جسٹس (ر ) سید منظور حسین گیلانی
جسٹس (ر) سید منظور گیلانی
آج میں آپ کو مظفر آبا اور راولاکوٹ میں عالمی معیار کے مطابق یتیم اور بے سہارا بچوں کی عالی شان رہائش گاہوں میں کفالت ، تعلیم و تربیت کے حوالے سے ایک اہم بین الاقوامی ادارے سے متعارف کرانا چاھتا ہوں جس کو عام الفاظ میں SOS ویلیج کہا جاتا ہے - لفظ ایس اویس SOS کومختلف وقتوں میں مشکل حالات اور خطرے کے وقت مختصر پیغام رسانی کے طور مدد کے لئے ، جو تین - - - ( ڈاٹس ) پر مشتمعل تھا ، استمعال کیا جاتا تھا - یہ الفاظ عمومآ بحری جہاز خطرے کے وقت مدد کے لئے استمعال کر تے تھے جو save our souls کا پیغام ہوا کرتا تھا - لیکن جس ایس او ایس کا میں زکر کرنا چاھتا ہوں یہ انگریزی زبان میں Socially Responsible Society یعنی ( سماجی زمہ داری کا معاشرہ ) کے لئے استمعال ہوتا ہے - اس کا قیام 1949 میں آسٹریا کے ایک انسان دوست Hermann Gmeiner's نے جنگ عظیم دوئم میں ہزاروں یتیم بچوں کی کفالت ، تعلیم و تربیت ، گھر جیسا ماحول مہیا کر کے خوف اور بے بسی کی زندگی سے نکال کر کار آمد شہری بنانا تھا - بچے کو ماں ، باپ ، بہن ، بھائیوں ، گھر اور اس میں کسی بزرگ خاتون یا مرد کی رفاقت اور رہنمائ کی ضرورت ہوتی ہے - اس کے پروان چڑھنے اور شخصیت کے بننے کے لئے فطری ضرورت کو پورا کر نے کی سماجی خدمت کا یہ نظریہ اپنی اہلیت اور فعالیت کی وجہ سے اتنی مقبولیت حاصل کر گیا کہ آج دنیا کے 110 ملکوں میں یہ کام کرتا ہے جہاں نو زائیدہ بچے سے دس بارہ سال سے کم عمر کے یتیم بچے اور بچیاں یا ماں باپ سے بچھڑے یا ان میں سے ایک یا دونوں کے کسی عار ضے کی وجہ سے بے بس ہوگئے ہیں یا والدین نے ان کی پرورش ترک کردی ہے کو یہ ادارہ اپنی نگرانی میں لیکر “چلڈرن ویلیج “ میں بین الاقوامی معیار کے مطابق بہترین رہائش ، خوراک ، تعلیم ، علاج معالجہ ، تفریح کے اسباب اور بزرگوں کا سایہ مہیا کرتا ہے - یہ ادارہ بے سہارا بچے کو با اعتماد سہارا مہیا کرنے والا زمہ دار انسان بنا کے پیش کرتا ہے -
پاکستان میں اس نام سے یہ ادارہ سال 1976 سے کام کررہا ہے اور اس وقت پورے پاکستان میں ساٹھ پروجیکٹ اور بائیس ویلیج سنٹر کام کررہے جن میں سے دو آزاد کشمیر میں , مظفر آباد میں 2002 سے اور دوسرا راولاکوٹ میں 2017 سے قائم ہیں - مظفر آباد میں چلڈرن ویلیج معہ ھیڈ آفس جہلم ویلی روڈ پر سنڈ گراں کے مقام پہ ہے جہاں بچوں کی تعداد 78 جبکہ چلڈرن ہاسٹل ماکڑی کے مقام پہ ہے جہاں بچوں کی تعداد 30 ہے - اسی طرح راولاکوٹ میں ویلیج اور ہاسٹل دھمنی بھگلہ گرلز ہائ سکول کے قریب ہے جس میں بچوں کی تعداد 65 ہے - یہاں بچوں کو پرائمری کلاسز تک آکسفورڈ کا نصاب جبکہ اس کے بعد یہ میرپور بر ورڈ سے منسلک ہیں - بچوں اور بچیوں کو قرآن کی تعلیم دینے کے لئے مرد اور خواتین استاد ہیں - ان سکولوں میں مقامی بچے بھی عام پرائیویٹ سکولوں کی نسبت بہت کم فیس پر داخل کئے جاتے ہیں جبکہ ان کو باقی بچوں کی طرح کی سہولیات میسر ہیں - چلڈرن ولیج میں دس / بارہ سال سے کم عمر کے بچے بچیاں ایک ساتھ تعلیم اور ایک کیمپس میں الگ الگ رہا رہائش رکھتے ہیں اور دس بچے یا بچیوں کے خدمت پر ایک آیا جس کو اس ماحول میں ماں کہا ، جاتا ہے مامور ہے ، جو ان کے کھانے کا بندوبست ، کمرے کی صفائ ، کپڑے دھونے کی زمہ دار ہے جیسے گھر میں ایسے بچوں کے لئے ماں کرتی ہے - اس کا کردار ماں جیسا ہوتا ہے - دس بچوں کے سونے کے لئے دو الگ الگ لیکن جڑے ہوئے کمرے ہیں جن کے درمیان کچن ، باتھ روم ، ڈرائنگ روم اور پڑھائ کے لئے ٹیبل اور کرسی بھی موجود ہے - چلڈرن ویلیج میں دسویں جماعت تک سکول اور اس سے ملحق مسجد بھی موجود ہے -
