دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مبینہ آڈیوز وڈیوز اور لال و لال
ظفر محمود وانی� ۔ فلسفہ کالعدم
ظفر محمود وانی ۔ فلسفہ کالعدم
ملک کے معروف بلڈر محترمی ملک ریاض کا ” دلی احترام “ ہر مکتبہ فکر, حلقے, ادارے اور جماعت میں پایا جاتا ہے , گو کہ ہمارے ملک میں ان کے علاوہ بھی بہت سے بڑے بلڈر ہیں , لیکن ان میں وہ بات کہاں ” مالوی مدن سی “ محترم ملک صاحب پاکستان کی سیاست اور نظام میں وہی حیثیت رکھتے ہیں , جو ہماری مشرقی اساطیری داستانوں میں ” پارس “ رکھتا ہے, یعنی اس سے چھو جانا ہی ایک حقیر بےقیمت پتھر کو سونے میں بدل دیتا ہے ,موصوف کی اس ہی صلاحیت نے بہت سے سیاست دانوں , صحافیوں اور بیوروکریٹس کو مَس کرکے کم از کم, دنیاوی طور پر، قیام اور بودو باش کی فکر سے آزاد کر دیا ہے۔ ان کی ہمہ جہت قابلیت اور صلاحیت کو دیکھتے ہوے اُن کو ” مکتبہ مَلک ریاض “ لکھنا زیادہ مناسب ہو گا , کیونکہ بعض شخصیات اپنی گونا گوں خصوصیات کی بنا پر ایک شخص کے بجاے ایک ”ادارے “ کی حیثیت رکھتے ہیں , اور خوش قسمتی سے مَلک صاحب کا شمار ایسی ہی شخصیات میں کیا جاتا ہے۔

حال میں ہی حکومتی ترجمان عطاء اللہ تارڑ صاحب اور محترمہ عظمیٰ بخاری نے ایک پریس کانفرنس میں ایک آڈیو کلپ کا زکر خیر فرمایا , جس میں تین سے پانچ قیراط کے ہیروں وغیرہ کا زکر موجود ہے جن کو انگوٹھی میں نصب کروانے کی قیمت بعد میں وصول کی جانی تھی , اس مبیّنہ آڈیو کی تُرنت تردید متعلقہ, ملوث بتاے جانے والی ” پارٹیوں کی طرف سے جاری کرتے ہوے, اس کلپ کو ” ڈیپ فیک ٹیکنالوجی سے تیارشدہ جعلی آڈیو کلپ بتایا گیا , گویا اب ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا زکر بھی ان ہی مقاصد کے لٸیے استعمال کیاجانے لگا ہے, کہ جس مقصد کے لٸیے یہ ٹیکنالوجی استعمال کی جا سکتی ہے , یعنی یہ اتنی حیرت انگیز اور مفید ایجاد ہے ,کہ اسے الزام , تاٸید اور تردید کے مقاصد سے بیک وقت مخالف فریقین کی طرف سے اپنے اپنے موقف کے حق میں استعمال کیا جا سکتا ہے , اور کبھی کبھی تو اس کے عملی استعمال کے بجاے معجزانہ طور پر اس کا زکر ہی وہی کام کرتا ہے جس کے لٸیے عام طور پر اس ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے , شاید اسی لٸیے ایسے آلات و سہولیات کو ” سوفٹ وٸیر “ کے نام سے بھی پکاراجاتا ہے ۔

لیکن ان الزامات اور جوابی الزامات کے قطع نظر محترم ملک ریاض اور سابق حکومت کے زعماء کے بارے میں اُس ثابت شدہ اور حقیقی سکینڈل کا حیرت انگیز طور پر کوٸی بھی فریق زکر نہیں کرتا , جب برطانیہ میں ملک ریاض سے جرمانے کی بھاری رقم جو اربوں روپے میں تھی , وصول کر کے پاکستان کی حکومت کے حوالے کی گٸی , جو رقم عمران نیازی صاحب نے اپنی کابینہ کے مشورے سے ” وسیع تر قومی مفاد “ میں, دوبارہ ان ہی ملک ریاض صاحب کے حوالے کر دی, جن سے برطانوی عدالت نے جرمانہ کر کے یہ رقم پاکستان حکومت کے حوالے کی تھی , معاملہ کے اس آسانی اور احسن طریقے سے نپٹ جانے سے اس ”وسیع تر قومی مفاد“ کی درست درست حدود کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے , کہ آخر ان حساس ترین ” حدود “ کے تحفظ کی زمہ داری بھی تو کسی نہ کسی پر ہو گی , گویا ” ہاتھی کے پاوں میں سب کا پاوں “ ۔

