دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ایک پاکستانی کی خود کلامی
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
دو ہزار سال قبل افلاطون کہہ گیا تھاکہ وہ ملک تباہ ہو جاتے ہیں جہاں تاجر اور فوجی حکومت کریں۔ سرمایہ دار مزاحمت نہیں کر سکتا، اس کے مدنظر ہمیشہ پہلے اپنے مالی مفادات ہوتے ہیں۔ا وہ ان کو بچانے کے لیے قومی معاملات میں مجرمانہ سمجھوتے کرتا ہے۔جس مجرمانہ حد تک پہنچی ہوئی مصلحت پسندی کے مظاہرے آج ہم اپنے ملک کی قومی سیاست میں دیکھ رہے ہیں،اسی طرح حکومت چلانے کے لیے جس علم ، فراست ،فہم اور لچک کی ضرورت ہوتی ہے، فوجی اس سے محروم ہوتا ہے ۔اس کی تربیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اس کی نظر میں صرف دو طرح کے انسان ہوتے ہیں، یا دوست یا دشمن ۔اسے صرف دو ہی رنگ نظر آتے ہیں ،سیاہ و سفید ۔دیگر کسی ممکنات کو اس کاذہن ہی تسلیم نہیں کرتا ۔اس کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ سازش کا طریقہ اختیار کرتا ہے ، جو مزید نقصان کا باعث بنتا ہے۔

یہ ویسے ہی ہوتا ہے جیسے محاورہ ہے کہ قانون کا نفاذ غیر قانونی طریقے سے، لیکن اس طرح انارکی اور انتشار تو پھیل سکتا ہے,، قانون نافز نہیں ہو سکتا۔ قانون ہمیشہ قانون کے طریقے سے ہی نافذ ہو سکتا ہے۔ کوئی دھوکہ کوئی فراڈ اس سلسلے میں کارآمد اور دیرپا حل کبھی ثابت نہیں ہوا کرتا ۔چرچل نے اسی ذہنیت کے بارے میں کہا تھا کہ جنگ اتنا اہم معاملہ ہے کہ اسے صرف فوجیوں کے ہاتھ نہیں دیا جا سکتا ۔

ہم اپنی تاریخ میں اس رویے کے ثبوت دیکھ چکے ہیں جب جنرل ایوب خان کشمیر کے لیے انیس سو پینسٹھ کی جنگ کرتا ہے اور پھر اس جنگ کے اختتام پر معاہدہ تاشقند میں کشمیرکا لفظ تک نہیں لکھوا پاتا ، اور اسے بھی فخریہ طور پر اپنی فتح بتاتا ہے ۔اسی طرح پرویز مشرف ایک طرف حکومت اور اپنی ہی دیگر فورسز کو بتائے بغیر کارگل کرتا ہے ،اور پھر یہی مشرف کھٹمنڈو کانفرنس میں خود جا کر بیٹھے ہوے واجپائی کے سامنے ہاتھ بڑھا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔گویا وہی بلیک اینڈ واٹ یا فتح یا شکست ۔

ان سیاست دانوں اور لیڈرز کی زبانیں کسی قومی مفاد یا مصلحت نے نہیں۔ان کے اپنے اور اولادوں , خاندانوں کے مالی مفادات نے پکڑ رکھی ہیں ۔اگر انسان یا لیڈر خود صاحب کردار ہو تو کسی ماتحت کی کیا مجال کہ سرکار اور مملکت و حکومت کی ہی دی ہوئی طاقت سے ان کو بلیک میل کرے،یا ان کو کوئی غیر قانونی و غیر آئینی حکم دے ۔ اسی وجہ سے یہ سیاست دان اور لیڈرز بلا تخصیص ان ماتحتوں، جن کو یہ قانونی طور پر یک جنبش قلم معزول کرنے کا مملکت کے قانون و آئین کی مضبوط ضمانت کے تحت مکمل اختیار رکھتے ہیں، ان ہی بلیک میلر مجرموں کے آگے چوں چوں کرتے ہیں۔ان ہی سے مدد کی درخواستیں کرتے ہیں۔

ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ جب وہ ان سے کوئی غیر آئینی و غیرقانونی مطالبہ کرتے ہیں،تو جیسے وہ اِن کی وڈیوز اور آڈیوز بنا کر ان کو بلیک میل کرتے ہیں۔یہ بھی ان کی ان خلاف قانون و آئین زبانی ، تحریری و دیگر مراسلت و پیغام رسانی کو ثبوت کے طور پر قوم کے سامنے رکھتے ہوئے، ان کو اعلانیہ معزول کیوں نہیں کر دیتے ۔ان کے خلاف تحت ضابطہ کاروائی ،تحقیقات اور کورٹ مارشل وغیرہ جیسے اقدامات کا فوری علان کیوں نہیں کرتے ؟
اگر یہ نام نہاد مصلحت زدہ حکمران اور لیڈرز ایسا کرنے کی ہمت پیدا کریں تو کسی کی کیا مجال کہ وہ ملک و قوم کے خلاف اس طرح کھل کر سازشیں کریں۔ اپنے ہی ملک کے اثاثہ جات , صلاحیتیں, اختیارات اور طاقت اپنے ہی ملک و قوم اور اس کے نظام کے خلاف اعلانیہ طور پر سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے لیے استعمال کریں ، اور نوبت یہاں تک آ جائے کہ یہ قومی مجرم عوام کے سامنے اپنے ان کھلے مجرمانہ غیر قانونی اور غیر آینی اقدامات کی وکالت بھی کریں، اور ان کھلے مجرمانہ اقدامات کو اپنی کارکردگی اور کارنامے بنا کر پیش کریں ۔

دشمن کے ساتھ کیسے تعلقات رکھنے ہیں،ان کو ملکی مفاد کے تناظر میں دیکھنے کے بجائے اپنے محکموں یا اداروں کے تحفظ کے تناظر میں یا ذاتی مفادات و تحفظ کے نقطہ نظر سے دیکھنے اور طے کرنے لگیں۔سی پیک جیسے پراجیکٹ کا ذاتی ناجائز مفادات کے عوض ملک دشمن طاقتوں کے ہاتھوں سودا کر دیں،ملک کے قومی اہم ترین مالیاتی ادارے عالمی طاقتوں کے گماشتوں کے حوالے کر دیں، توباقی کیا رہ جاتا ہے؟ قوم کب تک خاموش رہے گی ۔ اور پاکستان کے جسم سے آکاس بیل کی طرح لپٹ کر اس کا خون پیتے اور خود پھلتے پھولتے ان عناصر سے کب پوچھے اور کب ان کا بھی قرار واقعی احتساب کرے گی ؟


واپس کریں