دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تخیل, قیاس اور تلخ حقیقت
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
علم ، تہزیب ، معاشرہ اور اخلاقیات, ایک طویل بتدریج علمی شعوری ,اور مسلسل جاری ارتقاء کے نتیجے میں نسل انسانی نے دریافت اور اختیار کیں ، تاکہ " جبلّت " کی وحشت اور خود غرضی کو لگام پہنائی جا سکے ، گو کہ ابھی تک اس مقصد میں مکمل کامیابی تو نہ حاصل ہو سکی، لیکن اتنا ضرور ہوا ہے ،کہ ایک بہتر، معیاری اور غیر متعصبانہ معیار سامنے آ چکا ہے ، جس کو نشان منزل بنا کر موثر جدوجہد کی جا سکتی ہے ۔ ابھی تک کے تمام علم و ہنر و اخلاقیات کا نتیجہ اسی معیار کی دریافت اور حدود کا واضع ہونا ہی ہے، جس کی وجہ سے اب زیادہ رفتار سے اس معیار کے حصول کے لئیے سفر ممکن ہو چکا ہے ۔

اب یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ اخلاقیات کوٸی جامد شٸے نہیں , بلکہ یہ براہ راست انسانوں کے طرز زندگی اور مفادات کے ساتھ منسلک رہی ہیں , ول ڈیورانٹ بجاء طور پر اس ضمن میں مختلف مِثالوں اور دلاٸل کے ساتھ لکھتے ہیں, کہ انسانی سماج اور اس کی ضروریات کے لحاظ سے اچھاٸی اور براٸی کا مقام تبدیل ہوتا رہا ہے , آج جو اچھاٸیاں سمجھی جاتی ہیں, ماضی بعید میں وہ براٸیاں سمجھی جاتی تھیں, اور جن باتوں یا افعال کوآج ہم براٸیاں, سمجھتے ہیں وہ ماضی بعید میں اچھاٸیاں رہ چکی ہیں, مثال کے طور پر دور قدیم میں زراعت اور گلہ بانی کے ادوار سے قبل کے شکاری دور اور معاشرے میں بےرحمی , ظلم, چوری , دوسرے کے چیز یا شکار چھین لینا یا اس پر قبضہ جما لینا , دھوکہ , اور کنبہ یا خاندان چھوٹا رکھنا, تاکہ شکار کا گوشت وغیرہ پورا پڑ سکے , وغیرہ ایسی خصوصیات سمجھی جاتی تھیں جن کے بغیر اس دور اس ماحول اور اس کے تقاضوں کے تحت زندہ رہنا ہی ناممکن تھا , لیکن بعد میں جب انسان نے گلّہ بانی ,یعنی مویشیوں کے ریوڑپالنے شروع کٸیے, اور پھر کھیتی باڑی شروع کی, تو زندگی کے تقاضےبدل گٸے , اب بڑے کنبے , بڑے خاندان , اور بڑے قبیلے کی ضرورت تھی , اب دوسرے کامال چوری کرنا جرم اور براٸی بن گٸی , اور فالتو فاضل پیداوار کی وجہ سے تشکیل پانے والی ملکیت اور خاندان کو وراثت کی وجہ سے تقدس حاصل ہو گیا , اور اب علم ساٸنس ,ٹیکنالوجی کے اس جدید صنعتی دور میں پھر سے سماجی طور پرمعاشی صورتحال اور طریقہ ہاے روز گار میں تبدیلی کے پیش نظر اب پھر سےچھوٹا خاندان دوبارہ سے سماجی چلن اور ضرورت بنتا جا رہا ہے , گویا کہ خاندان کا ساٸز بھی متغیر معاشی اور معاشرتی تقاضوں کی زد میں آ کر ماضی کے برعکس مختصر خاندان کے ” رواج “ اور ضرورت, میں بدل چکا ہے۔

