ہندوستان میں جمہوریت کے بجائے فسطائیت کا قیام اور خالصتان تحریک
اطہرمسعود وانی
فسطائیت ایک سیاسی نظام ہے جن کی خصوصیات آمریت، اندھی قوم پرستی، طاقت کے زور پر اپوزیشن کو دبانا، انسانی آزادیوں اور حقوق پر قدغن لگانا ہے۔ فسطائیت کی مثالیں دوسری جنگ عظیم سے پہلے مسولینی کی اٹلی اور ہٹلر کی جرمنی تھیں۔ فسطائیت کا یہ لفظ بھی اٹلی سے وجود میں آ یا ۔۔ موجودہ جمہوری دور میں بھی دنیا کے کئی ممالک میں غیر اعلانیہ طور پر یہ نظام لاگو ہے اور آج کے دور میں اس کی بہترین مثال ہندوستان ہے جہاں جمہوریت کی آڑ میں فسطائیت کو پوری طرح سرکاری پالیسی بنا دیا گیا ہے۔فسطائی ریاست کی جانب سے اپنے لیے ایک مشترکہ دشمن مقرر کیا جاتا ہے۔ یہ دشمنی نسلی، مذہبی، فرقے یا نظریے میں کسی بھی بنیاد پر ہو سکتی ہے۔ پھر ہر وقت قومی سلامتی کو خطرے کا پرچار کیا جاتا ہے کہ ملک کو اندرونی و بیرونی خطرات کا سامنا ہے۔ اس بار بار پروپیگنڈے کے ذریعے عوام کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ حب الوطنی کے نام پر بنیادی انسانی حقوق سے دستبردار ہو جائے۔ یہاں تک کہ قانون و آئین کو بھی ریاست کے سامنے ثانوی درجہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے یعنی کہ ریاست کے مفادات کے نام پر آئین کو پاں تلے روند ڈالنے کی اجازت ہوتی ہے۔
ہندوستان کی جمہوریت کو بڑی آبادی کے تناظر میں بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے لیکن جب جمہوریت کے لوازمات کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ہندوستان میں جمہوریت کے نام پہ ہندو ازم کا غلبہ ہے۔ کانگریس کے طویل دور حکومت میں بھی حکومتی پالیسیاں ہندو انتہا پسندی کے مقصد سے چلائی جاتی رہیں ۔ کانگریس اور بی جے پی کی حکومتوں میں فرق یہ ہے کہ کانگریس ہندو انتہا پسند ی پر مبنی کاروائیوں کو سیکولر ازم کے نام پر چھپاتے ہوئے چلاتی تھیں جبکہ بی جے پی کی سیاست یہ ہے کہ ہندو واضح اکثریت میں ہیں لہذا نہیں بے دھڑک ہو کر، کھل کر ہندوازم کی پالیسیاں چلانی چاہئیں۔کانگریسی حکومتوں کے دور میں انتہا پسند ہندو تنظیموں کو خوش رکھنے کی پالیسیاں اپنائی گئیں تاہم نریندر مودی کی سربراہی میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے جمہوریت کی آڑ میں ہندوستان میں فسطائیت مسلط کر دی ہے جہاں اقلیتوں کے حقوق ہی نہیں بلکہ ان کے وجود کی بھی نفی کی گئی ہے اور انہیںتشدد سمیت سرکاری سطح کی تادیبی کاروائیوں کا نشانہ بنانے کی پالیسی اپنائی گئی ہے۔یہ محض کوئی الزام نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں اور امریکہ کی مذہبی آزادی کی عالمی صورتحال سے متعلق رپورٹس میں بھی ہندوستان میں ہندوس ازم کے بنیاد پہ مسلط فسطائیت کی تصدیق کی گئی ہے۔
ہندوستان کی اپوزیشن جماعتیں' بی جے پی ' حکومت کی فسطائیت پر مبنی پالیسیوں کو ہندوستان کی سلامتی کے لئے بڑا خطرہ تصور کرتی ہیں۔اپوزیشن کانگریسی رہنما راہل گاندھی کے برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب میں یہ کہتے ہوئے کہ ''ملک کے سبھی جمہوری اداروں پر بی جے پی اور آر ایس ایس نے قبضہ کر لیا ہے۔ ملک کی جمہوریت کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ اگر یہ ٹوٹ گئی تو اس کا عالمی سطح پر اثر ہو گا'' ہندوستان میں نام نہاد جمہوریت کو عریاں کر دیا ہے۔ہندوستان کی ایک دوسری اپوزیشن ' عام آدمی' پارٹی کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ ' بی جے پی ' حکومت اپوزیشن رہنمائوں کو قابو کرنے کے لئے ان کے خلاف سرکاری اداروں کے ذریعے ناجائز تادیبی کاروائیوں کا حربہ استعمال کر رہی ہے۔ یہ حقیقت بھی اب کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ دیگر اداروں کی طرح ہندوستانی عدلیہ بھی ظالمانہ اور جابرانہ کاروائیوں میں ' بی جے پی ' کی سہولت کاری کا کردار ادا کررہی ہے۔