اسی طرح بارہ سال سے بڑے بچوں کے لئے یوتھ ہاسٹل کے طور الگ رہائیش کا اسی طرز پر انتظام ہے جن کے لئے ایک کمرے میں 4/5 بچوں کے لئے سونے کے لئے بستر ، فرنیچر ، ٹی وی لاونج ، ڈرائنگ روم اور کھیل تفریح کا بندبست ہے - کھانے ، ناشتے ، تفریح ، سونے ، جاگنے نماز پڑھنے کا با ضابطہ شیڈول ہے - ان کو ہو سٹل سے سکول لانے لے جانے کے لئے سکول وین ہے - دونوں جگہوں پر عمارتیں تعمیر کا بہتریں شاہکار ہیں - دسویں جماعت سے فارغ التحصیل بچے بچیاں اپنی مرضی کے کالج میں ایس او ایس کے خرچے پر تعلیم حاصل کر کے اپنا روز گار تلاش کرنے کے قابل ہوکر ادارے سے فارغ ہو جاتے ہیں - ویلیج اور یوتھ ہاسٹل میں کمپیوٹر اور سائنس کلاسز کی جدید لیبارٹریز معہ ماہر اساتذہ ایس اوایس کی تنخواہ پر کام کرتے ہیں -مظفر آباد سے فارغ ہونے والے کئ بچے باعزت روز گار بھی حاصل کر چکے ہیں -
ان بچوں کو اپنی فیملی سے ملنے اپنے آبائ گھر اور رشتہ داروں کے گھر جانے کی اجازت ہوتی ہے اور ان کے عزیز و رشتہ دار بھی ان کو ملنے کے لئے آسکتے ہیں اس لئے یہ اپنے خاندان سے جڑے رہتے ہیں - ادارے کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کو اپنی فیملی سے جوڑے رکھا جائے تاکہ یہ ان سے کٹ نہ جائیں - جواں بچے بچیوں کا ان کی مرضی اور ان کے خاندان کی رضامندی سے شادی کا اھتمام بھی کیا جاتا ہے - ان اداروں میں ہر مذہبی اور قومی دن اھتمام سے منایا جاتا ہے - ان اداروں پر اٹھنے والے اخراجات ایس اوایس کا لاھور میں واقع مرکزی دفتر برداشت کرتا ہے جس کی اعانت پاکستان بھر کے مخیر حضرات کرتے ہیں - یہ انتہائ خوش آئیند انکشاف ہے کہ SOS سسٹم سے منسلک پاکستان واحد ملک ہے جس کا مالی بوجھ صرف اور صرف پاکستانی مخیر حضرات برداشت کرتے ہیں یہ بین الاقوامی ادارے سے مدد نہیں لیتا -
ایک بچے پر اس وقت اوسطآ ماہوار خرچہ کا تخمینہ تقریبآ سولہ ہزار روپے ہے جس میں ان کے کھانے پینے، فرنشد رہائش ، ٹیوشن فیس ، کپڑے، وردی ، گیمز ، علاج معالجہ ، تفریح ، جیب خرچ ، گھر آنے جانے یا رشتہ داروں سے ملنے و متفرق اخراجات شامل ہیں - بلڈنگ کی مرمت ، بجلی ، پانی ، انتظامی ، سیکیورٹی اور دیگر اخراجات لاھور کا مرکزی دفتر ہی مہیا کرتا ہے -
*یہ بات انتہائ حیرت اور افسوس کی ہے مظفر آبا د میں 118 بچے زیر کفالت اور تعلیم ہیں لیکن مقامی کمیونٹی نے آج تک صرف نو بچوں کو سپانسر کیا ہے ، جبکہ راولاکوٹ میں 65 بچے ہیں جن میں سے مقامی کمیونٹی نے ایک کو بھی سپانسر نہیں کیا ہے - ان سب بچوں کے اخراجات مرکزی دفتر پاکستان کے دیگر مقامات سے موصول عطیات سے کرتا ہے - میرے خیال میں مقامی مخیر حضرات کو اس سسٹم کے سکولوں کی آگہی میسر نہیں ورنہ ممکن نہیں ہے کہ جو لوگ مسجدوں سے منسلک اور دیگر یتیم خانوں کا پورا خرچہ برداشت کرتے ہیں ان کے لئے ایک ایک بچے کو سپانسر کرنا کوئ مسئلہ ہی نہیں ہو سکتا۔