دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آرمی چیف کی تعیناتی پر کون سیاست کر رہا ہے ؟
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
اب یہ واضح ہورہا ہے کہ ایک دوسرے کو الزام دیتے ہوئے ملک کا ہر سیاست دان اور پارٹی اس وقت نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر سیاست کر رہی ہے۔ پہلے عمران خان نے اس معاملہ کو عام جلسوں میں اٹھا کر اور نئے آرمی چیف کی تقرری کو انتخابات تک ملتوی کرنے کی بات کہہ کے، اس حساس اور محکمہ جاتی معاملہ کو زبان زد عام کیا۔ اب وزیر دفاع نے اعلان کیا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف ہی نومبر میں نیا آرمی چیف مقرر کریں گے۔ گوجرانوالہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر توانائی خرم دستگیر نے ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئےکہا ہے کہ ’وزیر اعظم پارٹی کے قائد نواز شریف سے مشورہ کے بعد ہی نئے آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ تقرری مقررہ وقت پر ہوگی۔ اس حوالے سے وزیر اعظم اپنے قریبی ساتھیوں کے علاوہ نواز شریف سے بھی مشاورت کریں گے۔ تاہم ایک بات طے ہے کہ حتمی فیصلہ وزیر اعظم کا استحقاق ہے اور وہی اس سلسلہ میں فیصلہ کریں گے‘۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے بھی اسلام آباد میں پریس کانفرنس میں واضح کیا تھا کہ ’آرمی چیف کا تقرر آئینی فریضہ ہے جو وزیراعظم نومبر میں انجام دیں گے۔ نواز شریف نے بھی 4 مرتبہ یہ آئینی فریضہ انجام دیا ہے۔ نواز شریف نے آرمی چیف کی تعیناتی کو کبھی بحث کا موضوع نہیں بنایا۔ اب شہباز شریف یہ فرض ادا کریں گے‘۔

دو وفاقی وزیروں کے ان بیانات سے ایک بات تو طے ہے کہ حکمران جماعت آرمی چیف کے سوال پر نہ تو غلط فہمی دور کرنا چاہتی ہے، نہ ہی کوئی ایسا اصول طے کرنا چاہتی ہے جس کے تحت سینارٹی کی بنیاد پر پاک فوج کے نئے سربراہ کا تقرر ہوسکے۔ اور نہ ہی عمران خان کی طرف سے اس معاملہ کو سیاسی مباحث کا حصہ بنانے کے بعد خود کوئی مفاہمانہ یا دانش مندانہ رویہ اختیار کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اگر عمران خان اس موضوع پر اظہار خیال کررہے ہیں تو اپوزیشن لیڈر کے طور پر انہیں اس کی گنجائش دی جا سکتی ہے۔ یہ درست ہے کہ انہوں نے خود ہی قومی اسمبلی سے استعفی دے کر اور وہاں سے غیر حاضر رہ کر موجودہ اتحادی حکومت کو اطمینان سے کام کرنے کا موقع دیاہے اور اہم قومی معاملات میں کردار ادا کرنے سے گریز کیا۔ اب وہ آرمی چیف کی تقرری جیسے ’غیر متنازع‘ معاملہ کو عام جلسوں میں زیر بحث لاکر حکومت کو دفاعی پوزیشن پر لانا چاہتے تھے۔

عمران خان نے فیصل آباد کے جلسہ میں انتہائی قابل اعتراض الفاظ میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نیا آرمی چیف نواز شریف اور آصف زرداری مقرر کرنے کی تیاری کر رہے ہیں لیکن انہیں ایسی اہم پوزیشن پر تقرری کا حق نہیں دیا جا سکتا۔ کیوں کہ یہ ایسا آرمی چیف لے کر آئیں گے جو ان سے چوری کا حساب نہ لے سکے۔ اس تقریر میں عمران خان نے ایسے الفاظ استعمال کئے تھے جن سے پاک فوج کے سینئر جرنیلوں کے بارے میں شبہات پیدا ہوتے تھے۔ لہذا آئی ایس پی آر کو بھی اس پر غم و غصہ کا اظہار کرنا پڑا۔ اس رد عمل کے بعد عمران خان نے کسی حد تک اپنے مؤقف سے رجوع کیا ہے اور یہ اشارہ بھی دیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کی صورت میں موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے عہدہ میں توسیع کا کوئی قانونی راستہ تلاش کیا جا سکتا ہے۔ البتہ پاک فوج کے نئے سربراہ کے حوالے سے ان کا مؤقف واضح ہے۔ ایک تو یہ کہ نیا آرمی چیف میرٹ کی بنیاد پر مقرر ہونا چاہئے۔ دوسرے موجودہ حکومت کو یہ حق نہیں ملنا چاہئے بلکہ انتخابات کے بعد جو بھی پارٹی اکثریت حاصل کر کے حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو، اسی کا وزیر اعظم پاک فوج کا نیا سربراہ مقرر کرے۔

