دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مسئلہ کشمیر ہو یا پاکستان کے مردان آہن ، ' ' تیری یادآئی تیرے جانے کے بعد''
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
تقریبا تین سال قبل ہندوستانی مقبوضہ کشمیر سے ویزے پہ پاکستان آئے ایک رشتہ دار نے پوچھا کہ 5فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر کیا ہوتا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ مختلف تقریری تقاریب ہوئی ہیں،مظاہرے وغیرہ ہوتے ہیں ،جن میں محض نمود و نمائش ہی نمایاں ہوتی ہے۔اس جواب سے مقبوضہ کشمیر سے آئے عزیز کی تسلی نہ ہوئی تو میں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جو کام بھی کیا جائے،اس کے ساتھ کشمیر کا نام لگا دیں، کشمیر کے نام پہ ذاتی فائدے مندی پر مبنی باتوں کی تقاریر ، '' سن باتھ'' کشمیر کے نام پہ ، '' واک'' کشمیر کے لئے ، ہرطرح کی سرگرمی ، کشمیر کے نام پہ ، ٹی ، ہائی ٹی، لنچ ، ڈنر، کشمیر کے نام پہ، رات کے اوقات کی سرگرمیوں کو بھی کشمیر کا نام دیا جا سکتا ہے اور تاریکی چھا جانے کے بعد کی سرگرمیاں کشمیر کے نام پہ کرتے ہوئے رات کو کشمیر کی خوبصورتی کی طرح رنگین کیا جا سکتا ہے۔یہ سب کہنے کے بعد میں نے اس کشمیری عزیز کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا، اب اور کیا چاہئے آپ کشمیریوں کو؟ عزیز کے چہرے پہ خفیف سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تاہم آنکھوں،چہرے اور ہونٹوں کے '' ری ایکشن'' میں تلخی نمایاں نظر آئی۔

اس بار بھی حسب معمول 5فروری کو پاکستان کے یوم یکجہتی کشمیر کا دن دھوم دھام اور جوش و جذبے سے منایا گیا۔مختلف تقریبات منعقد ہوئیں، مظاہرے ہوئے، واک ہوئی، انسانی ہاتھوں کی زنجیر بنائی گئی، حکومتی، سرکاری، سیاسی شخصیات کے خصوصی بیانات جاری ہوئے اور وزیر اعظم شہباز شریف نے مظفر آباد کا دورہ کرتے ہوئے آزاد کشمیر اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کیا۔ وزیر اعظم ہائوس آزاد کشمیر سے جاری ایک بیان میں بتایا گیا کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس نے پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں دبنگ خطا ب کیا،مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی بھر پور آواز اٹھاتے ہوئے عالمی برداری کے ضمیر کو جھنجھو ڑ کر رکھ دیا، وزیر اعظم سردار تنویر الیاس کے اس تاریخی خطاب پر وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور وفاقی وزرا نے بھی خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس نے پوری دنیا میں مقیم کشمیری عوام کی ترجمانی کا حق ادا کردیا ۔وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس نے یہ بتاتے ہوئے ہماری معلومات میں گراں اضافہ کیا کہ ''جموں کا پنڈت بھی کہتا ہے کہ میں پاکستانی ہوں ''۔وزیر اعظم سردار تنویرالیاس نے مزید کہا کہ '' عمران خان نے بطور وزیراعظم پاکستان آزادکشمیر کیلئے پانچ سو ارب کا پیکج دیا تھا اس کو بحال کیا جائے ، ٹیکس کے حوالہ سے آزادکشمیر کو ریلیف دیا جائے ، آزادکشمیر میں آٹا کا مسئلہ ہے اس سلسلہ میں حکومت آزادکشمیر نے اپنی گزارشات بھی بھیجیں ہیں ، اگر ممکن ہوتو ہر ممبرقانون ساز اسمبلی کو پانچ پانچ کروڑ روپے دیے جائیں تاکہ یہ اپنے علاقوں میں تعمیر و ترقی کروا سکیں ۔ مظفرآباد میرپور شہر میں گیس کی ضرورت ہے اس پر بھی غور کیا جائے'' ۔ واضح رہے کہ چند دن قبل ہی آزاد کشمیر حکومت کے ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر اعظم آزاد کشمیر سردارتنویر الیاس کو '' قومی لیڈر'' کا خطاب بھی مل چکا ہے۔وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کی انقلابی، سبق آموز و پر بصیرت گفتگو ہی ان کی پرسنلیٹی پروجیکشن کے لئے کافی تھی، میڈیا کے لئے جاری ان کے بیانات تو چارچاندلگا رہے ہیں۔