ہماری موجودہ مروجہ اخلاقیات کا اگر گہراٸی سے تجزیہ کیا جاے, تو ان کی جڑیں ہمیں ان قدیم ادوار سے جا ملتی دکھاٸی دیتی ہیں اور ساتھ ہی موجودہ اخلاقی قوانین کے پیچھے موجود افادیت, اور ان کی وجوہات کا شعور بھی حاصل ہوتا ہے ۔ موجودہ جدید اخلاقی ضابطوں اور قوانین کی بنیادی خصوصیت یہ بھی ہے کہ کیوں کہ یہ معیار انسان نے خود اپنی ضرورت اور اجتماعی بہتری و بہبود کے مقاصد سے باہمی مشورے سے مقرر کئیے ہیں، اور یہ کوئی الہامی اخلاقیات کا سا تقدس بھی نہیں رکھتے، لہزا جب بھی ان میں مزید بہتری اور سہولتِ اجتماعی کے مقصد سے بہتری یا تبدیلی کی ضرورت پڑے, تو بغیر کسی احساسِ ، یا ارتکابِ جرم کے ان کو باہمی مشاورت سے تبدیل اور مزید موثر و کارگر بنایا جا سکتا ہے ، جبکہ دوسری طرف نام نہاد تقدس کے پردے کے پیچھے چھپی خونخوار ، متعصب ، اور بےحس و جامد نام نہاد اخلاقیات جس کے پردے کے پیچھے وہی مخصوص جبر ، استحصال اور آمریت و ملوکیت براجمان دکھائی دیتی ہے ، ان قدیم اور جامد نظام ہا, اور پروٹوکولز کے دنیا میں بار بار مکمل طور پر ناکام ثابت ہونے کی بنیادی وجوہات وہی ہیں ، جن کو اہل مزھب, ان قوانین اور ان کے تحت ، اخلاقیات کی خصوصیت بتایا کرتے تھے، اور اب بھی بتاتے ہیں ۔ یعنی ان قوانین کا ناقابل تبدیلی اور ہر حال اور حالات میں غیر متغیر ہونا, ان نظریات اور اخلاقیات کا بنیادی مادہ ” اوہام “ پر مشتمل ہونا , ان قوانین و اخلاقیات کا ” عالم بالا “ سے انسانوں کے لٸیے نزول , ان کی نظر میں ان جامد اور ناقابل تغیّر قوانین کی سب سے بڑی خاصیت اور خصوصیت ہے، اور المیہ یہ کہ مختلف مزاھب کے درمیان ، باوجود اس کے کہ بنیادی اعتقادات تقریبا یکساں ہیں ، ان اخلاقی ضوابط اور پروٹوکولز پر آپس میں عدم اتفاق اور عدم اعتماد , باہمی جنگ و جدل و قتل و غارت اس بات کا واضع ثبوت ہے, کہ یہ سب خود ساختہ نظریات ہیں، کوٸی معبود یا دیوتا اتنا متعصب نہیں ہو سکتا, کہ اپنی ہی تخلیق , اور اپنی ہی مخلوق کے کسی گروہ کو راندہ درگاہ قرار دے دے, جبکہ قدرت کی طرف سے ودیعت کردہ انعامات , ہوا , پانی , سورج کی روشنی وغیرہ کی بلا تخصیص رنگ و نسل ومزھب تقسیم و عطاء کی مثال ہمارےسامنےموجود ہے ۔