اب لگتا ایسا ہے کہ پراسرار طور پر اس حالیہ آڈیو کلپ کا جاری کروایا جانا , عمران نیازی صاحب کی پارٹی اور ان کی طرف سے ایک مقتدر ادارے کے موجودہ سربراہ کے خلاف توہین آمیز سوشل میڈیا مہم کا جواب ہے , لہزا امکان غالب یہی ہے کہ ان کو شٹ اپ وارننگ دینے کے لٸیے یہ کلپ جاری کروایا گیا ہے ۔ عوام کی دلچسپی کے لٸیے اس معاملے میں اتنا ہی کافی ہے, کہ اس طرح جوابی طورپر اس آڈیو کلپ کا منظر عام پر لایا جانا , اس بات کا ثبوت ہے , کہ یہ آڈیو کلپ فیک نہیں, بلکہ اصلی ہے , لیکن چونکہ یہ صرف ایک ” وارننگ “ کے طور پر جاری کرویا گیا ہے , تو یقین رکھیں اس پر عملی طور پر ہونا کچھ نہیں , جیسے اس سے قبل منظر عام پر لاے جانے والے مشہور زمانہ آڈیو و وڈیو کلپس کے منظر عام پر آنے کے بعد کچھ نہیں ہوا , نہ ہی کسی کے خلاف ان ثبوتوں کی بنیاد پر کبھی کوٸی کارواٸی کی گٸی , یا کرنے دی گٸی , ان میں ایک وڈیو آڈیو کلپ سابقہ چٸیر مین نیب کا عمران نیازی صاحب کی حکومت نے اپنے مشیر اور زاتی دوست کے ٹی وی چینل پر تب نشر کروایا تھا, جب اس وقت کے چٸیر مین نیب جسٹس (ر ) جاوید اقبال نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ اگر میں حکومتی ارکان کے خلاف بھی کارواٸی کروں، تو یہ حکومت فوری طور پر ختم ہو جاے گی , لہزا اس لٸیے میں کارواٸی نہیں کر رہا , جوابی طور پر حکمران پارٹی کی طرف سے یہ سر سے پیر تک کے زکر پر مبنی آڈیو وڈیو منظر عام پر لاے جانے کے بعد سابق چٸیر مین نیب کا جوش و خروش اور ولولہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا، اور موصوف کسی بچے جمہورے یا معمول کی طرح اس وقت کی حکمران پارٹی قیادت کے احکام کی تعمیل کرتے دکھاٸی دیتے رہے ۔

اسی طرح ایک وڈیو نواز شریف کو سزا سنانے والے مرحوم جج ارشد کی بھی سامنے آٸی تھی, جس میں وہ کسی ”سچے لمحے اور کیفیت “ میں بتا رہے ہیں , کہ کس طرح ایک ساز کی طرح ان کی کچھ تاریں کس کر اور کچھ ڈھیلی کر کے نواز شریف کے خلاف اُس بدنام عدالتی فیصلہ کی دُھن ترتیب دی گٸی تھی , اور اس سلسلے میں ان کوبلیک میل کرنے کے لٸیے ماضی میں کبھی ان کی ملتان تعیناتی کے زمانےکی ایک قابل اعتراض وڈیو کو استعمال کیا گیا تھا , اتنے بڑے اقرار اور انکشاف کے بعد مسلم لیگ (ن ) اس وڈیو کا معاملہ سپریم کورٹ میں لے گٸی , جہاں اس وقت کے چیف جسٹس , جسٹس کھوسہ نے کسی ایسی وڈیو کی تصدیق کے لٸیے ایسی لاتعداد شراٸط عاٸد کر دیں , جن کا پورا ہونا عملی طور ناممکن تھا , ان میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ یہ خفیہ وڈیو بنانے والا خود عدالت کے سامنے پیش ہو کر یہ اقرار اور تصدیق کرے کہ اس نے ہی خود یہ وڈیو بناٸی ہے , گویا وڈیو کی تصدیق یا فیصلے کےمرحلے سے پہلے ہی اس وڈیو بنانے والا کا تیا پانچہ نما حساب کتاب کردیا جاے , تاکہ آٸندہ اور کوٸی ” رازداری کے اسلامی احکامات کے خلاف“ ایسی قبِیہہ حرکت کرنے کی جراٰت نہ کر سکے , پھر اسی کیس میں وڈیو بنانے والا ایک نامعلوم مجہول سا شخص بھی سامنے لایا گیا , جس پر نامعلوم تفتیشی اداروں کی طرف سے شدید تشدد کر کے اس سے توبہ کرواٸی گٸی , اور اس کے بعد اس شخص کا کچھ نام ونشان نہیں ملا , گویا اس شخص کی یہ عبرت ناک حالت بنا کر ایسا سوچنے والوں کو بھی مناسب انداز میں تنبِیہ کر دی گٸی ۔

