دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کشمیرکی سردی میں بخاری ، حمام اور کانگڑی کا استعمال
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
کشمیر ویلی کے جنوب کی جانب بلند و بالاپیر پنجال کے پہاڑ اور شمال کی طرف کوہ ہمالیہ کا سلسلہ ہے۔چاروں طرف سے بلند وبالا پہاڑوں کے درمیان وادی کشمیر کی لمبائی تقریبا135کلومیٹر اور چوڑائی32کلومیٹر ہے۔کشمیر ویلی اس وقت دس اضلاع ،سرینگر،بڈگام،بارہمولہ،گاندربل،بانڈی پورہ، کپواڑہ، اسلام آباد(اننت ناگ)کلگام،پلوامہ اور شوپیاں پہ مشتمل ہے۔شمالی کشمیر کے علاقوں کو قدیمی طور پر 'کمراز' ، وسطی کشمیر کو یمراز اور جنوبی کشمیر کو ماراز کہا جاتا ہے۔کل رقبہ15ہزار 948مربع کلومیٹر ہے جبکہ سطح سمندر سے بلندی 1620میٹر ہے۔آبادی اندازا 80لاکھ، بڑی زبان کشمیر ی تاہم پہاڑی اور گوجری بھی بولی جاتی ہے۔نسلی طور پر وادی کشمیر میں سب سے زیادہ کشمیری النسل اور پہاڑی اور گوجر ہیں۔درجہ حرارت گرمیوں میں33سنیٹی گریڈ جبکہ سردیوں میں منفی18تک گر جاتا ہے۔

چشموں،ندی ،نالوں دریائوں ،جھیلوں کی یہ سرزمین اور ارد گرد کے پہاڑ موسم سرما میں برف کی دبیز تہوں سے ڈھک جاتے ہیں۔وادی کشمیر میں سردیوں کے موسم کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا تا ہے،چلہ کلاں، چلہ خورد اور چلہ بچہ۔ چلہ کلاں، شدید سردی کے 40دن۔ یہ دن 21دسمبر یا 9پوہ سے شروع ہوتے ہیں۔ کڑاکے کی سردی۔ پھر چلہ خورد ہے۔ پھر چلہ بچہ۔ چلہ کا فارسی میں مطلب چالیس ہے۔ چلہ خورد چلہ کلاں کے بعدکے 20دنوں کو کہتے ہیں۔ چلہ خوردکے بعد کے 10 ایام کوچلہ بچہ کہا جاتا ہے۔ اس طرح 21دسمبر سے 31جنوری تک چلہ کلاں، یکم فروری سے 20فروری تک چلہ خورد، 21فروری سے یکم مارچ تک چلہ بچہ ہوتا ہے۔

روائیتی طور پر وادی کشمیر میں سردی کے موسم میں استعمال ہونے والے عمومی گرم لباس میں فیرن کو خصوصی اہمیت حاصل ہے جو گرم کپڑے سے کھلی پوشاک کی مانند ہوتا ہے جو بیٹھنے کی حالت میں بھی انسان کا تمام جسم ڈھک لیتا ہے۔کشمیر میں سردی کے موسم میں گھروں کو گرم کرنے کے لئے روائیتی طور پر دو طریقے استعمال ہوتے ہیں۔پہلا طریقہ کمرے میں نصب ''بخاری'' (لوہے کی انگیٹھی)ہے۔کمرے میں لوہے کے ایک ڈبے نما میں لکڑی جلائی جاتی ہے جس سے ایک لوہے یا ٹین کا ایک پائپ دھنویں کے اخراج کے لئے چھت یا دیوار سے باہر کی طرف نکالا جاتا ہے۔دوسرا طریقہ '' حمام'' ہے۔گھر کے ایک کمرے کو خصوصی طور پر تیار کرتے ہوئے اس کے فرش کے نیچے آگ جلانے کے جگہ بنائی جاتی ہے اور فرش کے نیچے خاص قسم کے پتھر کی سلیں نصب کی جاتی ہیں۔اس میں لکڑی جلانے کی جگہ گھر کے کمرے کے باہر کی جانب رکھی جاتی ہے۔اس میں لکڑی جلانے سے نا صرف کمرے کا فرش گرم رہتا ہے بلکہ کمرے کا درجہ حرارت میں بڑھ جاتا ہے ۔کشمیر کے پرانے گھروں میں جس کمرے کو '' حمام'' کے لئے تیار کیا جاتا تھا،اس کے فرش کے نیچے جلائی جانی والی آگ سے ہی پانی بھی گرم کیا جاتا تھا۔وادی کشمیر کے گھروں میں کچن کے ساتھ ہی بیٹھنے کی ایک جگہ بنائی جاتی ہے جہاں گھر والے ایک ساتھ کھانا کھاتے ہیں۔کچن کی آگ کی حرارت سے وہ جگہ بھی گرم رہتی ہے اور سب آرام سے وہاں کھانا کھا سکتے ہیں۔عمومی طور پر گھروں کے ایک ہی کمرے میں '' بخاری'' یا'' حمام'' رکھا جاتا ہے۔

