دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہائے بیچارا عمران خان کیا کرے!
سید مجاہد علی
سید مجاہد علی
یہ کہنا مشکل ہے کہ اسلام آباد کے سیمنار میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی تقریر غلطیوں پر معافی کی استدعا تھی یا مایوسی و بے قراری کا غیر ارادی اظہار۔ البتہ شفقت بھرے جس ہاتھ کا انہوں نے ذکر کیا ہے، ان کی تقریر کا ہر لفظ سے اس سے محرومی کا آئینہ دار ہے۔ تاہم یہ دو ’چاہنے والوں‘ کا معاملہ ہے۔ ایک بریک اپ سے مطمئن ہے، دوسرے کو کسی پل چین نہیں ہے۔ اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ راز و نیاز کی باتیں پبلک پلیٹ فارم پر بیان کی جا رہی ہیں۔ عوام الناس اس پر دانتوں میں انگلی دبانے کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔

عمران خان کو کسی بھی قیمت پر اقتدار واپس چاہیے۔ دھونس، دھمکی اور سیاسی طاقت کے مظاہرے کے بعد ، وہ یہ بات بہتر طریقے سے سمجھنے لگے ہیں کہ یہ راستہ تو اسی گلی سے ہو کر گزرتا ہے جہاں سے انہیں دھتکارا جا چکا ہے اور رقیب روسیاہ کو وہ اعزاز مل چکا ہے جسے وہ کسی نہ کسی خوش فہمی یا غلط فہمی کی وجہ سے صرف اپنا استحقاق سمجھتے رہے ہیں۔ پہلے تو وہ ’محبوب‘ کو بھی یہ حق دینے پر آمادہ نہیں تھے کہ وہ رقیب سے سلسلہ جنبانی رکھے اور اسے اپنے دروازے تک آنے کا موقع دے لیکن اب وہ یہ تو مانتے ہیں کہ محبوب زبردست ہے اور یہ اختیار بھی رکھتا ہے کہ وہ کس کے سر پر دست شفقت دراز کرے، اسی لئے اب یہ شکوہ کیا جا رہا ہے کہ دیکھو تو سہی کہ میری جگہ کسے موقع دیا گیا ہے۔ اور پھر ان راز ہائے دروں خانہ سے پردہ سرکاتے ہوئے کچھ درپردہ باتوں میں عام لوگوں کو شریک کرنے کی کوشش کی گئی ہے جنہیں تماشائی سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ عمران خان کی یہ تقریر ملک میں آئینی انتظام کی بنیادوں پر حملہ ہے۔ ان کی باتیں سیاسی طور سے خطرناک اور سفارتی طور سے بین الملکی تعلقات میں دراڑ ڈالنے کی کوشش ہیں۔

یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ عمران خان کو شریف خاندان اور زرداری کے خلاف ’بدعنوانی‘ کا الزام عائد کرنے پر کس نے تیار کیا اور کہاں سے انہیں جھوٹی سچی معلومات فراہم کر کے سیاسی لیڈروں کو چور اچکے اور لٹیرے قرار دے کر ان کے خلاف فضا ہموار کرنے اور نام نہاد باجوہ ڈاکٹرائن کے تحت تیار کیے گئے ہائبرڈ انتظام میں عمران خان کو ہیرو کے طور پر سیاسی منظر نامہ پر چھا جانے کے لئے زاد راہ فراہم کیا گیا۔ اب عمران خان اعتراف کر رہے ہیں کہ انہوں نے ایجنسیوں کی معلومات کو اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کیا تاکہ ان کے لئے سیاسی راستہ ہموار ہو سکے البتہ اس پر شرمندہ ہونے کی بجائے وہ یہ سوال کر رہے ہیں کہ جو جھوٹ میرے ذریعے عام کیا گیا تھا اسے عدالتی نظام پر دباؤ ڈال کر ’مستند‘ کیوں قرار نہیں دیا گیا تاکہ وہ ’حسب وعدہ‘ آٹھ سال تک ملک پر حکمرانی کر سکتے۔ جن طاقت ور عناصر کی انگلی پکڑ کر عمران خان سیاسی عروج کے موجودہ مقام تک پہنچے ہیں، اب ان سے ان کی بیگانگی برداشت نہیں ہوتی یعنی لیلی اقتدار سے دوری قبول نہیں ہے۔