یوم یکجہتی کشمیر کے دن ہی پاکستانی عوام کو یہ صدمہ انگیز خبر ملی کہ پاکستان کے سابق مرد آہن سابق حکمران ، سابق جنرل پر ویز مشرف دبئی کے ایک امریکی ہسپتال میں طویل علالت کے بعد وفات پا گئے ہیں۔سابق وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے جب فوجی سربراہ کی تبدیلی کا اپنا اختیار استعمال کیا تو سابق جنرل پرویز مشرف نے ملک و عوام کے '' وسیع تر مفاد'' میں بغاوت کرتے ہوئے 12 اکتوبر 1999 کو ملک کو اپنے ساتھی فوجی فسران کی مدد سے آہنی ہاتھوں میں تھام لیا۔ملک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک و عوام کے '' وسیع تر مفاد'' میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اسی طرح امریکہ کے معاون بن گئے جس طرح پاکستان نے افغانستان پر روسی حملے کے وقت امریکہ کی سربراہی میں مجاہدانہ کردار ادا کیا تھا۔جنرل پرویز مشرف کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ عوام نے یکطرفہ ریفرنڈم کے ذریعے اپریل 2002 میں جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کا صدر منتخب کر لیا ۔ایک بار پھر ملک و عوام کے '' وسیع تر مفاد'' میں جنرل پرویز مشرف 2004 میں آئین میں 17 ویں ترمیم کے ذریعے مزید 5 سال کے لیے باوردی صدر بن گئے۔جنرل پرویز مشرف فوج کے سربراہ کے عہدے سے 9 سال بعد 28 نومبر 2007 کو سبکدوش ہو گئے۔29 نومبر 2007 کو ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف نے ملک و عوام کے '' وسیع تر مفاد '' میں 5 سال کے نئے دور کے لیے صدر کا حلف اٹھالیا لیکن مخالفانہ سرگرمیوں کی صورتحال میں 18 اگست 2008 کو مستعفی ہو کر ملک سے باہر چلے گئے۔جنرل پرویز مشرف کمانڈو تھے ، اس لئے ہر چیلنج کے آغاز میں ہوا میں مکہ لہراتے تھے لیکن بعد میں '' امن کی خواہش میں'' پہلے والے عزم کے برعکس راستہ اپنا لیتے تھے۔

جنرل پرویز مشرف نے عالمی ہوائوں کے رخ کو بھانپتے ہوئے، '' امن کی چاہ میں'' بھارتی زیر انتظام جموں وکشمیر میں بھارت سے آزادی کی مسلح تحریک چلانے والوں کو دہشت گرد قرار دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں کشمیریوں کے کیمپ بند کر دیئے اور بھارت کو کنٹرول لائین پہ باڑ نصب کرنے کی اجازت دے دی تا کہ بھارت کو یہ پروپیگنڈہ کرنے کا موقع نہ ملے کہ پاکستان کشمیریوں کی مدد کر رہا ہے۔یہ پرویز مشرف کی کاریگری تھی کہ انہوں نے بھارت کو مسئلہ کشمیر حل کرنے پر مجبور کرتے ہوئے مشہور زمانہ '' چار نکاتی فارمولہ'' تیار کر لیا ۔ لیکن برا ہو وکلاء کی عدلیہ کی بحالی کی تحریک کا کہ اسی بہانے بھارت نے '' چار نکاتی فارمولے'' کے منصوبے کو تعطل میں ڈال دیا کہ جب پاکستان میں حالات ٹھیک ہوں گے تو تب یہ معاملہ دیکھا جائے گا۔ حالانکہ مشرف صاحب نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے '' چار نکاتی فارمولے'' کی مشین کی تیاری مکمل کر لی تھی، صرف اس کے نٹ بولٹ کسنے ہی باقی رہ گئے تھے۔

جس طرح جنرل ایوب خان نے پاکستان کو شاندار ترقی دیتے ہوئے اتنے عروج پہ پہنچا دیا کہ مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان کی روز روز کی چک چک سے نجات مل گئی تھی ، اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے امریکی تعاون سے پاکستان کو ایسی ترقی کے راستے پہ گامزن کر دیا تھا کہ جس کے '' فوائد'' سے آج پاکستان ہر شعبے میں '' مستفید '' ہو رہا ہے۔پرویز مشرف بیرون ملک کیا گئے کہ پرویز مشرف کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے رہنے کے اعلانات اور یہ عزم ظاہر کرنے والے کہ پرویز مشرف کے گھر والے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیں لیکن ہم پرویز مشرف کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے ، بھی پرویز مشرف سے کنی کترانے لگے۔

میں آج کل یو ٹیوب پہ ایک ٹرک ڈرائیور کا وی لاگ باقاعدگی سے دیکھتا ہوں۔ پاکستان میں حاکمیت کے آہنی ہاتھ دیکھتے ہوئے مجھے پوری امید ہے کہ جلد ہی ٹرکوں کے پیچھے جنرل پرویز مشرف کے حق میں ویسا ہی عوامی نعرہ دیکھنے کو ملے گا جیسا کہ جنرل ایوب کے اقتدار سے جانے کے بعد ٹرکوں کے پیچھے لکھا ہوتا تھا کہ '' تیری یاد آئی تیری جانے کے بعد''۔اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ جس ٹرک کے پیچھے یہ جملہ لکھا ہو گا اسے دین اور دنیا کا کوئی مسئلہ درپیش نہ ہو گا۔مسئلہ کشمیر ہو یا پاکستان کے سابق مردان آہن، دونوں کے لئے یہی ایک جملہ ہی کافی ہے کہ '' تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد''۔

اطہر مسعود وانی
03335176429





























واپس کریں