اس کے بعد گلگت بلتستان کے چیف کورٹ جج مسٹر شمیم کی طرف سے سابقہ چیف جسٹس, ثاقب نثار کی گلگت کے دورے اور ان کے پاس قیام کے دوران بناٸی گٸی ایک فون کال کی ریکارڈنگ بھی منظر عام پر آٸی ,جس میں موصوف سابق چیف جسٹس, کسی اور جج کوکسی عدالتی فیصلے کے بارے میں ہدایات دیتے ہوے سنے جا سکتے تھے , یہ آڈیو سامنے لانے والے سابق چیف کورٹ جج صاحب نے اس مبینہ آڈیو کا باقاٸدہ لندن اور امریکہ میں فورانزک ٹیسٹ بھی کروا کر رپورٹس ساتھ لف فرماٸیں , لیکن سپریم کورٹ میں, الٹے ان سابق چیف کورٹ جج صاحب کے خلاف مختلف الزامات عاٸد اور کارواٸی شروع کر دی گٸی اور شدید دباو اور کھلی دھمکیوں کے زریعے بالآخر موصوف کو خاموشی پر مجبور کر دیا گیا ۔

ایک اور کسی دو منٹ اور اکتالیس سیکنڈ کی کسی وڈیو کا چرچا بھی کچھ عرصے سے مختلف صحافتی اور عوامی حلقوں میں سننے میں آتا رہا ,اور اس کے رنگین زکر کی وجہ سے اور اس میں ” معروف ترین “ اداکاروں کی موجودگی کی وجہ سے اس وڈیو کا عوامی حلقوں میں شدت سے انتظار کیا جانے لگا , اس ضمن میں اس وڈیو کا انکشاف کرنے والے صحافیوں نے یہ مضحکہ خیز ” عزرِ گناہ “ پیش کر کے اسے عام کرنے سے معزرت کر لی کہ بقول ان کے یہ وڈیو دیکھتے ہوے ان کے کان سرخ ہو گٸے , لہزا ان کی”اخلاقیات “اس وڈیو کو عوام میں عام کرنے کی ” اجازت “ نہیں دیتی یہاں ان صاحبان لوح و قلم کی اخلاقیات سے مراد نہ جانے کس شخصیت یا ادارے کی طرف تھی , اس بارے میں ابہام ہے۔ یعنی سوشل میڈیا پر زکر ,تشہیر اور اس کو دیکھنا تو اخلاقی لحاظ سے درست تھا , لیکن اس وڈیو کی اخلاقی اور سیاسی نوعیت کے پیش نظر ” اب “ اس کو عام کرنے پر ان کا ” ضمیر “ راضی نہیں , گویا ثابت یہ ہوا کہ تربوزوں اور دیگر جسمانی اعضاء کے ” لال لال “ہونے کے علاوہ ” کان “ بھی لال ولال ہو جایا کرتے ہیں , جس کی تشخیص کے مطابق یہ کیفیت شرم کی زیادتی کے علاوہ ” گوشمالی “ کے زریعے بھی ممکن ہے ۔ لہزا شاید اس مبینہ لال و لال والی وڈیو کا زکر ہی کافی ثابت ہوا اور لگتا ہے کہ یہ وڈیو اپنی حساس ترین نوعیت کے پیش نظر, جاری ہوے بغیر اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی ۔ ” زکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ ان کی محفل میں ہے “
واپس کریں