گویا یہاں دیوتاوں کی منشاء کی تشریح پر خود ساختہ طور پر مامور انسانوں کا اصل مقصد معبود کے حکم و ہدایت کے مطابق بنی نوع انسان کی بہتری , سہولت , احترام نہیں بلکہ مقبوضہ سرزمینوں اوربدقسمت انسانوں کی زندگیوں پر مختلف بہانوں سے اختیار , قبضے اور ان سے مفادات کے حصول کا ہے , جس کے حصول کے لٸیے اپنے اپنے گروہ کے مفادات کو ایسے نام دٸیے اور لیبل لگاے جاتے ہیں گویا یہ سب کسی ماوراء دیوتا یا مقدس طاقت کی مرضی اور ہدایت ہے , کہ ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کے لٸیے جنگ اور نفرت کی جاے, ان کو قتل کیا جاے اور پر اور ان کے علاقوں پر قبضہ کیا جاے ۔ جس سے دیوتا بہت خوش ہوں گے , بلکہ وہ زاتی طور پر مدد بھی فرماٸیں گے , اور اس نام پر اپنے اپنے عقیدےکے پرچم کے نیچے آپس میں برسرپیکار ہرگروہ کو یہی زعم ہوتا ہے کہ ان کو ان کے دیوتاوں کی خوشنودی اور مدد حاصل ہے , گو کہ یہاں بھی بالاخر دراصل, تدبیر اور اسباب کو ہی فتح حاصل ہواکرتی ہے۔

عہد نامہ قدیم میں قوم بنی اسراٸیل کو مخاطب کر کے کہا گیاہے, کہ دشمنوں کے شہروں پر غلبہ حاصل کرو , ان کے تمام مردوں کو قتل کر دو , اور ان کی عورتوں کو غلام بنالو , اگر وہ اطاعت پر رضامند نہ ہوں, تو انھیں قید رکھ کر ان کاکھانا بندکردو , جب تک وہ اطاعت پر راضی نہ ہو جاٸیں “ قارٸین اگر آپ کے سینے میں دل ہے تو یہ ہدایت سب سے قدیم الہامی مزھب کے ماننے والوں کوان کے ” معبود “ کی طرف سے دی جا رہی ہے ,زیادہ گہراٸی سے نہ سہی سرسری طور ایک انسان کی حیثیت سے تجزیہ تو فرماٸیں, زرا سوچیں ۔ دور قدیم سے ہی اہل اقتدار و اہل حشم نے انسانوں کی محروم اکثریت کو اپنے مفاد کے لٸیے اپنے مقام اور حیثیت پر زہنی طور پر امید موہوم کے سہارے اکتفاء کر لینے اور اپنی پسماندگی اور محرومی پر مبنی اطاعت کو ایک ایسی " اچھائی یا نیکی " کی حیثیت سمجھنے کی تعلیم و ہدایت کے اعتقادات تشکیل دٸیے ، جہاں اپنی حالت اور پسماندگی کا باعث اور زمہ دار ان کے دیوتا ہوا کرتے تھے ، اور ان کے ساتھ اور ان کے آس پاس جو کچھ بھی ہوتا تھا , وہ ہی ان کے دیوتاوں نے ان کے لئیے تجویز اور مقرر کیا ہوا تھا ، لہزا دیوتاوں کی تقسیم اور انتظام پر کوئی اعتراض کرنا یا سوال اٹھانا بہت بڑا ناقابل معافی گناہ قرار دیا گیا, جس کی سزا مقتدر ، محکم اور اہل اقتدار نہ صرف دنیا میں دیتے, بلکہ مرنے کے بعد بھی ان " باغیوں " اور فساد پھیلانے والوں کے لئیے شدید سزا اور عزاب کی بشارت دی جاتی , لہزا اگر انسانیت نے بہتری کی طرف جانا ہے, تو آزمودہ طور پر ان فرسودہ ، ناکام ، متعصبانہ جامد نظریات کے حقیقی مقام اور حیثیت کو بہتر طور پر سمجھتے ہوے ان نظریات کو ان کے اصل مقام پر پہنچا دیا جانا چاہئیے ، جیسے ایسے خطرناک مجرم اور قیدی جن کی زات ، عمل اور سوچ سے معاشرے اور دیگر افراد کو خطرہ درپیش ہو, ان کو عام معاشرے سے الگ کر کے معاشرے کو ان کے ضرر سے محفوظ رکھا جاتا ہے ۔