اس بحث کے کئی پہلو ہیں۔ عمران خان اگر فیصل آباد کی تقریر کے دوران جوش خطابت میں انتہائی قابل اعتراض اور ناقابل قبول طریقے سے اس معاملہ پر گفتگو نہ کرتے تو اس تقرری کے سیاسی میرٹ پر سنجیدہ گفتگو ہوسکتی تھی۔ تاہم سینئر فوجی قیادت کے بارے میں شبہات پیدا کرکے انہوں نے خود ہی اپنے مؤقف کو کمزور ثابت کر لیا۔ بعد میں وہ بالواسطہ طور سے اس کی وضاحتیں کرتے رہے ہیں حالانکہ قومی سلامتی کے نقطہ نظر سے انہیں ایک اہم قومی لیڈر کے طور پر فیصل آباد میں ادا کئے گئے الفاظ واپس لینے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کرنا چاہئے تھا کہ ان کے خیال میں آرمی چیف کی تقرری کے لئے کیا ’میرٹ‘ ہونا چاہئے؟ کیوں کہ روایتی طور سے کوئی بھی وزیر اعظم سینئر ترین چار پانچ جرنیلوں میں سے کسی ایک کو فوج کا سربراہ مقرر کرتا ہے۔ ایسے میں میرٹ کسی وزیر اعظم کی ذاتی ترجیح ہوتی ہے۔ یہ میرٹ ملکی آئین نے مقرر کیا ہے۔ اسے چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اگر اس اصول کو تبدیل کروانا مقصود ہے تو میرٹ کی متبادل تعریف سامنے لانا ضروری ہے۔

عمران خان میرٹ سے صرف یہ مراد لے رہے ہیں کہ موجودہ وزیر اعظم کو اس تقرری کا حق حاصل نہیں ہے لیکن وہ اس کے لئے کوئی اصولی، قانونی یا جمہوری دلیل لانے کی بجائے سیاسی الزام تراشی کا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ اسی جوش بیان میں ان سے فوجی قیادت پر شبہات کا اظہار بھی سامنے آیا جس پر پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کو بھی اس بیان کو مسترد کرنا پڑا تھا۔ اگر عمران خان کے طرز تکلم سے ہٹ کر اس اصول کی بنیاد پر بات کی جائے کہ موجودہ وزیر اعظم کس حد تک نیا آرمی چیف مقرر کرنے کے ’اہل ‘ ہیں تو عمران خان کی دلیل کو یکسر مسترد کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ موجودہ حکومت کو قومی اسمبلی میں اکثریت ضرور حاصل ہے لیکن یہ ایسے وقت ممکن ہؤا تھا جب پارلیمنٹ کی سب سے بڑی پارٹی کے ارکان نے احتجاجاً اسمبلی سے استعفے دے دیے تھے اور عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف کے مقابلے میں اپنا امیدوار لانے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔

شہباز شریف کی حکومت معمولی اکثریت کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ ملک کے دو صوبوں میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور بلوچستان میں قائم حکومت ہمیشہ سے عسکری قیادت کی تابع فرمان رہی ہے۔ وزیر اعظم کی اپنی پارٹی کو ایوان میں ایک چوتھائی سے بھی کم ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ ملک میں شدید سیاسی بحران ہے اور سیاسی فریق باہم مکالمہ کی بجائے الزام تراشی سے کام چلارہے ہیں۔ ملک میں آرمی چیف کو یوں بھی غیر معمولی اہمیت حاصل ہوجاتی ہے کیوں کہ ابھی تک تمام سیاسی عناصر سول معاملات، حکومت سازی حتی کہ انتخابات تک میں فوج کے اثر و رسوخ کو تسلیم کرتے ہیں اور کسی حد تک اسے مستحکم کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ عمران خان فوج کو غیر جانبداری چھوڑ کر براہ راست اپنی حمایت کرنے کی دعوت دیتے رہتے ہیں جبکہ وزیر اعظم شہباز شریف کو خود اپنی ہی پارٹی میں اسٹبلشمنٹ نواز سیاست دان کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی کامیابی فوج کی بالواسطہ اعانت کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ موجودہ حکومت کا قیام درحقیقت اسی لئے ممکن ہؤا تھا کیوں کہ اسٹبلشمنٹ ملک میں سیاسی تبدیلی کی ضرورت محسوس کررہی تھی۔

مشکوک پارلیمانی صورت حال میں مختصر مدت کے لئے وزارت عظمی سنبھالنے والا شخص جب آئین کا حوالہ دیتے ہوئے آرمی چیف کی تقرری پر اصرار کرتا ہے تو اس بارے میں شبہات پیدا ہونا فطری بات ہے۔ خاص طور سے جب ملک کی اہم ترین اپوزیشن پارٹی اس حوالے سے وزیر اعظم کی نیک نیتی اور صلاحیت پر سوال بھی اٹھا رہی ہے۔ عمران خان اگر آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے دلیل دیتے ہوئے سیاسی اور قانونی دلائل استعمال کرتے اور فوجی قیادت کو بیچ میں گھسیٹنے کی ناروا کوشش نہ کرتے تو صورت حال واضح ہو سکتی تھی۔ تاہم اب بھی یہ قیاس کرنا زیادہ دیانت دارانہ ہوگا کہ عمران خان کا مقصد فوجی جرنیلوں کو مطعون کرنا نہیں تھا بلکہ وہ شہباز شریف کی نیک نیتی پر سوال اٹھا رہے تھے۔

