے - اس کے بعد رولز آف بزنس 1950 ، پھر ایکٹ 1960، 1964، 1968، 1970، اس کے بعد موجود عبوری آئین ایکٹ 1974 -ان کے اور پاکستان کے آئین کے علی الرغم کیبنٹ ڈویژن پاکستان کے 1971 اور 1987 کے د ونو ٹیفکیشن ہیں جن میں آزاد کشمیر کو بلواسطہ پاکستانی صوبوں کادرجہ دیا گیا ہے اور اب دونوں نو ٹیفکیشنز کو آئین کی تیرویں ترمیم کے تحت آزاد کشمیر آئین کا حصہ بھی بنایا گیا ہے - اب کوئ عقل کا اندھا ہی کہہ سکتا ہے کہ کہ آزاد کشمیر کوئ فیڈرل گورنمنٹ ہے یا پاکستان آزاد کشمیر کی اعلی و ارفع حکومت کے لئے کوئ “ علاقہ “ ہے جس کو آزاد کشمیر حکومت Reciprocating Territory کہے !
اس معاملے کا حل ہونا ضروری ہے اور اس کے لئے تیرویں آئینی ترمیم کے تحت حکومت پاکستان کے درج بالا نو ٹیفکیشنز کے تحت ہی آئین سازی اور قانون سازی ناگزیر ہے - بد قسمتی سے آزاد کشمیر میں بننے والی حکو متیں مرکز میں اپنی پارٹی کی حکومتوں کی خوشنودی یا مخالف پارٹی کی صورت میں ان کی چاپلوسی میں لگی رہتی ہیں اور ان کے کارندے اچھے برے نو ٹیفکیشن جاری اور منسوخ کرنے کی مشق میں لگی رہتی ہے - یہ سب کچھ کشمیر ایشو کے نام پہ کیا جاتا ہے - نہ وہ حاصل ہوا اور نہ ہو سکتا ہے البتہ جو حصہ ان کے پاس ہے اس کو عقل فکر سے خالی کردیا گیا ہے - ان کو اس بات کا احساس نہیں کہ یہاں عقلی ، فکری اور عملی بلوغت نہ ہونے کی وجہ سے ایک وقت آئیگا کہ سب کچھ ڈھڑام سے گر جائیگا اور یہاں بسنے والے لوگ آس پاس کے صوبوں میں گم ہو جائینگے -

آزاد کشمیر کی اعلی عدالتوں نے متعدد مقدمات میں مملکت پاکستان کو آزاد کشمیر کے لئے Foreign territory “بیرونی علاقہ ) قرار دیا ہے - یہ اپنے وقت اور حالات کے مطابق ممکن ہے صیح اپروچ ہوتی لیکن حالات کے بدلنے کے ساتھ قانون کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں اور اس کی تشریح بھی - اسی اصول کی بناء پر ہائ کورٹ کے متعدد فیصلے ایسے بھی موجود ہیں جن میں حکومت پاکستان کے آزاد کشمیر اور ریاستی باشندوں کے حقوق سے متعلق کئُ احکامات کو کالعدم قرار دیا گیا جس سے لوگوں کا عدالتوں اور اداروں پر اعتماد بڑھتا گیا - ان میں ایک آزاد کشمیر کو پاکستان کے آئین کی دفعہ 1 کے تحت “ Territories otherwise included in Pakistan “ قرار دیا گیا ہے تاکہ یہاں کے لوگ بھی اپنے ہم پلہ پاکستانیوں جیسے حقوق اور اختیارات کلیم بھی کریں ، حاصل بھی کریں اور استعمال بھی کریں - درمیان میں ایک عرصہ ایسا بھی آیا کہ پاکستان کے کسی بھی ادارے کے خلاف اعلی عدالتوں نے مقدمہ لینے سے ہی انکار کردیا کہ یہ ان کے حدود سے باہر ہے - اس پر میری وکلاء سے نشست بھی ہوئ اب نہ معلوم کیا صورت حال ہے -

ملک میں ھم آہنگی پیدا کرنے کے لئے سوشل سو سائیٹی کے علاوہ اعلی عدالتوں کی قانون کی تشریح و تعبیر کا بڑا رول ہے جس کی روشنی میں انتظامیہ کو آگے بڑھنے کی ضرورت ہے - اس کے لئے کشمیر کے ایشو، اس کے مضمرات ، آزاد کشمیر کے آئینی اور سیاسی ڈھانچے کو سمجھنے کے لئے حقیقت پسند انہ سوچ کی ضرورت ہے جس کی خاطر اعلی عدلیہ اور اعلی بیرو کریسی کے کا نسپٹ کا Objective ہونا ضروری ہے- اس کا ادراک کریں - نہ پاکستان کی پوزیشن کو خراب کریں ، نہ اپنے جامے سے باہر نکلیں - سوشل میڈیا پر مختلف نظریات رکھنے والے لوگوں کے علاوہ مجھے اکثر وکلاء حضرات کے تاثرات پڑھنے کا اتفاق بھی ہوا- سیاسی ورکر تو اپنے اچھے برے ، جائز ناجائز نظریات کے تناظ میں ہی بات کریں گے لیکن وکلاء حضرات سے توقع ہے کہ وہ لیگل سسٹم کو اس کے تناظر میں دیکھیں نہ کہ subjective سوچ کے حوالے سے - قانون سازی اور اس کی تشریح کلہم نافذ العمل آئین ، قوانیں ، واقعات اور حالات کے تناظر میں کرنا ، دیکھنا اور سمجھنا ہی ہمارے مجموعی قومی مفاد میں ہے -

منظور حسین گیلانی آزاد کشمیر کے سابق چیف جسٹس ہیں۔

واپس کریں