دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وادی نیلم میں رہنے والی ایک کشمیری گڑیا کی کہانی
اطہرمسعود وانی
اطہرمسعود وانی
حفصہ مسعود ی نے ایک آن لائن انگریزی جریدے میں اپنے بچپن کے ایک پراثر واقعہ کو کہانی کے طورپر بیان کیا ہے۔ وادی نیلم کے علاقے اپر لوات میں رہنے والی حفصہ کو اس کے والد نے مظفر آبادسے ایک گڑیا لا کر دی تھی۔حفصہ کے ساتھ اس کی والدہ کا روئیہ سختی کا تھا، وہ اسے عام بچوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت بھی نہیں دیتی تھیں۔حفصہ نے اپنی گڑیا کو ہی اپنی دوست بنا لیا، اس کے ساتھ ہی کھیلتی، اس سے باتیں کرتی۔ ایک دن حفصہ کے ہمسائے میں رہنے والی ایک ہم عمر رشتہ دار لڑکی اس کے گھر آئی جو تمام خاندان کی آنکھوں کا تارہ تھی۔ اس نے حفصہ کی گڑیا دیکھی تو اس سے گڑیا مانگ لی۔ حفصہ نے اپنی جان سے پیاری دوست گڑیا اسے دینے سے انکار کر دیا۔اس پہ وہ لڑکی رونے، چلانے لگی۔اس پر حفصہ کی والدہ نے حفصہ کو ڈانٹتے ہوئے اپنی گڑیا اسے دینے پر مجبور کر دیا۔حفصہ کے والد گھر آئے تو اسے روتا دیکھ کر وجہ پوچھی تو حفصہ نے اپنی گڑیا کے بارے میں بتایا۔ اس پہ اس کے والد اس کی والدہ پہ ناراض ہوئے کہ حفصہ کی عزیز گڑیا کیوں اس سے لے کر اس لڑکی کو دی گئی۔حفصہ کے والد نے حفصہ سے وعدہ کیا کہ وہ کل ہی مظفر آباد جا کر اس کے لئے ویسی سے دوسری گڑیا لا کر دیں گے۔ اس پہ حفصہ خوش ہو گئی۔

حفصہ کے والد صبح چھ بجے اس کے لئے دوسری گڑیا لانے کے لئے مظفر آباد روانہ ہو گئے۔ان کے مظفر آباد روانہ ہوتے ہی حفصہ کی والدہ نے حفصہ کو کوسنا شروع کر دیا کہ وہ کیسی لڑکی ہے کہ جس نے ایک گڑیا کے لئے اپنے باپ کو موت کے منہ میں جانے پر مجبور کر دیا ہے۔یہ وہ وقت تھا کہ جب وادی نیلم میں ہندوستانی فوج کی فائرنگ،گولہ باری عام تھی۔ قدم قدم پہ ہندوستانی فوج کی فائرنگ کے نشانے پہ تھی اور آئے روز نیلم ویلی کے افراد اس فائرنگ سے ہلاک ہوتے تھے۔حفصہ کی والدہ بار بار کہہ رہی تھیں کہ اگر آج تمہارے والد فائرنگ سے مر گئے تو اس کی موت کی ذمہ دار تم ہو گی۔والدہ کی مسلسل ڈانٹ سے حفصہ کو صورتحال کی سنگینی کا انداز ہو ا کہ اس کے والد اس کے لئے گڑیا لینے کے لئے ایسے سفر پہ روانہ ہوئے ہیں جہاں قدم قدم پہ موت کا خطرہ ہے۔حفصہ کی اپنے لئے دوسری گڑیا آنے کی خوشی ہو امیں بکھر گئی، حفصہ کو اپنے والد کی سلامتی کی شدت سے فکر لاحق ہو گئی۔حفصہ کو یوں محسوس ہوا کہ ہر کوئی اور ہرچیز اسے کوس رہی ہے، اسے اپنے باپ کو خطرے میں ڈالنے کا ذمہ دارقرار دے رہی ہے۔حفصہ کی والدہ نے اسے یہ بھی کہا کہ اس نے جو کچھ بھی مانگنا ہے وہ اللہ سے مانگے۔حفصہ سہم کر رہ گئی،رو رو کر اللہ سے اپنے والد کی صحیح سلامت واپس آنے کی دعائیں مانگنے لگی، اس نے اللہ سے وعدہ کیا کہ اب وہ کبھی گڑیا سے نہیں کھیلے گی۔حفصہ نے نفل پڑھے، رو رو کر دعائیں مانگیں ۔ حفصہ اپنے والد کے سفر کے بارے میں سوچنے لگی کہ اب وہ کہاں پہنچیں ہوں گے، اس نے سوچا کہ اب وہ کیرن پہنچ گئے ہوں گے،جہاں فائرنگ کا نشانہ بننے کا خطرہ اور بھی زیادہ تھا کہ وہاں سے ہندوستانی فوج کے مورچے نظروں کے سامنے تھے۔