اسی بے چینی میں گزشتہ روز کے سیمنار میں ’نیوٹرلز‘ سے سوال کیا گیا ہے کہ موجودہ حکمرانوں کو نیب کے ذریعے قائم کیے گئے جھوٹے مقدمات میں سزائیں دلوانے، نا اہل کروانے اور عمران خان کے لئے مستقل طور سے راستہ ہموار کرنے کی بجائے، انہی ’رو سیاہوں‘ کو اقتدار کے سنگھاسن پر کیوں بٹھا دیا گیا۔ حالانکہ عمران خان کو یہ جواب دینا چاہیے تھا کہ عوام کا حقیقی نمائندہ نہ ہونے کے باوجود اگر انہیں انتخابی دھاندلی، جوڑ توڑ، چھوٹی پارٹیوں و آزاد ارکان کی حمایت کے ذریعے ’اقتدار‘ دلوانے کا اہتمام کیا گیا تھا تو وہ ڈلیور کرنے میں کیوں کامیاب نہیں ہوئے۔

اس گلہ شکوہ کی حقیقت محض اتنی ہے کہ یہ دھوکہ محض اسٹبلشمنٹ نے نہیں دیا۔ عمران خان یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ کہ انہیں جن کہانیوں کو بیچ کر عوام کو بے وقوف بنانے کے کام پر لگایا گیا تھا، وہ جھوٹ ہی تھا اور اس جھوٹ کو اسی وقت تک ’سچ‘ ثابت کیا جاسکتا تھا جب خود عمران خان بھی کوئی کارکردگی دکھانے اور نظام میں مناسب تبدیلی لانے کا باعث بنتے۔ درحقیقت اگر ایک طرف اسٹبلشمنٹ عمران خان کو سیاسی مخالفین کے بارے میں پروپیگنڈا کا مواد فراہم کر رہی تھی تو دوسری طرف عمران خان بھی نہایت چالاکی سے اسٹبلشمنٹ کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہوئے تھے کہ وہی ایسا ’گوہر نایاب‘ ہیں جو کسی سامری کی چھڑی سے سارے معاشی مسائل حل کردے گا، ملک میں دودھ و شہد کی نہریں بہنے لگیں گی اور افواج پاکستان کو اپنی بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے لئے مزید وسائل دستیاب ہونے لگیں گے۔ اگر اسٹبلشمنٹ تحریک انصاف کو اقتدار کا تسلسل فراہم نہیں کر سکی تو عمران خان نے بھی اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں ملکی معیشت کو تباہی کے اس گڑھے تک پہنچا دیا کہ ملک کے دفاعی اخراجات بھی غیر ملکی قرض سے پورے ہونے کی نوبت آ پہنچی۔ کون سی فوج ہوگی جو ملک کو تباہی کے اس خطرناک راستے پر جاتا دیکھ کر مسلسل ’جانبداری‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا سارا بوجھ عمران خان جیسے ناکام اور عقلی لحاظ سے تہی دست لیڈر کے پلڑے میں ڈال کر خود اپنے وجود کے لئے مشکلات کا نا ختم ہونے والا سلسلہ جاری رکھتی؟

عمران خان کو جاننا چاہیے کہ اسٹبلشمنٹ نے صرف ’غیر جانبدار‘ ہونے کا فیصلہ کیا، اس نے ابھی تک نئی اتحادی حکومت کو تائید و حمایت کی وہ سہولت فراہم نہیں کی جو تحریک انصاف کو تین سال تک دستیاب رہی تھی۔ عمران خان کو احساس ہونا چاہیے کہ اسٹبلشمنٹ کو غیر جانبداری کا طعنہ دینے اور اللہ کے واسطے دے کر اپنی حمایت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی بجائے، یہ جاننا چاہیے کہ اب حالات 2013 سے سفر کرتے ہوئے 2022 میں داخل ہوچکے ہیں جن میں عمران خان کے دور اقتدار کے ساڑھے تین سال بھی شامل ہیں۔ تمام قومیں، ادارے اور سیاسی لیڈر وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی ضرورتوں کا احساس کرتے ہیں اور ان کے مطابق پوزیشن اختیار کرتے ہیں۔ لیکن عمران خان کا وہی انداز پرانا کے مصداق اب تک لاڈلا بن کر کھیلنے کو مانگے چاند والا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ اب چاند دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے کیوں کہ ملکی معیشت جس بحران سے گزر رہی ہے، اس سے نکلنے کے لئے سخت محنت، تحمل اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہوگی۔ عمران خان ایسی کسی بصیرت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہیں۔ اس لئے اب انہیں لاڈلے بننے کا خواب دیکھنے سے گریز کرنا چاہیے۔