انفرادی طور اس کار خیر میں حصہ لینے والے صاحب استطاعت لوگ ایک یا ایک سے زیادہ بچوں کی کفالت کرنے کے خواہش مند سولہ ہزار روپے فی بچہ کے حساب سے ماہوار ادا کر کے اس ادارے کے زریہ یتیم اور بے سہارا بچے کو اپنے خاندان اور ملک وقوم کے لئے کار آمد بناکر صدقہ جاریہ کے طور ثواب دارین حاصل کر سکتے ہیں - اس کے علاوہ چندہ، خیرات، صدقات کے طور اپنی استطاعت کے مطابق اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں - کاروباری اور صاحب استطاعت لوگ اپنی سہولت اور مرضی کے مطابق بچوں کے لئے نئے کپڑے،جوتے ، جاگر ، جرابیں بستر، برتن ، کھانے پینے کی اشیاء کے زریعہ سے مدد کر سکتے ہیں -
ریاست بھر میں درد دل رکھنے والے لوگوں نے بلعموم اور ائمہ کرام نے بلخصوص مدرسے قائم کئے ہیں جہاں یتیموں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لئے بلخصوص اھتمام کیا جاتا ہے - یہ ہمارے معاشرے کا حسن ہے - میری ان کے توسط سے عام لوگوں سے اپیل ہے کہ جو بچے اور بچیاں عمر اور ایس او ایس کے داخلے کے معیار پر پورا اترتے ہیں انہیں وہاں داخلہ دلائیں جن کو تعلیم کے علاوہ ہنر اور ہر اس قسم کی سہولت میسر ہوگی جو عام مدرسوں یا یتیم خانوں میں ممکن نہیں یا ان کے لئے اچھی خاصی لاگت اور خرچے کا متقاضی ہوتی ہے - اس طرح ان پر اضافی مالی بوجھ ، وقت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے - جبکہ ایس او ایس کے پاس وسائل ، متعلقہ شعبوں سے تعلق رکھنے کے اسباب ، اور سہولتیں مہیا کرنے کی ایک مرکزی زنجیر بھی ہے - عمر اور اہلیت کی شرط کی وجہ یہ ہے کہ دس گیارہ سال سے کم عمر بچوں کی صیح تعلیم و تربیت اور زہنی نشو و نما کی ایک آئیڈئیل عمر ہوتی ہے اور اسی عمر میں ان کو صیح سہارے کی ضرورت ہوتی ہے - ان کو اس ادارے کے تحت چلنے والے ، پاکستان کے دوسروں اداروں اور شہروں میں سیر و تفریح کے لئے لیا جاتا ہے جس سے ان کی شعوری بلوغت اور نئی چیزوں ، لوگوں ، اور ماحول کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے -
اس سال بہار کے موسم کی شجر کاری محکمہ جنگلات اور زراعت کے تعاون سے ہوئ جنہوں نے آٹھ صد کے قریب پھلدار اور غیر پھلدار پودے مہیا کئے اور کے لگانے میں بھی ان اداروں کی مدد بھی کی - میں ان ادروں کے چئیر پرسن کی حیثیت سے اپنی اور اپنی پوری ٹیم کی جانب سے ان جملہ احباب بلخصوص سیکریٹری زراعت سردار محمود خان صاحب اور چیف کنٹر ویٹر صاحب کا شکر گذار ہوں- میں اور ادارے کے جملہ منتظمین چیف جسٹس آزاد کشمیر جناب راجہ سعید اکرم صاحب اور ان کے ساتھی جج صاحبان ، چیف جسٹس ہائ کورٹ جناب راجہ صداقت حسین راجہ صاحب اور ان کے ساتھی جج صاحبان کا بلخصوص ممنون ہوں جنہوں نے پھلدار پودے بر وقت مہیا کرانے کو یقینی بنایا - ان سب حضرات کا میں اس لحاظ سے بھی شکر گذار ہوں کہ انہوں نے چلڈرن ویلیج اور سکول کا دورہ کیا ، بچوں کی طرف سے شجر کاری کی اہمیت پر مبنی شو دیکھا، سکول اور اس کے نظم و نسق کو مثالی قرار دیا اور چلڈرن ولیج کے بچوں کے لئے ایک ڈنر کے لئے عطیہ بھی کیا- یہ اس ادارے کے مستند اور معتبر ہونے کا بئین ثبوت ہے - امید ہے تمام مخیر ، علم دوست اور سہارا دینے کا جذبہ رکھنے والے حضرات ان اداروں کی وزٹ بھی کرییں گے اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کے حصہ بھی لینگے اور ایک بے سہارا طبقہ کو پروان چڑھانے میں مدد بھی کریں گے -