جب رات کو گہرا اندھیرا چھا گیا تو حفصہ کو یہ سوچ کر ذرا ڈھارس ملی کہ اب اس کے والد مظفر آباد پہنچ گئے ہوں گے جہاں فائرنگ کا خطرہ نہیں ہے۔حفصہ کے والد نے اگلے دن واپس آنا تھا۔ حفصہ اپنے گائوں کی پہاڑی کے اس کنارے،جسے نکہ کہتے ہیں،جا کر ایک پتھر کے ساتھ کھڑی ہو کر اس راستے کو دیکھنے لگی جہاں سے اس کے گائوں کی طرف آتے کسی کو دیکھا جا سکتا تھا۔ کافی دیر کے بعد اس نے ایک لڑکے کو کچھ سامان اوپر لاتے دیکھا، اس لڑکے نے اسے بتایا کہ ماسٹر جی لوئر لوات بازار پہنچ گئے ہیں۔ یہ سنتے ہی حفصہ خوشی سے نہال ہو گئی اور چیختے ہوئے والدہ کو بتایا کہ ابو واپس آگئے ہیں اور اس راستے پہ دوڑ لگا دی جہاں سے اس کے والد نے اوپر گائوں کی طرف آنا تھا۔اس کے والد نظر آئے تو وہ ان سے لپٹ گئی، ان کے ہاتھ چومنے لگی، رونے لگی۔ اس پہ حفصہ کے والد نے گھبرا کہ پوچھا کہ کیاہوا؟ میں تمہارے لئے گڑیا لے آیا ہوں۔حفصہ لکھتی ہے کہ میں نے وہ گڑیا صندوق میں بند کر کے رکھ دی اور پھر کبھی گڑیا کے ساتھ نہیں کھیلا۔

حفصہ اپنے زندگی پہ گہرے طور پر اثر انداز ہونے والے اس اہم واقعہ کہانی بیان کرتے ہوئے آخر میں لکھتی ہے کہ تنازعہ کشمیر صرف فائرنگ ، بموں اور خون کی ہی وجہ نہیں بلکہ خوف، جذبات ، صدمات ، ادھوری رہ جانے والی خواہشات اور بچپن کو کچل دینے کا سبب بھی ہے۔اس خواہش اور مطالبے پہ مشتمل جملے سے حفصہ کی کہانی ختم ہوتی ہے کہ اب ہماری نسلوں کو امن سے رہنے دو۔

حفصہ مسعودی نے جس خوبصورتی سے اپنے بچپن کے اس واقعہ کو ، اپنے جذبات، احساسات کو بیان کیا ہے، وہ دل پہ گہرے طور پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے نیلم ویلی، کشمیر کو غیر فطری اور کشمیریوں کو جبری طور پر تقسیم کی جانے والی سیز فائر لائین سے ملحقہ علاقوں میں رہنے والوں کی زندگیاں کس عذاب ، کس خوف سے گزرتی ہیں اور ان کی زندگیوں، ان کی سوچ، ان کے روئیوں بلکہ ان کی روحوں پر بھی کس شدت سے اثر انداز ہوتی ہیں۔

حفصہ کا انداز بیاں شاندار، بلا شبہ یہ کہانی کشمیری ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔اگر اس کا اردو ترجمہ بھی کیا جائے تو اردو ادب کی بھی ایک خدمت ہو گی۔ مجھے یقین ہے کہ اگر اس واقعہ پہ ٹیلی فلم بنے تو اسے عالمی سطح کے ایوارڈ کا مستحق قرار دیا جا سکتا ہے۔ حفصہ، ویل ڈن، بہت خوب۔ حفصہ کی قابلیت، حساسیت اور انداز بیاں سمیت وہ خوبیاں نظر آتی ہیں جو ایک اچھے تحریر نگار کا خاصہ ہوتی ہیں۔حفصہ ایک بڑی زیادتی بھی کر رہی ہیں کہ وہ قدرت کی طرف سے عطا اپنی اس دولت کا بھر پور استعمال نہیں کر رہی، وہ باقاعدگی سے نہیں لکھتی، حالانکہ میں اسے کئی بار کہہ چکا ہوں کہ وہ مختلف موضوعات پر باقاعدگی سے لکھنا شروع کرے، آج کل لکھنے والے تو بہت ہیں لیکن اچھی تحریر تخلیق کرنے والے بہت کم، حفصہ میں اچھی تخلیق کی صلاحیت قدرت نے سمو دی ہے، یہ حفصہ پہ فرض ہی نہیں قرض بھی ہے، اپنے لوگوں، اپنے خطے اور ان لوگوں کا جنہیں اچھی تحریروں سے زندگی کو نکھارنے کا راستہ ملتا ہے اور یہ انسانی زندگی کی اصل خوبصورتی بھی ہے۔

اطہر مسعود وانی 23نومبر2022، بوقت شام چھ بجکر پچاس منٹ، راولپنڈی۔
واپس کریں