سردیوں میں گرم رکھنے کے تیسرے نظام کو کشمیری کلچر میں خصوصی اہمیت حاصل ہے،وہ ہے کانگڑی،جو سردیوں میں ہر کشمیری کی ذات کا حصہ ہوتی ہے۔کانگڑی کا درمیانی حصہ جہاں چنار کے سوکھے پتے،کوئلہ جلایا جاتا ہے ، مٹی سے بناپیالہ نما ہوتا ہے جس کر گردسرکنڈوں،بانس،لکڑی کی کھچیوں سے بنائی کرتے ہوئے مٹی کے پیالہ نما کو یوں مقید کر دیا جاتا ہے کہ وہ باہر نہیں نکل سکتا۔کانگڑی میں کوئلہ اور چنار کے خشک پتے جلائے جاتے ہیں اور کانگڑی کئی کئی گھنٹے مسلسل حرارت فراہم کرتی ہے۔سردیوں میں کانگڑی ہرانسان کی ذات کا حصہ بن جاتی ہے۔گھروں میں صبح سویرے خواتین گھر کے افراد کی تعداد کے مطابق کانگڑیوں میں آگ جلا کر اسے تیار کرتی ہیں۔ اوپرکی جابنب کانگڑی کو پکڑنے کی جگہ ہوتی ہے ،تاہم ہاتھ گرم کرنے کے لئے کانگڑی کو ہر جانب سے تھاما جا سکتا ہے۔سردیوں میں کانگڑی تمام دن ہر شخص کے ہاتھوں میں رہتی ہے اور گھر سے باہر نکلتے وقت کانگڑی کو پہنے گئے فرن کے اندر کی جانب کر کے ہاتھوں میں یوں تھاما جاتا ہے کہ اس سے جسم کو بھی گرمائش ملتی رہتی ہے۔پرانے وقت میں رات کو سوتے وقت بھی کانگڑی بستر میں بھی رضائی کے اندر رکھی جاتی تھی جس سے بستر میں آگ لگنے کے واقعات بھی ہوتے رہتے تھے۔اکثر افراد بستر میں کانگڑی رکھ کر سونے میں ماہر ہوتے تھے۔

اب وادی کشمیر کے بڑے ہوٹلوں،اعلی سرکاری دفاتر اور کئی گھروں میں جدید '' سینٹرل ہیٹنگ سسٹم'' بھی لگائے جا تے ہیں تاہم عمومی طور پر کشمیری گھروں میں سردی کا مقابلہ کرنے کے لئے فرن کے علاوہ ،بخاری ،حمام اور کانگڑی سے ہی کام لیا جاتا ہے۔پرانے وقتوں میں لکڑی کے علاوہ گھر بنانے کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ لکڑی کے تختے دیوار کی شکل میں عارضی طور پر نصب کر کے اس کے درمیانی حصے میں تازہ کھدی ہوئی مٹی کی بھرائی کر کے اسے اچھی طرح دبایا جاتا تھا ۔اس طرح سے تیار دیواروں کی خاصیت یہ تھی کہ اس دیوار میں نقب نہیں لگائی جا سکتی تھی اور ایسی دیواروں کے گھر سردیوں میں گرم رہتے تھے۔اب کشمیر میں بستر کو گرم رکھنے کے لئے '' الیکٹریکل '' کمبل بھی استعمال ہوتے ہیں جو بستر کے گدے کے نیچے بچھائے جاتے ہیں۔اس سے بستر اتنا گرم ہو جاتا ہے کہ برفباری کی سردی میں بھی انسان ایک ہلکا کمبل اوڑھ کر سکون سے سو سکتا ہے۔تاہم وادی کشمیر میں بجلی کی فراہمی کی شدید قلت کی وجہ سے گرم رکھنے کی بجلی کی اشیا پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

کشمیری گھروں میں بستر کے اندر ربڑ کی بنی گرم پانی کی بوتلیں بھی استعمال کی جاتی ہیں۔یوں گھروں اور انسان کو گرم رکھنے کے ان طریقوں سے انسان پرلطف انداز میں شدید سردی کا موسم گزار سکتا ہے۔سال دوسال پہلے میں برفباری کے موسم میں بڈگام میں اپنی ایک بھتیجی سے ٹیلی فون پر بات کر رہا تھا۔اس نے بتایا کہ وہاں برفباری ہو رہی ہے،میں بے اختیار کہہ اٹھا، واہ ، کیا زبر دست موسم ہو گا، میری بھتیجی کہنے لگی کہ سردیوں میں زندگی مشکل ہو جاتی ہے، تو میں نے کہا کہ گھر میں بخاری ہو، حمام اور کانگڑی ہو تو برفانی موسم کی سردی بھی مزہ دیتی ہے۔اس پر وہ کہنے لگی '' چاچو، اگر بجلی نہ ہو ، جلانے کو لکڑی نہ ملے، کوئلہ نہ ملے تب آپ کو پتہ چلے گا کہ برف کی سردی کتنا '' لطف '' دیتی ہے''۔ میں یہ کہنے کے سوا اور کیا کہہ سکتا تھا کہ '' اس طرح تو میں سردی سے مر جائوں گا''۔
دسمبر 2017
اطہر مسعود وانی
03335176429


واپس کریں