نوے کی دہائی میں ہندوستانی حکومت نے سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی اور کئی سالوں میں ہزاروں سکھوں کو بیدری سے ہلاک کرتے ہوئے سکھوں کی آزاد ریاست خالصتان کی تحریک کو وقتی طور پر دبا دیا تھا لیکن گزشتہ چند سال سے مشرقی پنجاب میں سکھوں کی خالصتان تحریک ایک بار پھر زور پکڑتی جا رہی ہے۔گزشتہ چند سال کے دوران سینکڑوں کی تعداد میں خالصتان تحریک کے حامیوں کو مختلف الزامات میں گرفتار کر کے جیلوں میں قید رکھا گیا ہے۔کچھ ہی عرصہ قبل مودی حکومت کے خلاف کسانوں کی بے مثال طویل احتجاجی تحریک میں بھی سکھوں کی غالب اکثریت رہی ۔مشرقی پنجاب میں خالصتان تحریک کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت یہ ہے کہ اب مشرقی پنجاب میں سکھوں میں ایک مقبول عام رہنما سامنے آیا ہے جس کی تیزی سے بڑہتی حمایت سے ہندوستانی حکومت اور ادارے شدید پریشانی کی حالت میں ہیں۔
' وارث پنجاب دے' نامی تنظیم کے صدر امرت پال سنگھ سندھوکو سکھوں کی آزاد ریاست خالصتان تحریک کے مقبول عام شہید رہنما بھنڈرانوالہ کا جانشین قرار دیا جا رہا ہے۔ امرت پال سنگھ کی دستار بندی خالصتان کے مقبول عام رہنما بھنڈرانوالہ شہید کے گائوں میں کی گئی،اس موقع پرامرت پال نے اس موقع پر بھنڈرانوالہ کے طرز کا لباس پہن رکھا تھا اور ان کے ہزاروں حامی خالصتان کے حق میں نعرے لگا رہے تھے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے امرت پال نے کہا کہ میں بھنڈرانوالہ سے ترغیب حاصل کرتا ہوں،میں ان کے بتائے ہوئے راستے پر چلوں گا۔میں ان کی طرح بننا چاہتا ہوں جو ہر سکھ چاہتا ہے لیکن میں ان کی نقل نہیں کر رہا، میں تو ان کے قدموں کی دھول بھی نہیں ہوں۔انھوں نے اس موقع پر مزید کہا تھا کہ ہم اب بھی غلام ہیں، ہمارا پانی لوٹا جا رہا ہے، ہمارے گروں کی بے حرمتی کی جا رہی ہے،پنجاب کے نوجوانوں کو پنتھ (مذہب) کے لیے قربانی دینے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ہندوستانی میڈیا کا سیکورٹی حکام کے حوالے سے کہنا ہے کہ امرت پال سنگھ کی سکھوں میں قیادت بھنڈراں والا کی طرح ہی ابھر رہی ہے ، سکھوں کو خالصتان کے لئے سیاسی بنیادوں پہ متحد کرنا خطرناک ہے اور سیکورٹی حکام اس بات پہ بھی نہایت پریشان ہیں کہ امرت پال سنگھ کی جڑیں مشرقی پنجاب میں مضبوطی سے قائم ہیں اور اس میں پاکستان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔کینیڈا اور یورپی ممالک میں مقیم سکھوں کی طرف سے خالصتان تحریک بھی اب اتنی مضبوط ہو گئی ہے کہ ان ملکوں کی طرف سے سکھوں کی حمایت ہندوستان کے لئے سفارتی سطح پہ ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔کینیڈا، یورپی ممالک میں تمام سکھوں کی طرف سے خالصتان تحریک میں شمولیت ہندوستانی حکام کے لئے اتنا بڑا مسئلہ بن چکی ہے کہ اب ان کی طرف سے کینیڈا ، یورپی ممالک میں ہندوستانی سفارت خانوں کے ذریعیانتہا پسند ہندو گروپوں کی تشکیل کی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں ہی کینیڈا میں ہندوئوں کے ایسے ہی ایک گروہ کی طرف سے سکھوں سے تصادم کا واقعہ بھی پیش آیا۔
ہندوستان میں' بی جے پی ' حکومت کی فسطائیت پر مبنی پالیسیاں اور مشرقی پنجاب میں سکھوں کی آزاد ریاست خالصتان تحریک کی تیزی ہندوستان کے وجود کے لئے ایسے بڑے خطرے کے طورپر نمایاں ہوئی ہیں جس سے ہندوستانی معیشت اور خارجہ امور کے حوالے سے بھی تباہ کن نتائج برآمد ہونے کے امکانات تقویت پاتے جا رہے ہیں۔جس طرح دنیا کی ایک بڑی فوجی طاقت ہونے کے باوجود روس خود کو ٹوٹنے سے بچا نہیں سکا ، اسی طرح یہ تمام صورتحال ظاہر کرتی ہے کہ ہندوستان بھی اسی راستے پہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
اطہر مسعود وانی
03335176429
واپس کریں