اب حکومت بہر صورت آئینی استحقاق استعمال کرتے ہوئے نومبر میں نیا آرمی چیف مقرر کرنے کا اعلان کررہی ہے۔ وزیروں کی طرف سے ایسے اعلانات سیاسی اشتعال انگیزی اور آرمی چیف کی تقرری پر سیاست کرنے کا ہی ہتھکنڈا ہے۔ یہ رویہ بھی اسی طرح قابل افسوس اور قابل مذمت ہے جیسے عمران خان کی طرف سے اس تقرری پر سوال اٹھانے کا طریقہ تھا۔ عمران خان کو نیچا دکھانے کے لئے یہ دعویٰ کرنا ناجائز ہے کہ وزیر اعظم آرمی چیف کی تقرری کے لئے نواز شریف سے مشورہ کریں گے۔ نواز شریف ضرور مسلم لیگ (ن) کے لئے معتبر ہوں گے لیکن ملکی قانون کی نظر میں وہ بھگوڑے ہیں اور ایک مقدمہ میں انہیں سزا بھی ملی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ انہیں کسی پارٹی کی قیادت یا کسی بھی پبلک عہدے کے لئے نااہل قرار دے چکی ہے۔ جب تک مناسب عدالتی کارروائی کے ذریعے یہ حیثیت تبدیل نہیں ہوجاتی، اس وقت تک نواز شریف قانونی لحاظ سے ملکی سیاست میں کردار ادا نہیں کرسکتے۔ کجا یہ اعلان کیا جائے کہ آرمی چیف جیسے اہم عہدہ کے لئے ان سے مشورہ کیا جائے گا۔

حکومت کو اپنے وزیروں کے ذریعے آرمی چیف کی تقرری پر سیاست کرنے کی بجائے یہ اصولی اعلان کرنا چاہئے تھا کہ مقررہ وقت پر صرف سینئر ترین جنرل کو ہی آرمی چیف مقرر کیا جائے گا۔ اس قسم کا اعلان اس تنازع کو نہ صرف وقتی طور سے بلکہ ہمیشہ کے لئے دفن کرسکتا تھا۔ اس کے علاوہ اگر نیب اور انتخابی ترامیم کے قوانین کی طرح حکومت آرمی ایکٹ میں جنوری 2020 کو کی جانے والی ترمیم کو منسوخ کرکے ایسی ترمیم لانے کا اہتمام بھی کرسکتی تھی جس کے تحت آرمی چیف کے عہدہ کی مقررہ مدت کے بعد توسیع کا امکان ختم کردیا جاتا۔ اس طرح وزیر اعظم اور حکومت اس معاملہ پر اپنی نیک نیتی کا عملی ثبوت فراہم کرسکتے تھے اور فوج کے سینئیر افسروں کو بھی اطمینان ہوتا کہ سیاسی فیصلوں کے نتیجہ میں وقت آنے پر انہیں آرمی چیف کے عہدے تک ترقی پانے سے نہیں روکا جا سکے گا۔ان دونوں اقدامات سے گریز کرتے ہوئے نیا آرمی چیف مقرر کرنے کے آئینی حق پر اصرار ملک میں سیاسی تصادم میں اضافہ کرے گا اور سیاسی گروہوں میں مقابلہ بازی میں اضافہ سیکھنے میں آئےگا۔ سیاسی تجزیہ نگار ابھی تک یہ تعین نہیں کرسکے کہ اتحادی جماعتوں نے عمران خان کی انتہائی غیر مقبول حکومت کو ختم کرنے کا اقدام کیوں کیا تھا۔ لے دے کے ایک ہی بات سب کی سمجھ میں آتی ہے کہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کو اندیشہ تھا کہ عمران خان اپنی مرضی کا آرمی چیف لاکر ان کے لئے مشکلات میں اضافہ کردیں گے۔ اسی لئے عجلت میں تحریک عدم اعتماد کا اہتمام کیا گیا اور ایک ایسی حکومت قائم ہوئی جو مسلسل سیاسی و معاشی بحران کا سبب بنی ہوئی۔’نامعلوم جنرل‘ کے آرمی چیف بننے کے خوف سے حکومت تبدیل کرنے کی کوشش کرنے والی جماعتیں اب کس منہ سے آرمی چیف کی تقرری پر سیاست کا الزام عمران خان پر عائد کرسکتی ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت نے ہی اپوزیشن پارٹیوں کے طور پر اس سوال پر سیاست کا آغاز کیا تھا۔

بشکریہ کاروان نو
واپس کریں