شہباز شریف حکومت کے بارے میں کوئی بھی رائے قائم کی جا سکتی ہے لیکن عمران خان کو شکر گزار ہونا چاہیے کہ اتحادی جماعتوں اور بطور خاص مسلم لیگ (ن) نے ملکی معیشت میں پیدا کیے گئے بگاڑ کا سارا بوجھ اپنے سر لے کر عمران خان کو سیاسی نعرے لگانے اور عوام میں سرخرو ہونے کے قابل بنا دیا۔ تصور کیا جائے کہ اگر عمران خان مسلسل اقتدار میں ہوتے، آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنے پر مجبور ہوتے اور عوام مہنگائی کی صورت میں اس کے اثرات کا سامنا کر رہے ہوتے تو وقت مقررہ پر ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف کو کتنی نشستیں حاصل ہوتیں؟ اب وہ موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کو ’غلامی اور عوام دشمنی‘ قرار دیتے ہوئے عوام کو نیا دھوکہ دینے کی جس پوزیشن میں ہیں، اس کا نمونہ وہ پنجاب کے ضمنی انتخاب میں کامیابی کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔ عمران خان اگر آئندہ انتخابات تک صبر سے کام لیں اور موجودہ نظام کو کام کرنے دیں تو وہ کسی بھی قسم کی کارکردگی کے بغیر ایک بار پھر عوام کے ایک گروہ کو سحر زدہ کرنے میں کامیاب ہیں اور اس کا سیاسی انعام بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ البتہ انہیں متنبہ رہنا چاہیے کہ آئینی انتظام کو تباہ کرنے کی جو کوشش وہ کر رہے ہیں، اس کے نتیجہ میں تباہی کا جو طوفان اٹھ سکتا ہے، عمران خان بھی اس سے محفوظ نہیں رہیں گے۔

اسلام آباد میں کی گئی تقریر میں عمران خان پاکستانی فوج کو ’حب الوطنی‘ پر مبنی اپنا کردار ادا کرنے اور موجودہ حکومت کو اقتدار سے محروم کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔ اسی تقریر میں انہوں نے اپنے چیف آف اسٹاف شہباز گل کے ٹی وی انٹرویو کو غلط بھی قرار دیا ہے۔ شہباز گل پر فوج میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرنے کا الزام عائد ہے جو ملکی قانون و آئین کی خلاف ورزی ہے۔ عمران خان نے اپنی تقریر میں فوج کو وہی اقدام کرنے کا مشورہ دیا ہے جو ’میرے عزیز ہموطنو‘ کہتے ہوئے متعدد فوجی جنرل ملک پر فوجی آمریت مسلط کرتے ہوئے کرچکے ہیں۔ کیا فوج کو ایک منتخب حکومت کے خلاف اقدام کا مشورہ دینا بھی آئین سے ویسی ہی غداری نہیں ہے جس کا ارتکاب شہباز گل کرچکے ہیں اور جسے اب عمران خان بھی غلط قرار دینے پر مجبور ہیں۔ عمران خان کو ایسی آئین شکن گفتگو کرتے ہوئے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ ملک اب کسی قومی لیڈر کو ’غدار و آئین شکن‘ قرار دے کر منظر نامہ سے ہٹانے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اسی تقریر میں جب ملک کا سابق وزیر اعظم سی پیک معاہدوں میں موجودہ وزیر اعظم کے صاحبزادے پر کک بیکس لینے کا الزام عائد کرتا ہے تو اسے یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس الزام کی زد میں صرف سلمان شہباز نہیں آتا بلکہ وہ بالواسطہ طور سے چینی حکومت پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ سی پیک سے اپنے مفادات پورے کرنے کے لئے غیر قانونی ہتھکنڈے اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ یہ وہی الزام ہے جو امریکی اہلکار چین پر عائد کرتے ہوئے پاکستان کو سی پیک منصوبہ سے باز رہنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ یوں تو عمران خان پاکستان کو امریکہ سے آزادی دلانے کے سفر پر گامزن ہیں اور اپنے دعوے کے مطابق ملک پر امریکی نامزد حکومت مسلط ہے۔ پھر پاک چین اقتصادی راہداری کے خلاف امریکی ایجنڈے کو پورا کرنے کی کوشش کیوں کر رہے ہیں؟ ستم ظریفی ہے کہ عمران خان نے یہ گفتگو آزادی اظہار پر منعقد ہونے والے ایک سیمینار میں کی ہے۔ انہوں نے خود کو میڈیا کی آزادی کا چیمپئن بنا کر پیش کیا۔ جو لیڈر ملکی آئین کو نہ مانتا ہو، عدالتی نظام پر اعتبار نہ کرتا ہوا ور جمہوری انتظام کی بجائے ’طاقت کے طریقوں‘ سے اقتدار حاصل کرنے کی بھیک مانگ رہا ہو، اس سے آزادی رائے کے احترام کی توقع کیوں کر کی جا سکتی ہے؟

بشکریہ کاروان نو
واپس کریں