اگر تو معلوم انسانی تاریخ میں ان اخلاقی ضوابط کے اطلاق کے نتیجے میں کبھی بھی کہیں بھی کوئی پائیدار ، بہتری ہمیں نظر آئی ہوتی ، اور یہ نظریات و اخلاقیات نسل انسانی کے علمی و شعوری سفر کا ساتھ دینے کے قابل ہوتے ، تو آج اس کرہ ارض پر موجود تقریبا سات ارب انسانوں کے سینکڑوں ممالک, اور ہزاروں معاشروں یا سماجوں میں سے کہیں نہ کہیں ان نظریات و اخلاقیات کو ان کی عملی صورت میں آزمایا ، اور عمل میں لایا جا رہا ہوتا ، جس طرح آج علم و فن ، اور ہنر کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی کچھ قدیم ترین ساخت کے سادہ اوزار کام اور استعمال میں لاے جا رہے ہیں ، اس لٸیے کہ وہ قدیم اوزار یاطریقے آج بھی قابل عمل , قابل استعمال اور مفید ہیں, کیونکہ کچھ معاشروں یا افراد میں ان کے متبادل کسی جدید آلہ کی دستیابی نہ ہونے کی وجہ سے ان قدیم آلات کو ہی ان ہی مقاصد سے اپنی ضرورت کے تحت کام میں لایا جا رہا ہے ، مثال کے طور پر سائنس اورٹیکنالوجی میں اعلی ترین معیار کی ترقی کے باوجود آج بھی کچھ پسماندہ اور غریب معاشروں میں حیوانات کو رسل و رسائل کے زریعے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ، گو کہ یہ قدیم طریقے سست رفتار ہوتے ہیں ، اور ان میں مشینی زرائع کی نسبت بہت زیادہ وقت صرف ہوتا ہے ، لیکن دیر سے ہی سہی یہ قدیم طریقے اب بھی موثر اور کارگر ہیں ، اور اسی وجہ سے اس جدید دور میں ، مستعمل بھی ہیں ، انسان کی بنیادی فطرت ہی یہی ہے کہ اگر وہ تجربے ، مشاہدے یا علم کی بنیاد پر کسی چیز یا نظرئیے کو اپنے لئیے سہولت پیدا کرنے والا ، اور زندگی میں آسانی لانے والا سمجھتا ہے, تو وہ اسے اپنا لیتا ہے ۔

قدیم ترین معاشروں میں تجربہ ، مشاہدہ اور علم کے ساتھ ساتھ ایک اضافی خصوصیت بھی کام میں لائی جاتی تھی , جو قیاس , تشریح اور بعد ازاں یقین کی صورت میں بدل جایا کرتی ، گو کہ اس کے پیچھے کوئی ثبوت، یاحقیقت چاہے نہ ہو ، ہزاروں سال تک قدیم انسان سنجیدگی کے ساتھ یہ یقین اور ایمان رکھتا تھا, کہ وہ یا اس مقصد پر مامور افراد اگر چند عبادات ،مناجات اور قربانیاں کریں گے چڑھاوے چڑھاٸیں گے, تو تب ہی رات کے بعد صبح دوبارہ سے سورج نکلے گا ، خشک سالی کے دنوں کے بعد بارش ہو گی ، عبادات و مناجات سے شکار بافراط ، باآسانی اور جلد ملے گا ، ( شاید بےچارہ شکار کوئی دعائیں ، اشلوک ، بھجن یا مناجات نہیں جانتا ہو گا ، ورنہ کیوں وہ قتل ہو کر کسی دوسری پرجاتی کی غزا بنتا ) لہزا ان قدیم نظریات و اخلاقیات کی زرا برابر بھی کچھ افادیت ہوتی, تو یہ آج دنیا کے سینکڑوں ممالک میں سے کہیں نہ کہیں ضرور استعمال ہو رہے ہوتے ,کیونکہ کسی چیز اوزار یا نظرٸیے کی افادیت ہی درحقیقت اس کا ” میرٹ “ ہوتا ہے ۔


واپس کریں